صیغہ راز__!
رات نے اپنے پر ہر سو پھیلا دیے تھے۔وہ بیڈ شیٹ صحیح کر رہی تھی جب زارون کمرے میں داخل ہوا۔
"گل مجھے تم سے بات کرنی ہے"زارون کا لہجہ سنجیدہ تھا اور اُس کے یوں کہنے پر اُس کے بیڈ شیٹ صحیح کرتے ہاتھ تھمے اور دل زور سے دھڑکنے لگا۔
وہ پلٹی اور اس کی جانب دیکھنے لگی۔
اُسے خود کی جانب تکتا پا کر اُس نے گفتگو کا آغاز کیا۔
"گل میرے خیال سے اب ہمیں کھل کر بات کرنی چاہیے"اُس کا لہجہ ہنوز سنجیدہ تھا اور اب گل کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور آنسو آنکھوں میں بھر کر گال پر بکھرنے لگے۔اُسے یوں دیکھ کر وہ گڑبڑایا۔
"گل کیا ہوا ہے؟تم رو کیوں رہی ہو؟سب ٹھیک تو ہے؟تم سے کسی نے کچھ کہا ہے؟میری کوئی بات بری لگی ہے؟ادھر دیکھو میری طرف۔۔۔"اُس نے ایک ساتھ ہی یہ سب سوال کیے اور اُس کا چہرہ تھوڑی سے پکڑ کر اوپر کیا۔
"ن۔۔نہیں مم۔۔میں نہیں رو رہی۔۔۔"اُس نے اپنے آنسو صاف کیے لیکن لہجہ اُس نے مضبوط رکھا تھا۔
"گل! آئی ایم سوری! میں تو بس تم سے کہنا چاہتا تھا کہ۔۔۔۔"اُس کے الفاظ منہ میں ہی تھے جب گل نے بے بسی سے اُس کا جملہ کاٹا۔
"آپ مجھے کیوں خود سے محبت کرنے پر مجبور کر رہے ہیں؟"اُس کا سوال عجیب سا تھا جبکہ زارون یہ سن کر حیران ہوا پھر دھیرے سے ہنس دیا۔
"تو کیا آپ مجھ سے محبت نہیں کرنا چاہتی ہیں؟"لہجہ کافی گہرا تھا جبکہ گل کوئی جواب نہ دے پائی۔
"تو مطلب آپ بھی مجھ سے محبت کرنے لگی ہیں؟صحیح کہہ رہا ہوں میں؟"اُس نے مزید اپنے قدم آگے بڑھائے اور اپنے اور اُس کے درمیان فاصلے کو ختم کیا اور اُس کے چہرے سے آنسو صاف کیے۔
"ن۔۔۔نہیں میں آپ سے محبت نہیں کرتی"
"لیکن ابھی آپ نے کہا کہ میں آپ کو خود سے محبت کرنے پر مجبور کر رہا ہوں"اُس نے تھوڑی سے اُس کا چہرہ اوپر کیے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے اسی کا سوال دہرایا لیکن گل نظریں چرا گئی اور خاموش ہی رہی۔
"اوکے فائن! آپ جواب نہیں دیں گی کوئی بات نہیں! لیکن گل میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ آپ ایک نا ایک دن ضرور مجھ سے اپنی محبت کا اظہار کریں گی"اُس کا لہجہ محبت سے بھر پور تھا۔
"آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے؟م۔۔میں آپ سے محبت نہیں کرتی"اُس نے فوراً سے کہا جس پر زارون دل کھول کر مسکرایا۔
"اہاں! چلیں محبت نہیں کرتیں مجھ سے تو پھر کیا کرتی ہیں آپ؟"زارون نے شرارت سے کہا پھر اُس کی آنکھیں چمکیں اور خود ہی سے پر جوش انداز میں جواب دینے لگا۔
"کہیں آپ کو مجھ سے عشق تو نہیں ہوگیا؟"اور سوال کر کے وہ پرشوق نظروں سے اُس کے چہرے کو تکنے لگا۔
"نہیں نہ ہے محبت ہے اور نہ ہی عشق ہے۔۔۔۔"
"نہ ہی عشق ہے اور نہ ہی محبت ہے پھر کیا ہے مسز زارون سکندر؟"زارون نے اُس کے چہرے پر جھولتی لٹ کو اپنی انگلی میں ڈالے سوال کیا جبکہ گل کی کپکپاہٹ وہ اچھے سے محسوس کر چکا تھا۔
