قسط:۸

50 5 1
                                    

محبت کرنا جرم تو نہیں ہے__!

"تم جتنی بار بھی آنکھیں بند کر کے کھولو گی سامنے میں ہی نظر آؤں گا"اُس نے سنجیدگی سے کہا۔گل اس سے پہلے چیخ مارتی وہ فوراً سے آگے ہوئے اُس کی آواز بند کروا چکا تھا۔
گل آنکھیں پھیلائے اُسے تکنے لگی۔
"میں ہاتھ ہٹا رہا ہوں کوئی آواز نہ نکلے اب۔۔۔"اُس نے اُس کے لبوں پر سے اپنا ہاتھ ہٹایا اور دھیرے سے کہنے لگا۔گل نے اپنی رکی ہوئی سانس بحال کی اور سنجیدہ تاثرات لیے اُسے تکنے لگی۔
"رات کے اس پہر آپ یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟"خود پر کافی حد تک قابو پا کر وہ اس سے سوال کرنے لگی۔
"ہاہ۔۔۔!!!"اُس نے گہرا سانس بھرا اور اپنے ہاتھ میں پکڑے سگریٹ کو سائڈ ٹیبل پر پڑے ڈیکوریشن پیس میں مسل کر بھجا دیا پھر دوبارہ اس کے قریب ہوا اور کہنے لگا۔
"تم رات کی بات کرتی ہو ہائے۔۔!! مجھ سے پوچھو کہ میرے دن کیسے گزرتے ہیں"اُس نے ایک ادا سے کہا تھا جس پر گل اسے دیکھ کر رہ گئی۔
"خیر تم سونا چاہتی ہو تو سو جاؤ میں تھوڑی دیر میں چلا جاؤں گا"وہ ریلیکس سے انداز میں پیچھے کو ہوئے کہنے لگا۔
"آپ میرے کمرے میں کیسے آئے ہیں؟"
"دروازے سے۔۔"زارون نے مختصر سا جواب دیا۔جبکہ گل سوالیہ نظروں سے اُس کی جانب دیکھنے لگی۔
"بالکنی سے چڑھ کر آیا ہوں اور لاک میں نے تار سے کھولا ہے۔۔۔"
"آپ۔۔۔آپ بالکنی سے آئے ہیں؟"اُس نے حیرت سے سوال کیا جس پر زارون نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا اور بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے اپنی آنکھیں موند گیا۔
وہ ویسے ہی بیٹھے اُسے تکنے لگی اور زوبیہ بیگم کی باتیں اس کے ذہن میں گردش کرنے لگیں۔
کیا گل کو یہ رشتہ مان لینا چاہیے؟آخر کو انکار کا کوئی جواز بھی نہیں تھا لیکن کیا واقعی زارون کی گل کے لیے محبت بے لوث ہے؟ہمدردی اور کسی بھی اس قسم کے جذبے سے پاک؟وہ خود ہی اس سب میں جھنجھلا گئی تھی۔ذہن میں سوچیں گردش کرنے لگی تھیں۔
سوچوں کا تسلسل تب ٹوٹا جب نظر اُس کی اُس کے بازو پر لگے زخم پر گئی۔شرٹ کے بازو فولڈ کیے کہنیوں تک چڑهائے گئے تھے جس کی وجہ سے زخم واضع تھا۔
زارون تو اس زخم کو بھلائے بیٹھا تھا۔وہ فوراً سے بیڈ سے اٹھی تو اس کے یہ کرنے پر زارون نے اپنی آنکھیں کھولیں،ان میں لال ڈوریں واضع تھیں۔
"کیا ہوا؟یوں اٹھ کیوں گئی ہو؟"وہ سیدھا ہوا اور اس سے سوال کرنے لگا۔
"ی۔۔۔یہ آپ کے بازو پر زخم کیسے ہوا ہے؟"اُس نے اُس کے زخم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا جس پر خون اب جم چکا تھا۔