"آ۔۔۔آپ مجھے نروس کر رہے۔۔۔"ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اُس سے یہی ادا ہوا تھا۔
"جاناں! آپ کو نہ ہی مجھ سے محبت ہے نہ ہی عشق ہے لیکن جب جب میں آپ کے قریب آتا ہوں تو جو یہ خوبصورت سے رنگ آپ کے چہرے پر بکھر جاتے ہیں یہ سب کچھ عیاں کر دیتے ہیں۔لیکن آپ کو مجھ محبت نہیں ہے مان لیتے ہیں۔"زارون نے ایک بار پھر سے اُس کا چہرہ تھوڑی سے پکڑے کہا جس پر وہ نظریں جھکا گئی اور زارون ایک بار پھر سے مسکرا دیا۔
"ہائے اس پیار کو کیا نام دوں!؟"اُس نے کہا اور اپنے سلگتے لب گل کی پیشانی پر رکھ دیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کا سورج ایک نئی کرن کے ساتھ آسمان پر چمکا تھا۔وہ اُس کا دلایا گیا سوٹ پہنے شیشے کے سامنے کھڑی تیار ہورہی تھی۔ان کی شادی کو ہفتہ بیت چکا تھا۔
لائٹ پیچ رنگ کے ریشمی کڑھائی سے بھرے شارٹ فراک کے ساتھ جارجٹ کا پینٹ پجاما تھا اور ساتھ میں اسی کے ہم رنگ دوپٹہ تھا جس پر تھوڑے فاصلے کے ساتھ موتی پیوست تھے۔
بالوں کو اُس نے ہمیشہ کی طرح ہالف کیچر لگا رکھا تھا اور خوبصورت سی جیولری اُس کے ساتھ زیب تن کر رکھی تھی۔
لائٹ سے میک اپ نے اُس کے خوبصورت چہرے کو مزید پرکشش و حسین بنا دیا تھا۔خود پر پرفیوم سپرے کرتی وہ ڈریسنگ روم سے باہر نکلی تو سامنے ہی زارون کھڑا ہوا تھا۔
وہ ٹھٹھکی۔زارون تو کب کا کمرے سے جا چکا تھا لیکن اتنی جلدی واپسی کی اُسے اُمید نہیں تھی۔
وہ جو کھڑا فون یوز کر رہا تھا اُس کے باہر آنے پر اُس کی جانب متوجہ ہوا اور اُسے دیکھ کر مبہوت کھڑا رہ گیا۔وہ واقعی بہت حسین تھی۔اور زارون جب جب اُسے دیکھتے تھا نئے سرے سے اُسے اُس سے محبت ہونے لگ جاتی تھی۔
"مسز آپ تو ہمیشہ مجھے خود سے نئے سرے سے محبت کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں"اُس نے نفی میں سر ہلاتے مدھم لہجے میں کہا۔اور وہ ہمیشہ گل سے اپنی محبت کا اعتراف کرتا رہتا تھا اور گل،ہولے سے مسکرا دی اور زارون کو ایسا محسوس ہوا کہ وقت تھم سا گیا ہو،شہزادی پھولوں سے پر راستہ پار کرتے مسکراتے اُس تک آرہی ہو جیسے کافی دیر سے اُس کے انتظار میں کھڑی ہو اور وہ ہاتھ تھام کر اُسے پکڑ لے اور اپنی موجودگی کا اُسے احساس دلائے۔
"آپ بہت خوبصورت ہیں گل!"اُس نے اپنے خیالوں سے نکلتے کہا اور چلتا اُس تک آیا۔
"مجھے لگتا ہے عنقریب رومیو کا خطاب آپ کو ملنے والا ہے"گل نے دھیمے لہجے میں کہا لیکن زارون سن چکا تھا۔
"ہاں نہ پتا چلنا چاہیے سب کو کہ اب کی بار رومیو نے اپنی بیوی سے بے جا محبت کی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محبت گھٹی نہیں بلکہ محبت میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے"
اُس کے ان الفاظ پر گل کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔لڑکی تھی اور اوپر سے اُس کا ہر بار اظہارِ محبت اس کے دل کی دنیا کو تہس نہس کر دیتا تھا لیکن وہ بھی اپنی بات کی پکی تھی،اظہار کبھی نہیں کرے گی۔
لیکن یہ بھی اس کی بھول ہی تھی وہ وقت دور نہیں تھا جب وہ خود زارون سکندر سے اپنی محبت کا اظہار کرنے والی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"دادا سائیں آپ کو نہیں لگتا کہ زارون بھائی اور گل کو سیر کے لیے جانا چاہیے؟ہفتہ ہوچکا ہے ان کی شادی کو اب تو"احمر دادا سائیں سے مخاطب ہوا۔
"ہاں نہ میں نے بھی یہی تو کل زارون کو کہا تھا کہتا کہ میں گل سے بات کرتا ہوں پھر جانے کہ پروگرام بناتے ہیں۔کیا بنا زارون؟کیا پلان بنایا ہے پھر تم دونوں نے؟"دادا سائیں نے احمر کو جواب دیتے زارون سے سوال کیا۔
"دادا سائیں رات کو یہی پوچھنے لگا تھا میں گل سے لیکن۔۔۔"وہ خاموش ہوا اور گل کی جانب دیکھا جو اُسے دیکھنے پر فوراً سے نظریں چرا گئی۔
"گل بیٹا آپ بتا دو آپ کہاں جانا چاہتی ہو؟"سکندر صاحب نے اُس سے سوال کیا۔
"بابا جیسے آپ لوگ چاہیں"اُس نے مدھم لہجے میں جواب دیا۔
"لو بھلا تم دونوں نے جانا ہے تو تم بتاؤ کہاں جانا چاہتے ہو؟"عائشہ بیگم فوراً بولیں۔گل بچاری کے چہرے پر حیا کے رنگ بکھر گئے۔
"مالدیپ،پیرس،اٹلی،ترکی یہ سب جگہیں بہت اچھی ہیں جانے کے لیے"میرہ نے گل کے کان میں سرگوشی کی تو گل بس اُسے دیکھ کر رہ گئی۔
"تمہیں بڑا پتا ہے کون سی جگہیں اچھی ہیں"مسی اُن دونوں کے پاس ہی بیٹھی تھی اسی لیے مشکوک نظروں سے میرہ کی جانب دیکھتے سوال کیا۔
"مسی میں بھی یہی پوچھنے والی تھی اس سے۔بہت چیز ہے یہ کوئی"گل نے اُس کا کان ہلکے سے پکڑ کر موڑا۔
"دفع!! میں تمہارا بھلا کر رہی ہوں اور ایک تم ہو ہنہ۔۔۔"میرہ نے منہ بنایا تو مسی اور گل ہنس دیں۔
"میرے خیال سے نادرن ایریاز میں جانا اچھا رہے گا"زارون نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔اُس کے ذہن میں وہ ہفتے کا ٹرپ گردش کرنے لگا جو ان سب نے ساتھ گزارا تھا۔وہاں گل نے اسے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ پہاڑوں کی دیوانی ہے۔سو فیصلہ کرنے میں کچھ پل ہی لگے تھے۔
گل نے اُس کی جانب دیکھا دونوں کی نظروں کا ارتکاز ہوا۔
"واؤ بھائی آپ کو پتا ہے گل کو نادرن ایریاز کتنے پسند ہیں؟"میرہ نے خوش ہوتے سوال کیا۔
"میں نہیں جانوں گا تو اور کون جانے گا؟"زارون کے سب کے سامنے اسطرح کہنے اور گل سٹپٹا گئی۔
"اوہ۔۔۔۔۔!!!!!"سب بچوں نے شوخی سے اُنہیں چھیڑا جس پر زارون تو ہنس دیا جبکہ گل بس نظریں جھکا کر اپنے دل کو قابو کرتے رہ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"حیات صاحب گل کا کھانا رکھ لیتے ہیں کل کا کیا خیال ہے آپ کا؟"زوبیہ بیگم نے اپنے ہاتھوں پر لوشن لگاتے سوال کیا۔