"اوہ یہ! بس اوپر چڑھتے وقت کچھ بج گیا تھا۔لیکن سہی ہے اب"اُس نے لا پرواہی سے زخم کا معائنہ کرتے ہوئے کہا۔گل اپنی الماری کی جانب بڑھی اور اس میں سے کچھ ٹٹولنے لگی۔زارون اچھنبے سے اُسے تک رہا تھا۔
کچھ ہی دیر گزری تھی جب وہ ہاتھ میں کاٹن پکڑے اس پر سپرٹ لگائے الماری سے باہر نکلی اور چلتی اس تک آئی۔اُس کے بال دائیں اور بائیں جانب بکھرے ہوئے تھے اور چند لٹیں چہرے پر جھول رہی تھیں۔
وہ چلتی آئی اور اُس کے قریب بیٹھ گئی۔اپنے بالوں کو کان کے پیچھے اڑسایا اور اس کا بازو پکڑ کر اپنی جانب کیا۔
"تھوڑی تکلیف ہوگی لیکن آپ کو برداشت کرنا ہوگی۔میں spirit سے آپ کا زخم صاف کرنے لگی ہوں تاکہ جرمز صاف ہوجائیں۔۔۔"وہ کہہ رہی تھی اور زارون خاموشی سے بس اُسے تک رہا تھا۔اس وقت وہ اُسے پہلے والی گل لگی تھی۔
وہ احتیاط سے اُس کے زخم کو صاف کر رہی تھی۔زارون اپنے ہونٹوں میں انگوٹھا دبائے اس کا انداز دیکھ رہا تھا۔تبھی اُس کے کان کے پیچھے سے بالوں کی لٹ نکلی اور چہرے پر جھول گئی۔اس سے پہلے وہ انہیں پیچھے کرتی زارون پہلے ہی اُنہیں پیچھے کر چکا تھا۔اس کی اس حرکت پر گل کا دل زور و شور سے دھڑکنے لگا،پلکے لرزی تھیں لیکن بظاهر خود کو نارمل رکھے وہ زخم صاف کرنے لگی۔زارون اُس کا گھبرانا نوٹ کر چکا تھا،سو دھیرے سے مسکرا دیا۔
زخم صاف ہو چکا تھا اور اس سے پہلے وہ دور ہوتی زارون نے ایک بار پھر سے اُس کی گردن میں ہاتھ ڈالے خود کے قریب کیا تھا۔ابھی پہلے والی حرکت پر ہی وہ سٹپٹائی ہوئی تھی اور اس حرکت پر تو اُس کا دل اچھل کر باہر آنے کے قریب تھا۔وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا پھر سرگوشی کے انداز میں کہنے لگا۔
"تم میری زندگی کا وہ حسین خواب تھی جسے ہمیشہ میں حقیقت میں بدلنا چاہتا تھا۔اور آج جب تم میرے سامنے،میرے قریب میری بیوی کی حیثیت سے بیٹھی ہو تو میرا دل شکر ادا کرتے نہیں تھک رہا ہے۔"وہ محبت بھرے انداز میں اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہہ رہا تھا۔"محبت کرنا جرم نہیں ہے اور میں نے بھی محبت کی،بےانتہا اور اس محبت کو اپنا بنا لیا ہمیشہ کے لیے۔۔۔"وہ اس سے اپنی محبت کا اقرار کر رہا تھا۔"گل! تم کبھی بھی میرے جذبے،میری محبت کو دکھلاوا یا ریاکاری مت سمجھنا۔میں نے تم سے کسی مقصد کے لیے نہیں بلکہ اپنی محبت کی خاطر تم سے نکاح کیا ہے۔اور آج زارون سکندر اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ تم سے بے جا محبت کرتا ہے۔۔۔"آنکھوں میں انوکھے جذبات لیے وہ کہہ رہا تھا جبکہ گل جس کے ذہن میں خدشات دوڑ رہے تھے پل بھر کے لیے کہیں گم ہوگئے تھے اور اس کا دل زارون کی باتوں پر ایمان لے آیا تھا۔
اُس نے اُس کو مزید اپنے قریب کیا یہاں تک کہ گل اُس کی سانسیں اپنےچہرے پر محسوس کر سکتی تھی۔دھڑکن تیز سے تیز تر ہورہی تھی۔زارون آگے ہوا اور گل نے اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں۔زارون اُس کی اس حرکت پر مسکرا دیا اور اپنے لب اُس کی پیشانی پر رکھے اور پیچھے ہوا۔
"کھول لو تم اپنی آنکھیں اب!"اُس نے ہنستے ہوئے کہا اور گل نے فوراً اپنی آنکھیں کھولیں۔زارون نے اپنا ہاتھ پیچھے کیا اور جیسے وہ رہا ہو گئی تھی،وہ فوراً سے اٹھ کھڑی ہوئی اور بھاگ کر باتھروم میں گھس کر دروازہ بند کر دیا۔زارون اس کی اس حرکت پر کھلے دل سے مسکراتا اٹھا اور اپنے قدم واپسی کے لیے بڑھا دیے۔
گل اپنی تیز ہوتی دھڑکنوں کو قابو پانے لگی۔وہ گہرے سانس بھر رہی تھی جب اُس کی نظریں اٹھیں اور سامنے سنک کے اوپر لگے شیشے سے جا ٹکرائیں جہاں اُس کا عکس دکھائی دے رہا تھا۔اُس کی گالیں لال ہوئی وی تھیں جبکہ لرزتی پلکیں بھی نظر آرہی تھیں۔اپنے جذبات پر قابو پاتے اُس نے اپنی نظریں آئینے سے ہٹا لیں۔ٹوٹی کھول کر اُس نے ہاتھ دھوئے اور چہرے پر بھی پانی کے چھینٹے مارنے لگی۔کانپتے ہاتھوں سے ٹوٹی بند کرتے اُس نے تولیے سے اپنے ہاتھ اور چہرہ خشک کیا اور خود کو حوصلا دیتے باہر آگئی۔پورے کمرے میں نظر دوڑائی کمرہ خالی تھا۔وہ تیز تیز چلتی بالکنی کے دروازے تک آئی تو اس پر تالا نہیں لگا ہوا تھا۔اُس نے دروازہ کھولا۔بالکنی بھی خالی پڑی ہوئی تھی۔وہ آگے آئی اور گرل سے لگ کر ادھر اُدھر دیکھنے لگی گویا تصدیق کرنے لگی کہ وہ جا چکا ہے یا نہیں۔
دور سڑک پر گاڑی کا شیشہ نیچے کیے وہ اس کی حرکت دیکھ رہا تھا اور جی جان سے مسکرایا۔جب وہ اندر چلی گئی تو اُس نے گاڑی کا شیشہ اوپر چڑھایا اور گاڑی اپارٹمنٹ کی جانب بڑھا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کب سے اُس کا انتظار کر رہا تھا لیکن وہ اب تک نہیں آیا تھا۔لاؤنج میں آڑے ترچھے صوفے پر لیٹے وہ ریموٹ سے ٹی وی کے چینلز بدل رہا تھا۔یہ اپارٹمنٹ دو کمروں کے ساتھ اٹیچیڈ باتھروم،چھوٹے سے لاؤنج کے ساتھ اوپن کچن پر مشتمل تھا۔
گھڑی نے چار بجائے اور تب کہیں جا کر اپارٹمنٹ کا دروازہ کھلا۔وہ جو لیٹا اپنی جمائی لے رہا تھا سیدھا ہوا۔
اُس نے اندر داخل ہوتے ہی دروازہ بند کیا اور پلٹا تو اس وقت اُسے یہاں دیکھ کر حیران ہوا۔