"دیکھ لو زوبیہ جیسی تمہاری مرضی"
"سہی ہے پھر میں اُسے کال کر لیتی ہوں کل کا ڈنر وہ دونوں ہمارے ساتھ کریں گے"زوبیہ بیگم نے کہا اور فون اٹھائے اُس کا نمبر ملانے لگیں۔
"اسلام علیکم موم! کیسی ہیں آپ؟"فون اٹھاتے ساتھ ہی اُس کی آواز اسپیکر پر گونجی۔
"میں ٹھیک ہوں الحمدللہ! تم کیسی ہو میری جان؟"
"میں بھی ٹھیک۔اور ڈیڈ کیسے ہیں؟"
"تمہارے ڈیڈ بھی ٹھیک ہیں پاس ہی بیٹھے ہیں"زوبیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے حیات صاحب کی جانب دیکھتے کہا۔
"اچھا گل بیٹے میں کے تمہارے ڈیڈی کل کے ڈنر کا سوچ رہے تھے۔تو کیا کل آپ دونوں فری ہو؟میں زارون کو بھی کال کر لوں گی لیکن میں نے سوچا پہلے تم سے پوچھ لوں کہ کل کا کوئی پلان تو نہیں؟"
"ممی ابھی کچھ کنفرم تو نہیں ہے زارون آتے ہیں ان سے پوچھتی ہوں اور امی سے بھی ایک بار پوچھ لوں"
"ہاں سہی ہے بیٹا کوئی بات نہیں۔اگر کل فری نہیں ہوگے تو بتا دینا میں کی اور دن کا ڈنر رکھ لوں گی"
"جی موم شیور!"وہ مسکرا دی۔
"اور گھر میں سب کیسے ہیں؟تمہارے ساس سسر اور باقی سب؟"
"سب ٹھیک ہیں موم! موم مجھے امی بلا رہیں آپ کو بعد میں کال بیک کروں؟"عائشہ بیگم کے بلانے پر اُس نے کہا۔
"ہاں ہاں جاؤ بیٹا شاباش! خیال رکھنا اپنا"انہوں نے کہے فون کاٹ دیا۔
"کیا کہہ رہی تھی گل؟"حیات صاحب نے سوال کیا۔
"کہہ رہی تھی ابھی کل کا کچھ کنفرم نہیں ہے۔میں نے کہا ہے کوئی بات نہیں جب فارغ ہوں بتا دیں تب کا ڈنر رکھ لیں گے"زوبیہ بیگم نے وضاحت دی تو حیات صاحب نے اپنا سر اثبات میں ہلا دیا۔
دوسری جانب وہ عائشہ بیگم کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ملازمہ ابھی ابھی پیغام دے کر گئی تھی کہ عائشہ بیگم اُسے اپنے کمرے میں بلا رہی ہیں۔
دروازہ نوک کیے وہ اندر داخل ہوئی۔عائشہ بیگم بیڈ پر بیٹھیں تسبیح پڑھ رہی تھیں۔
"امی آپ نے بلایا تھا؟"اُس نے سوال کیا۔
"ہاں بیٹا آؤ بیٹھو یہاں!"انہوں نے اُسے اپنے پاس بیٹھنے کا کہا۔وہ چلتی آئی اور ان کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی۔انہوں نے تسبیح مکمل کر کے سائڈ ٹیبل پر رکھی اور پوری طرح سے گل کی جانب متوجہ ہوئیں۔
"بیٹا جب ہماری شادیاں ہوئیں تھیں تو ہماری امی (ساس) نے ہمیں جو باتیں سمجھائیں تھیں میں وہ تمہیں بھی بتانا چاہتی ہوں۔تم یہ مت سمجھنا مجھے تم سے کوئی شکایت ہے یا میں تم پر بوجھ ڈال رہی ہوں میں تمہیں اپنی بیٹی کہتی ہی نہیں مانتی بھی ہوں اور یہ وہی باتیں ہیں جو میں میرہ کو بھی سمجھاتی۔"اُن کا لہجہ سادہ تھا۔
"جی امی میں جانتی ہوں۔میں جب سے یہاں آئی ہوں سب ہی بہت محبت کرتے ہیں کبھی غیر ہونے کا احساس نہیں ہوتا"گل نے مسکراتے ہوئے کہا تو عائشہ بیگم بھی مسکرا دیں فر اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔
"بیٹا یہ جو مرد ہوتا ہے ناں جب محبت کرنے پر آئے تو اس سے زیادہ کوئی محبت کر نہیں سکتا اور جب نفرت پر آئے تو پھر بھی اُس کا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔
مرد چاہتا ہے کہ اگر وہ اپنی عورت سے محبت کر رہا ہے تو بدلے میں وہ بھی اس سے اتنی ہی محبت کرے،اُسے اتنا ہی چاہے۔
یہ عورت ہی اتنی صابر ہوتی ہے جو مرد کی محبت کو اپنے دل میں دبا لیتی ہے اور جب عورت محبت کرتی ہے تو اُس کی محبت بے غرض و بے لوث ہوتی ہے۔وہ یہ نہیں کہتی کہ میں اگر مرد سے محبت کر رہی ہوں تو بدلے میں مرد بھی اُس سے اتنی ہی محبت کرتا ہو ہاں وہ چاہتی ہے کہ اُسے اپنائیت ملے،اُسے چاہت ملے،محبت کا جواب محبت سے ملے لیکن دو طرفہ محبت کو وہ "شرطِ محبت" نہیں رکھتی۔جب وہ محبت کرتی ہے تو انتہا پر کرتی ہے۔
عورت جب محبت کرتی ہے تو اس میں نفع یا نقصان نہیں دیکھا جاتا۔جب اگر عورت کو ٹھکرا دیا جائے تو وہ اپنی انا بیچ میں نہیں لے آتی،زبردستی پھر بدلے کے تحت اس انسان کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔
بس یہی فرق ہے ایک عورت کی اور ایک مرد کی محبت میں۔
عورت اپنا ٹھکرانا برداشت کر جاتی ہے لیکن مرد ٹھکرا دیے جانے کو اپنی بے عزتی،اپنی توہین سمجھتا ہے۔
لیکن جانتی ہو جو مرد اپنی عورت سے محبت کرتا ہے وہ عورت دنیا کی سب سے خوش قسمت ترین عورت ہوتی ہے۔
ہماری امی کہا کرتی تھیں کہ چاہنے والے مرد خوش نصیبوں کی قسمت میں لکھے جاتے ہیں۔
امی بتاتی تھیں جب وہ بیاہ کر آئی تھیں تو بابا سائیں کا رویہ اُن سے کچھ خاص نہیں تھا۔زیادہ تر وقت وہ باہر اپنے دوستوں کے ساتھ گزارتے تھے۔اور شادی کے ابتدائی دنوں میں ہی مرد اور عورت ایک دوسرے کو جان پاتے ہیں۔شروع میں جو عادات ڈل جائیں سو ڈل جائیں ورنہ باقی کی زندگی ایسے ہی گزر جاتی ہے"عائشہ بیگم کہہ رہی تھیں اور گل کو لگ رہا تھا کہ وہ اُس کو بیان کر رہی ہوں۔
"امی ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی تھیں،ان کے سارے کام خود کرنا۔یہ نہیں تھا کہ گھر میں ملازموں کی کمی تھی بابا سائیں خاندانی جاگیردار ہیں سو یہ نوکر،ملازم ہمیشہ سے ہی ہیں لیکن امی کہتی تھیں کہ اگر تمھارے مرد کے کام بھی ملازمہ کریں گی تو پھر تمہاری اس سے شادی کرنے کا مقصد؟
عورت ہی مرد کے دل میں جگہ بناتی ہے اور وہ جگہ کیسے بنتی ہے؟اُس کی ضرورتوں کا خیال رکھ کر اور اس کا خیال رکھ کر۔
میں یہ سب اس لیے نہیں کہہ رہی کہ زارون میرا بیٹا ہے میں اسی لیے کہہ رہی ہوں کہ وہ بھی ایک مرد ہے۔
یہ شادی شدہ زندگی کے بہت اہم پہلو ہیں جن سے زندگی اور نسلیں دونوں سنور جائیں گی"انہوں نے اُس کے گال کو تھپکتے کہا۔
"امی۔۔۔کیا زارون نے آپ سے کچھ کہا ہے؟"گل نے ہمت مجتمع کر کے اُن سے سوال کیا۔
"لے جھلی! اُس نے بھلا مجھے کیا کہنا ہے۔میں تو ویسے ہی تمہیں یہ سب سمجھانا چاہتی تھی"عائشہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا تو گل کے دل کو کچھ تسلی ہوئی۔
"امی ایک بات پوچھوں؟"اُس نے سوال کیا۔
"ہاں ہاں بیٹا پوچھو؟"
"پھر آپ کی امی کے ساتھ کیا ہوا؟کیا دادا سائیں کا رویہ اُن کے ساتھ بہتر ہوا تھا؟"وہ واقعی آگے جانا چاہتی تھی کہ ان کی محبت و چاہت نے دادا سائیں کو بدلا تھا؟
"بیٹا ایک وقت ہوتا ہے جب ان سب چیزوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔انسان اپنی اولاد میں مگن ہو جاتا ہے اور پھر مرد کی چاہت اور محبت کے جو دیے دل میں جل رہے ہوتے ہیں بجھ جاتے ہیں"عائشہ بیگم نے افسردگی سے کہا۔
"تو کیا کبھی دادا سائیں کو آپ کی امی سے محبت نہیں ہوئی تھی؟"
"ہوئی تھی کیسے نہ ہوتی محبت۔عورت تو بڑے سے بڑی آزمائش کو صبر سے برداشت کر لیتی ہے تو پھر مرد کے دل میں اترنا کون سا مشکل کام ہے اس کے لیے؟لیکن تب تک امی کے دل نے ان کی محبت کی تمنا کرنی چھوڑ دی تھی"اور یہاں گل خاموش ہو گئی،بالکل خاموش۔
"بابا سائیں امی کی وفات کے بعد اس طرح ہوگئے ہیں ورنہ ان کا اتنا رعب تھا کہ کسی کے ساتھ بیٹھنا تو دور بات تک کرنا گوارہ نہیں کرتے تھے۔ہاں بچوں کے بچوں کے ساتھ ہمیشہ محبت کی،بہت پیار دیا۔اور زارون تو ہمیشہ سے اُن کا لاڈلا رہا ہے لیکن غصے میں ابھی بھی وہ بہت تیز ہیں۔جب غُصہ کرتے ہیں تو سہی غُصہ کرتے ہیں ورنہ نہیں کرتے۔
اور وہ ہمیشہ یہی چاہتے تھے کہ جس طرح ان نے اپنے بچوں کی شادیاں اپنی پسند سے کیں اسی طرح ان کی اولادوں کے لیے بھی ہم سفر اپنی پسند کہ پسند کریں۔اور اصول جب وہ بنا لیں تو چاہے وہ ان کے لاڈلے ہی کیوں نہ توڑیں،سزا بھگتے ہیں۔زارون نے تمہیں بتایا تو ہوگا جب بابا سائیں نے اُسے بھی دستبردار کر دیا تھا؟"اور ان کے آخری جملے پر گل کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔یہ کیا کہانی تھی کہ زارون کو دستبردار کر دیا گیا تھا؟اُس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا اور احمر کا کل کا کہا گیا جملہ ذہن میں گردش کرنے لگا۔
تو کیا گل کو پانے کے لیے اُسے واقعی اپنوں سے دوری سہنا پڑی تھی؟
نہیں نہیں! ایسا بھلا کیسے ہو سکتا تھا؟
اس سے پہلے عائشہ بیگم اسے کچھ کہتیں باہر سے ملازمہ نے سکندر صاحب کی آمد کا پیغام دیا۔وہ اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئیں جبکہ گل ویسے کی ویسے بیٹھے رہ گئی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ESTÁS LEYENDO
مراسمِ دل از:ماہی (مکمل)
Fantasíaمراسمِ دل کہانی ہے دل سے بنے رشتوں کی اور ضروری نہیں تمام رشتے ناطے صرف خونی ہوں بعض اوقات دل سے بنے ہوئے رشتے بھی بہت معنی رکھتے ہیں۔