"تو یہاں کیا کر رہا ہے؟"اس نے پرسکون سے انداز میں صوفے پر بیٹھتے سوال کیا۔
"جب مجھے پتا چلا کہ ہیرو صاحب گھر چھوڑ کر جا چکے ہیں میں تب اسی وقت ہی یہاں آگیا تھا چاچو سے پوچھ کر لیکن جانے تم کہاں غائب تھے اب لوٹ رہے ہو واپس۔ویسے کیا میں جان سکتا ہوں کہ رات کے اس پہر تم کہاں سے آرہے ہو؟"احان نے اُس سے سوال کیا جس پر زارون اپنی کنپٹی مسلتے اُسے جواب دینے لگا۔
"کہیں نہیں بس یونہی باہر تھا۔۔۔"اُس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
"زارون گھر چلتے ہیں!"احان نے کچھ پل کی خاموشی کے بعد کہا۔
"میں گھر نہیں جاؤں گا حان!"اُس نے سنجیدہ انداز میں کہا۔
"زار! یار دیکھ دادا سائیں بڑے ہیں غصے میں ان نے یہ فیصلہ کیا تھا تو واپس چلے گا ان سے معافی مانگے گا وہ مان جائیں گے۔۔۔"
"احان میں واپس نہیں جارہا ہوں یہ میرا آخری فیصلہ ہے"زارون نے اب کی بار اس کی جانب دیکھتے کہا۔
"خیر رات کافی ہورہی ہے۔تو نکل جا گھر کے لیے"زارون اٹھتا ہوا کہنے لگا۔
"ویسے کتنا ہی کوئی بے مروت انسان ہے تو۔یہ نہیں کہہ رہا کہ رات کافی ہے تو یہیں ٹھہر جا۔۔۔"احان نے منہ بناتے ہوئے کہہ۔اس کی اس حرکت پر زارون مسکرا دیا۔
"میں ایسا کہوں گا بھی نہیں اور یہ بات تو جانتا ہے۔۔"
"ہنہ۔۔۔!! نہ کہہ لیکن میں بھی یہیں سو رہا ہوں تو نے جہاں جانا ہے جا۔۔۔"احان ڈھٹائی سے کہتا اٹھا ٹی وی بند کیا اور دوسرے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔زارون ہنستا اپنا سر جھٹکتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"راحم! مجھے سچ سچ بتاؤ جو انسپکٹر کہہ رہا تھا وہ سچ تھا؟"غفور صاحب کی حالت غصے سے خراب ہورہی تھی۔
"کس بارے میں ڈیڈ؟"اُس نے سوال کیا۔
"تم اچھی طرح جانتے ہو راحم کہ میں کس بارے میں بات کر رہا ہوں"
"ڈیڈ آئی ایم سوری!!"
"کس کس بات کی تم معافی مانگو گے مجھ سے راحم؟کس کس بات کی؟"انہوں نے بے بسی سے کہا اور صوفے پر بیٹھ گئے۔
"تمہاری وجہ سے میں اپنے بہترین دوست کو کھو چکا ہوں،تمہاری وجہ سے مجھے شرمندگی اٹھانی پڑ رہی ہے ہر جگہ۔آج تم جیل سے نکلے ہو شکر ہے ابھی اسٹیشن میں ہی رکھا گیا تھا تمہیں اور اب ایک اور کام اوپر سے تم ڈرگز لیتے ہو رات دیر دیر تک کلبز میں رہتے ہو راحم!!!! کس کس بات کی معافی مانگو گے تم؟؟؟"اُن کا صبر جواب دے رہا تھا۔
"ڈیڈ پلیز آپ ریلیکس کیجیۓ آپ کی طبیعت خراب۔۔۔۔۔"
"اس سب سے بہتر ہے راحم کہ میں مر ہی جاؤں۔کم ازکم کسی کے سامنے مجھے تمہاری وجہ سے شرمندگی تو نہیں اٹھانی پڑے گی"اُن کی آواز کپکپا رہی تھی اور دل میں درد بڑھنے لگا تھا۔
"ڈیڈ پلیز آپ۔۔۔آپ آرام کیجیۓ آئی سویر میں آئندہ کبھی ڈرگز نہیں لوں گا پلیز!"وہ اُنہیں ریلیکس کرنے لگا۔
غفور صاحب نے گہرا سانس بھرا سب کچھ دھندلانے لگا تھا۔اور پھر اُن نے آنکھیں بند کر لیں۔
"ڈیڈ!!!"وہ بھاگ کر اُن کی جانب لپکا جہاں اُن کا ہاتھ ان کے دل پر رکھا ہوا تھا اور آنکھیں بند تھیں۔اُس نے فوراً ایمبولینس کا نمبر ڈائل کیا اس وقت وہ خود ڈرائیو کرنے کی حالت میں نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے جیسے دن گزر رہے تھے سورج کی تپش بڑھتی جارہی تھی۔آج بھی سورج اپنی تپش لیے آسمان پر چمک رہا تھا۔یونیورسٹی سے چٹھیاں ملیں تھیں کیوں کہ پیپرز ہونے والے تھے۔
زارون اور احان کا فائنل سیمسٹر تھا اس کے بعد دونوں کو بزنس کی ڈگری مل جانی تھی۔
اسکول اور کالج کے بچے جاچکے تھے۔
وہ لوگ آرام سے اٹھے اور ناشتے کے لیے نیچے آگئے۔
"امی اتنی خاموشی کیوں ہے؟"مسی نے زینب بیگم سے سوال کیا جو لاؤنج میں بیٹھی جانے کیں سوچوں میں گم تھیں۔
"امی کیا ہوا ہے کوئی پریشانی کی بات ہے کیا؟"مسی کو جب زینب بیگم نے جواب نہ دیا تو وہ ان کے پاس صوفے پر بیٹھتے سوال کرنے لگی۔
"نہیں کچھ نہیں بس زارون کی وجہ سے پریشان ہوں"انہوں نے پریشانی کو چھپاتے کہا۔
"میری پیاری امی آپ کیوں پریشان ہو رہی ہیں؟زارون صاحب دادا سائیں کو منا لیں گے جانتی تو ہیں آپ وہ بھی اپنے نام کا ایک ہے۔۔"مسی نے ہنستے ہوئے ہلکے پہلے انداز میں کہا جس پر زینب بیگم اس کی جانب دیکھنے لگیں۔
"تم جانتی ہو رات کو کیا ہوا ہے؟"انہوں نے سوال کیا جس پر مسی سنجیدگی سے ان کی جانب تکنے لگی۔
"بابا سائیں نے زارون کو گھر سے جانے کا کہہ دیا ہے۔۔۔"انہوں نے گیا مسی کے سر پر بم پھوڑا تھا۔
"کیا؟امی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟آخر دادا سائیں کو ہوکیا گیا ہے جو وہ یہ سب کر رہے ہیں؟"اُس نے پریشانی سے کہا۔"زارون کہاں ہے اب؟"
"وہ رات کو ہی چلا گیا تھا۔۔۔"انہوں نے مزید اُس کی معلومات میں اضافہ کیا۔
"اوہ گاڈ!! میں ابھی دادا سائیں سے بات کرتے ہوں"وہ کہتے بنا زینب بیگم کی بات سنے دادا سائیں کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
دھیرے سے دروازہ نوک کیا اور اجازت ملنے پر اندر داخل ہوگئی۔
"دادا سائیں۔۔!! مجھے آپ سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے"اُس نے کہا تو دادا سائیں اس کی جانب دیکھنے لگے۔
"بولو میں سن رہا ہوں!"
"دادا سائیں میں مانتی ہوں آپ اس گھر کے بڑے ہیں آپ کے فیصلے پر زارون کو عمل کرنا چاہیے تھا لیکن دادا سائیں اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ اُسے گھر سے ہی نکال دیں،دستبردار کر دیں۔"وہ اُن کے سامنے بیٹھتے آرام سے کہہ رہی تھی۔"دادا سائیں ہم نے ہمیشہ آپ کا محبت بھرا انداز دیکھا ہے کبھی غصہ تو آپ کا دیکھا ہی نہیں بس سنا ہی تھا لیکن دادا سائیں! اب آپ کو کیا ہوگیا ہے آخر اتنا سخت فیصلہ آپ کیوں کر رہے ہیں؟"اُس نے التجا کی۔
"مسیرہ میں اُس کے لیے لڑکی ڈھونڈھ چکا تھا اور اُس کے ماں باپ کو زبان دے چکا تھا لیکن زارون نے کیا کیا؟؟"دادا سائیں نے ضبط سے سوال کیا جس پر مسیرہ خاموش رہی۔
"دادا سائیں آپ کا غصّہ بجا مگر اور میں یہ بھی مانتی ہوں کہ زارون نے بہت غلط کیا ہے لیکن دادا سائیں اس سب میں وہ اکیلا قصور وار تو نہیں ہے بابا تایا لوگوں نہیں سب نے مل کر اُس کا نکاح کروایا ہے۔"
"تو تم کیا کہنا چاہتی ہو؟ میری زبان کا کوئی بھرم نہیں ہے؟"دادا سائیں کی پیشانی پر شکنیں اُبھریں۔
"نہیں نہیں دادا سائیں! میں ایسا ہرگز نہیں کہہ رہی ہوں۔اب اُس کا نکاح ہو چکا ہے تو کیا آپ اس سب کو بھلا کر اُس کی بیوی کو قبول نہیں کر سکتے ہیں؟"مسی نے التجا کی۔
"نہیں!"انہوں نے یک لفظی جواب دیا۔
"کیوں دادا سائیں آخر آپ کیوں اُسے معاف نہیں کر سکتے؟"
"مسیرہ میں اس معاملے میں بحث نہیں کرنا چاہتا۔بہتر ہوگا تم یہاں سے چلی جاؤ"انہوں نے حتمی فیصلہ سنایا اور اپنا چشما اُتار کر ٹیبل پر رکھے لیٹ گئے۔مسی خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازہ بجنے کی آواز پر اُس کی آنکھ کھلی۔وہ فوراً سے اٹھ بیٹھی تو دیکھا کمرے کا دروازہ لاک ہوا وا تھا۔اُس نے اپنے ذہن پر زور ڈالا اس کو یاد نہیں پڑ رہا تھا کہ دروازہ اُس نے کب لاک کیا تھا۔ایک بار پھر سے دھیرے سے دروازہ کھٹکھٹایا گیا تو وہ بستر سے اٹھی اپنے پاؤں میں چپل ڈالے لاک کھولا اور دروازہ بھی کھول دیا۔
"خیریت بیٹے؟" زوبیہ بیگم نے دروازہ لاک ہونے پر سوال کیا۔
"جی موم!و۔۔۔وہ مجھے یاد نہیں رہا دروازہ کھولنا رات میں شاید لاک لگا کر بھول گئی تھی"اُس نے جھوٹ کا سہارا لیا۔
"اچھا چلو کوئی بات نہیں۔"انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا اور کمرے کے اندر داخل ہو گئیں۔
"جلدی سے تیار ہو جاؤ ہم آج آؤٹنگ پر جارہے ہیں"انہوں نے کہا اور بیڈ سہی سے سیٹ کرنے لگیں۔
"آؤٹنگ پر کہاں جارہے ہیں؟"اُس نے سوال کیا جبکہ پہلے کی نسبت آج وہ قدرے بہتر لگ رہی تھی۔
"یہ تو تمہارے ڈیڈ کو پتہ ہے کہ کہاں جانا ہے بس انہوں نے بولا تھا کہ گل کو بتا دینا وہ کہیں گئے ہیں آتے ہیں تو پھر ہم نکل رہے ہیں"بیڈ کی حالت درست کرتے وہ اب تکیے اُس کی جگہ پر رکھ رہی تھیں۔
تکیہ رکھتے ہوئے اُن کی نظر ٹیبل پر پڑے ڈیکوریشن پیس پر گئی جس میں بجھا ہوا سگریٹ اور ایش پڑی ہوئی تھی۔انہوں نے سوالیہ نظروں سے گل کی جانب دیکھا۔
گل نے ناسمجھی سے اُن کی جانب دیکھا تو نظر اُس کی ڈیکوریشن پیس کی جانب اٹھی جہاں بجھا ہوا سگریٹ پڑا ہوا تھا۔اُسے لگا ابھی زمین پھٹے گی اور وہ اُس میں سما جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مراسمِ دل از:ماہی (مکمل)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora