قسط:۴

57 9 2
                                        

کچھ ہیں اور بھی بھیانک راز__!

شام ہونے کو آئی تھی اور وہ اپنے کمرے میں بیٹھا مسلسل سگریٹ پھونک رہا تھا۔
سیگریٹ کو اپنی انگلیوں میں پھنسائے وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا لگ رہا تھا۔دروازہ کھلا اور احان آندھی طوفان کی طرح کمرے میں آیا اور بیڈ پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
زارون نے ایک نظر اُس کی جانب دیکھا پھر دوبارہ اپنی نظریں پھیر لیں۔
"دادا سائیں کو اگر پتا چل گیا نہ کہ تو اُس طرح سگریٹ پھونکتا ہے تو تیری اُنہوں نے اچھی والی کر دینی ہے"احان نے اپنے پیچھے تکیہ صحیح سے رکھتے ایش ٹرے میں پڑے سیگریٹ پر چوٹ کرتے کہا۔
"میں کچھ سوچ رہا تھا"زارون نے اُس کی بات کا جواب دیے بنا سگریٹ ایش ٹرے سے مسلتے کہا۔
"کیا؟"احان نے سوالیہ نظروں سے اُس کی جانب دیکھتے سوال کیا۔
"او بھئی تجھ سے پوچھ رہا ہوں کیا سوچ رہا تھا؟"زارون کی خاموشی پر اُس نے پھر سے سوال کیا۔
"کچھ خاص نہیں بس ایک دوست مجھ سے کچھ پوچھ رہا تھا تو اُسے متعلق سوچ رہا ہوں"زارون نے اپنی پیشانی مسلتے کہا۔
"اچھا تو اب وہ دوست کیا پوچھ رہا تھا؟"احان نے دانت پیس کر سوال کیا۔
"وہ کسی لڑکی کو پسند کرتا ہے لیکن اُس لڑکی کی بات پکی ہوگئی ہے کسی اور کے ساتھ اور لڑکی نہیں جانتی کہ وہ لڑکا اس لڑکی کو پسند کرتا ہے!"زارون نے وضاحت دی۔
"لو جی فٹے منہ اُس لڑکے پر!"احان نے ہنستے ہوئے کہا جس پر زارون بس اُسے گھور کر رہ گیا۔
"کیا اب ایسے کیوں دیکھ رہا ہے؟صحیح بات تو کر رہا ہوں۔اب اُس لڑکے کو چاہیے کہ اپنی اس ون سائیڈ محبت کو اپنے پاس ہی چھپا کر رکھے یہ بھلا کیا بات اگر وہ اُس سے محبت کرتا تھا تو اُس میں اٹلیسٹ اتنی ہمت تو ہونی چاہیے تھی کہ اظہار کرے۔یہ نہایت بیوقوفی ہے کہ کسی کو معلوم بھی نہیں آپ اُس سے محبت کرتے ہو اور فضول میں خوار ہوئے جارہے ہو"احان نے اپنا سر جھٹکا جبکہ زارون خاموش رہا۔
"ایسی بات نہیں ہے اُس میں ہمت ہے اپنی محبت کا اظہار کرنے کی لیکن وہ اپنی اسٹڈیز پہلے کمپلیٹ کرنا چاہتا تھا پھر۔۔۔"
"زارون اب یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی ہے کہ وہ کیا چاہتا تھا اور کیا نہیں۔اب وہ لڑکی کسی اور کے ساتھ رشتے میں بندھنے والی ہے۔اب اُس لڑکے کا کوئی حق نہیں بنتا ہے کہ وہ اُس سے اظہار کرے۔"احان نے اُس کی بات کاٹتے سنجیدگی سے جواب دیا۔
"لیکن حان! ہی از سو کریزی اباؤٹ ہر!"زارون نے بے بسی سے کہا جس پر احان خاموشی سے اُسے دیکھنے لگا۔
"اچھا چلو مان لیتے ہیں وہ کریزی ہے اُس کے لیے لیکن تم کیوں اتنا پریشان ہورہے ہو؟"احان نے مشکوک نظروں سے اُس کی جانب دیکھتے سوال کیا۔
"ن۔۔نہیں تو بھلا میں کیوں پریشان ہوں گا؟"زارون نے اپنی پیشانی مسلتے کہا۔
"زارون کہیں وہ لڑکا تم۔۔۔"
"نہیں پاگل ہے تو بھلا میں کیوں یہ سب کرنے لگا؟"زارون نے نظریں چرائیں۔
"اوہ ریئلی! بھلا تم کیوں کرو گے یہ سب؟جبکہ تم تو یہ کر چکے ہو"احان نے شرارت سے کہا جس پر زارون بوکھلا گیا۔
"کیسی باتیں کر رہا ہے تو؟"
"بیٹا یہ جو تیری آنکھیں ہیں سب کچھ بیان کر رہی ہیں۔اب شاباش بتا کون ہے وہ لڑکی؟"
"احان تو غلط۔۔۔۔"
"میرے سوال کا یہ جواب نہیں ہے"احان چلتا اُس کے پاس آیا اور بیٹھ گیا۔
"بتا شاباش جب سے یونی سے آیا ہے تو تیرا رویہ عجیب سا ہے۔بلکہ نہیں جب سے میرہ نے گل کی شادی۔۔۔ایک منٹ زار کہیں وہ لڑکی۔۔۔۔؟؟؟"احان نے حیرانگی نے سے اُس سے سوال کیا جس پر زارون نظریں چرا گیا۔احان کو اس کا جواب مل گیا تھا۔
"زارون یار! یہ سب کیا ہے؟"احان نے پریشانی سے سوال کیا۔"میرہ بتا رہی تھی کہ اُس کے ڈیڈ نے لڑکا چوز کیا ہے اور جہاں تک میرا جاننا ہے تو وہ ہرگز اپنے پیرنٹس کے اگینسٹ نہیں جائے گی اور اگر مثال کے طور پر وہ مان بھی جائے گی تو کیا دادا سائیں مان جائیں گے اس کے لیے؟یہ تو بھی جانتا ہے اور میں بھی دادا سائیں جتنا بھی کیوں ہم سے فرینک کیوں نہ ہوں لیکن انہوں نے ہم میں سے کسی کو بھی یہ اختیار نہیں دیا کہ خود اپنے لیے کسی لڑکی کو پسند کریں۔یہ اختیار صرف اور صرف دادا سائیں کے پاس ہے۔"احان نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
"احان میں کیا کروں؟اُس کے بغیر میں زندگی تصور بھی نہیں کر سکتا۔"زارون نے اُس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
"کب سے چل رہا ہے یہ سب؟مطلب کب سے جانتا ہے تو اُسے؟"احان نے اس سے سوال کیا جبکہ لہجے میں سنجیدگی ہنوز برقرار تھی۔
"یونیورسٹی کا فرسٹ ڈے تھا۔یو نو جب پہلے دن سٹوڈنٹس آتے ہیں تو کتنا پریشان ہوتے ہیں۔میں بھی اسی دن اُس سے ملا تھا۔وہ گھبرائی گھبرائی سی کھڑی ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔اور اس وقت وہ بہت معصوم لگ رہی تھی،سب سے مختلف"زارون آہستہ آہستہ اُسے سب بتا رہا تھا۔"وہ وہاں کھڑی تھی جب تین چار لڑکے اُس کے پاس گئے تھے اور کسی بات پر ہنسنے لگے تھے جبکہ وہ رو دینے کے قریب تھی۔اور پھر وہ لڑکے چلے گئے۔وہ ابھی بھی ویسے ہی کھڑی تھی۔اُس کے کپکپاتے ہونٹ،آنکھوں میں نمی،پریشانی سے مسلسل اپنے ہاتھ مسلتے وہ مجھے اپنے اندر اترتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔اور تب ہی شاید دل نے اُسے پانے کی خواہش کی تھی۔"احان بس خاموش ہی رہا۔"لیکن حان! اب اس کی شادی ہورہی ہے۔پہلے تو مجھے اتنا احساس نہیں ہوا تھا کیوں کہ یونی میں روزانہ میں اسے دیکھ لیتا تھا لیکن اب۔۔۔"پل بھر کو وہ رکا اور احان کی جانب دیکھنے لگا"اب تو وہ ہمیشہ کے لیے میری نظروں سے دور ہوجائے گی۔تب۔۔تب میں کیا کروں گا احان؟"آخر میں اس کا لہجہ کانپا تھا جبکہ احان نے اس کا شانہ تھپکا۔
"میں ایک بار اس سے بات کرنا چاہتا ہوں۔بس اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اور پھر میں کبھی اس کے سامنے نہیں آؤں گا"
"زار تم ایسا نہیں کرو گے۔اب ان سب کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔"احان نے بے بسی سے کہا جبکہ زارون بس خاموشی سے اُسے دیکھنے لگا۔جبکہ آنکھیں سب کچھ بیان کر رہی تھیں۔
احان گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ مسلسل اِدھر اُدھر ٹہل رہا تھا لیکن وہ تھی کہ نکلنے کو ہی نہیں آرہی تھی۔
مسی اور احان اپنے ڈیپارٹمنٹ کے گروپ کے ساتھ کیفے میں بیٹھے تھے جبکہ میرہ آج نہیں آئی تھی۔زارون کب سے گل کے ڈیپارٹمنٹ کے باہر چکر کاٹ رہا تھا اور اس کا انتظار کر رہا تھا۔
وہ آئی بھی تھی یا نہیں؟نہیں نہیں اس نے خود اس کو دیکھا تھا۔تقریباً اس کی ساری کلاس باہر آچکی تھی۔اب اُسے پریشانی ہونے لگی تھی۔وہ تیز تیز قدم اٹھاتا اس کی کلاس کی جانب بڑھا لیکن وہ وہاں نہیں تھی۔
آخر کہاں چلی گئی وہ؟یہ سوچ آتے ہی وہ مزید پریشان ہوگیا۔وہ باہر نکلا اور اس کے ڈیپارٹمنٹ کی ہر کلاس چیک کرنے لگا۔آخر میں ایک کلاس کا دروازہ بند تھا۔وہ وہاں گیا اور دروازہ کھولنا چاہا لیکن دروازہ شاید اندر سے بند تھا۔
اس نے زور زور سے دروازہ بجانا شروع کر دیا لیکن دروازہ نہیں کھلا تھا۔اس کے یہ سب کرنے پر آتے جاتے سٹوڈنٹس اُسے دیکھ رہے تھے۔
اس نے اور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا اور پھر ایک جھٹکے سے دروازہ کھل گیا۔سامنے کا منظر دیکھ کر اس کی رگیں تن گئیں۔
گل دیوار کے ساتھ لگی کھڑی تھی اور وہ مسلسل رو رہی تھی دوپٹہ اس کا گلے میں تھا جبکہ چادر زمین پر گری ہوئی تھی۔اس کے سامنے ایک لڑکا کھڑا تھا اور اس نے اس کا بھاگنے کا راستہ روکا ہوا تھا۔دروازہ کھلنے پر وہ بوکھلایا اور دو قدم پیچھے ہوا۔زارون کی یہ سب دیکھ کر رگیں تن گئیں۔وہ دیوانہ وار آگے بڑھا اور اس کو مارنا شروع کر دیا۔گل دم سادھے وہاں کھڑی روۓ جا رہی تھی۔اور سٹوڈنٹس بھی اب کھڑے تماشا دیکھنے لگے تھے۔
"تیری ہمت کیسے ہوئی اُسے ہاتھ لگانے کی؟"وہ مسلسل اُسے مار رہا تھا۔باہر کھڑے سٹوڈنٹس میں سے ہی کوئی گیا اور احان کو بلا لایا۔وہ اور مسی بھاگ کر اس ڈیپارٹمنٹ میں آئے۔
"زارون یہ کیا کر رہا ہے؟"احان بھاگ کر آیا اور اُسے اس لڑکے پر سے اٹھانے لگا جو زمین پر گرا ہوا تھا اور زارون اس کو مسلسل مار رہا تھا۔
"اس کی ہمت کیسے ہوئی گل کے قریب جانے کی؟میں اسے چھوڑوں گا نہیں!!"وہ بولا نہیں تھا دھاڑا تھا جبکہ احان بامشکل اُسے پیچھے کرنے لگا۔
مسی تو شاک کے عالم میں کھڑی تھی۔
"مجھے چھوڑ میں اسے چھوڑوں گا نہیں!"وہ احان کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا جبکہ نظریں اس کی اُسے کی طرف تھیں جو زمین پر لیٹا کراہ رہا تھا۔
"کیا ہورہا ہے یہ سب؟"پرنسپل کی گرجدار آواز کلاس میں گونجی۔دو تین لڑکے آئے اور زمین پر گرے لڑکے کو اٹھانے میں مدد کرنے لگے جبکہ زارون خود کو جھٹکے سے احان کی گرفت سے دور کرتا اپنی شرٹ صحیح کرنے لگا۔اس کے بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے جبکہ آنکھیں اس وقت لال تھیں۔غصے سے اس کی بازؤں کی نبض اُبھر کر واضع ہورہی تھی۔
"میں آپ سے پوچھ رہا ہوں زارون سکندر کیا ہے یہ سب؟"پرنسپل پھر سے غصے سے بولے تھے۔جبکہ زارون خاموش کھڑا ابھی بھی خون کھار نظروں سے اس لڑکے کو دیکھ رہا تھا۔
"یو بوتھ کم ٹو مائی آفس ناؤ!"غصے سے کہتے وہ کلاس سے باہر نکل گئے۔مسی بھی پرنسپل کے جانے کے بعد ہوش میں آئی اور بھاگ کر گل کے پاس آئی جو ساکت سی وہیں کھڑی تھی۔اس نے گل کی چادر اٹھائی اور اس کے شانوں پر پھیلا دی۔
"گل تم۔۔تم ٹھیک تو ہو؟"مسی نے کانپتے لہجے میں سوال کیا۔گل اس کے سینے سے لگے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
زارون نے پلٹ کر گل کی جانب دیکھا جو کہ رو رہی تھی۔خود پر با مشکل ضبط کرتا وہ کلاس سے نکل گیا اور آفس کی جانب بڑھ گیا۔
"و۔۔وہ۔۔۔کہہ۔۔ر۔۔رہا تھا کہ اُس کے نوٹس۔۔نوٹس رہ گئے ہیں اس کلاس میں اور۔۔۔اُسے کچھ دکھانا ہ۔۔ہے مجھے۔۔۔"گل نے روتے ہوئے ہی کہا جس پر مسی کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔
"گل۔۔پلیز تم رونا بند کرو"مسی نے خود پر قابو پاتے کہا۔
"مم۔۔مجھے گھر جانا ہے۔۔ابھی گھر جانا ہے"وہ مسلسل رو رہی تھی۔
"تم۔۔تم رو مت ابھی میں خان لالا سے کہہ دیتی ہوں"مسی نے اُسے تسلی دی۔
"آپ لوگ یہاں کھڑے کیا کر رہے ہیں؟دیکھ لیا تماشا؟مل گیا سکون آپ سب کو؟"مسی نے بامشکل خود پر قابو کیے کہا جبکہ اب سٹوڈنٹس بڑبڑاتے نکلنے لگے۔آہستہ آہستہ رش ختم ہونے لگا تھا۔
"تم بیٹھو یہاں میں پانی لاتی ہوں"مسی نے اُسے کرسی پر بٹھایا اور جانے لگی جب گل نے اس کا بازو پکڑا۔
"پلیز آپ کہیں مت جائیں۔مجھے۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے"گل نے روتے ہوئے کہا مسی وہیں پنجوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گئی۔
خان لالا کو آنے کا کہے وہ فون رکھ چکی تھی اور اب مکمل طور پر گل کی جانب متوجہ تھی۔
"گل اس نے تمہارے ساتھ کچھ کیا تو نہیں؟"مسی نے دھیرے سے سوال کیا۔جس پر گل نے دھیرے سے نفی میں سر ہلا دیا۔مسی نے سکون کا سانس بھرا۔
"گل! میں جانتی ہوں تم سے یہ غلطی ناسمجھی میں ہوئی ہے لیکن گل آج کل کا زمانہ بالکل بھی نہیں ہے کہ کسی پر ایسے ہی اعتبار کر لیا جائے۔میں جانتی ہوں تمہاری انٹنشنز صاف ہیں لیکن گل یہ صرف تم اور میں ہی جانتے ہیں۔آجکل کے زمانے میں ایسا کچھ بھی غلط ہوتا ہے تو لڑکی اور لڑکے دونوں کو قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے اگرچہ لڑکی پر جبراً یہ سب کیا گیا ہو۔"مسی اُسے محبت سے سمجھا رہی تھی۔"ایک بات میری ہمیشہ یاد رکھنا گل! یہ دنیا ہوس پرست لوگوں سے بھری پڑی ہے۔یونہی کسی پر یقین نہیں کیا کرتے۔اور اگر کوئی تمہیں الگ کمرے میں بھی لے جانے کی ضد کرے چاہے وہ تمہارے جاننے والا،تمہارا دوست،تمہارا كزن ہی کیوں نہ ہو ایک بات یاد رکھنا وہ تمہارا نامحرم ہی ہے اور اُسے کوئی حق نہیں کہ تم سے اس طرح کی خواہش کا اظہار کرے۔عورت کو اپنا کردار مضبوط بنانا چاہیے اور اس طرح کے گھٹیا مردوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے کہ کوئی کبھی بھی اس طرح کی دوبارہ جرات کرنے کی ہمت نہ کرے"اس نے اس کا ہاتھ پکڑے کہا"میں جانتی ہوں تم ایک بہادر لڑکی ہو سب سے غلطیاں ہوتی ہیں تم سے بھی جانے انجانے میں غلطی ہوگئی ہے لیکن گل! یہ دنیا بہت ظلم ہے!"مسی کے کہنے کا کیا مطلب تھا گل سمجھ چکی تھی۔
"مم۔۔۔میں اب کبھی یونیورسٹی نہیں آؤں گی۔۔کبھی بھی نہیں"گل اس بار پھر سے رونے لگی تھی۔
"نہ۔۔۔تم ایسا بالکل بھی نہیں کرو گی۔تم بہادر ہو گل رخ حیات! ڈر کر چھپ جانے والا تو بزدل ہوتا ہے۔اور تم بالکل بھی بزدل نہیں ہو۔اور جانتی ہو جب لڑکیاں اس طرح چھپ کرنے بیعت جاتی ہے،ڈر جاتیں ہیں اس طرح لڑکوں کو مزید شہ ملتی ہے کہ ہم آزاد ہیں جو چاہے کر سکتے ہیں۔اور تم یقیناً یہ نہیں چاہو گی کہ ایسا ہو۔انفیکٹ میں بھی ایسا نہیں چاہتی۔"
"لیکن مسیرہ! میں کس کس کو اپنے کردار کی گواہی دوں گی؟نہیں ہے مجھ میں اتنی ہمت!"اس کے رونے میں شدت آئی تھی۔
"گل! تمہارا کردار پاکیزہ ہے اور اس بات کی گواہی وقت دے گا۔"
"میں کیسے سب کا سامنا کروں گی؟اپنی موم کا ڈیڈ کا؟"
"گل! جب تمہارا کردار پاک ہے تو اس سب کا کیا مطلب؟تم خوش قسمت ہو اللہ نے تمہاری عزت کی حفاظت کی۔ایسی باتیں مت کرو"مسی بامشکل خود کو کمپوز کیے بیٹھے تھی۔
"اب چلو شاباش اٹھو! خان لالا آگئے ہوں گے اور تمہارا انتظار کر رہے ہوں گے"مسی نے اٹھتے ہوئے کہا۔
"میں نہیں جا سکتی باہر"گل نے پھر وہی بات دہرائی۔
"گل! پھر وہی بات"مسی نے کہا جبکہ گل اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپائے رو پڑی۔اُسے نے اُسے اپنے ساتھ لگا ليا۔اس نے یہ سب اس سے کہہ تو دیا تھا لیکن وہ جانتی تھی کہ یہ کرنا بہت مشکل ہے۔اس نے زور سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں ہاتھ ٹیبل پر جمائے اپنا چشما درست کرتے وہ سنجیدگی سے اُن دونوں کی جانب متوجہ تھے۔زارون سامنے کھڑا تھا جبکہ دوسرے لڑکے کی حالت کھڑے ہونے والی نہیں تھی۔
"کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ وہاں کیا ہورہا تھا؟"پرنسپل نے سنجیدگی سے سوال کیا۔
"سر! میں نہیں جانتا کہ یہ سب کیا ہوا تھا لیکن جب میں گیا تو دروازہ بند تھا میری کوشش کرنے پر دروازہ کھلا اور سامنے۔۔۔۔"اس نے جملہ ادھورا چھوڑا اور غصے سے اس لڑکے کو دیکھنے لگا۔
"تم اس لڑکی کے ساتھ کیا کر رہے تھے؟"سر نے اب اس لڑکے کی جانب دیکھتے سوال کیا۔
"میرے نوٹس رہ گئے تھے اس روم میں تو میں وہ لینے گیا تھا تو لڑکی میرے ساتھ آگئی۔۔۔"
"بكواس کرتا ہے یہ۔۔"زارون غصے سے دھاڑا تھا اور اس سے پہلے وہ دوبارہ اس لڑکے کی جانب بڑھتا سر نے اُسے روک لیا۔
"زارون آپ جانتے ہیں آپ کو اس حرکت پر سسپنڈ کیا جاسکتا ہے؟لاسٹ سیمسٹر ہے آپ کا ایگزیمز سر پر ہیں کیا آپ چاہتے ہیں کہ عین فائنل ایئر کے پیپرز سے پہلے آپ کو سسپینڈ کر دیا جائے؟"سر کا لہجہ اب بھی سنجیدہ تھا۔زارون خاموش ہوگیا۔
"سر آئی سویر! وہ لڑکی خود اپنی مرضی سے میرے ساتھ آئی تھی اور ہم نوٹس لے رہے تھے پھر یہ آگیا اور اس نے مارنا شروع کر دیا مجھے"وہ لڑکا ڈھٹائی سے جھوٹ بول رہا تھا جبکہ زارون غصے سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔
"سر! میں چاہتا ہوں کہ پلیز آپ کنٹرول روم سے اس وقت کیا ہوا تھا ساری ریکاڈنگ دیکھیں اور پھر فیصلہ کیجیۓ کہ کون صحیح ہے۔آئی سویر! جو آپ پھر فیصلہ کریں گے وہ مجھے منظور ہوگا"زارون نے کچھ سوچ کر کہا جس پر سر سوچ میں پڑ گئے جبکہ وہ لڑکا سٹپٹا گیا۔
سر اٹھے اور کنٹرول روم کی جانب بڑھ گئے جبکہ انہوں نے دونوں کو بھی اپنے ساتھ آنے کا حکم دیا تھا۔
سکرین پر ریکارڈنگ چل رہی تھی اور دیکھا جا سکتا تھا کہ گل خود ہی اس کے پیچھے جا رہی تھی۔زارون اپنا غصہ ضبط کر کے رہ گیا۔پھر اچانک کمرے کا دروازہ بند ہوا اور سارا منظر سامنے آگیا۔
سر نے خونخوار نظروں نے اس لڑکے کی جانب دیکھا اور ایک تھپڑ اس کے چہرے پر ماری۔
"شیم آن یو! آپ کو یونیورسٹی سے سسپینڈ کیا جاتا ہے"سر اپنا حکم صادر کیے روکے نہیں بلکہ چلے گئے جبکہ وہ ہونقوں کی طرح سر کو جاتا تکتا رہا۔زارون نے اُسے دیکھا۔
"میں تمہیں اس سب کے لیے کبھی معاف نہیں کروں گا"غصے سے ایک ایک لفظ چبا کر کہا تھا۔
"معاف تو میں نے بھی تمہیں نہیں کیا۔یقین جانو اگر اس وقت احان نہ آتا تو تم یہاں سلامت نہ کھڑے ہوتے"زارون نے بھی ایک ایک لفظ چبا کر کہا تھا اور پھر اپنے قدم باہر کی جانب بڑھا دیے جبکہ وہ لڑکا شعلہ بعض آنکھوں سے اُسے جاتے دیکھ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی میں اس وقت کاٹ دوڑنے والی خاموشی تھی۔تینوں اپنی جگہ خاموش بیٹھے تھے جبکہ ڈرائیونگ احان کر رہا تھا کیوں کہ زارون کا ہاتھ زخمی ہو چکا تھا۔
"کیا میں پوچھ سکتا ہوں زارون اس سب کی کیا ضرورت تھی؟"احان نے سنجیدگی سے سوال کیا۔"اگر تیری اس حرکت پر توجہی یونی سے سسپنڈ کر دیا جاتا تو تو کیا کرتا سوچ ہے اس بارے میں؟"احان برہمی سے کہہ رہا تھا۔
"مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے"زارون نے لا پرواہی سے جواب دیا۔
"واہ! پرواہ نہیں ہے۔چل تجھے کوئی پرواہ نہیں ہے لیکن گھر والوں کو تو کیا جواب دیتا؟"احان نے سوال کیا۔وہ بغیر اس کے سوال پر دھیان دیے سامنے دیکھ رہا تھا۔
"جانتے ہو وہ کتنا رو رہی تھی؟"مسی کے سامنے ابھی بھی اس کا چہرہ گھوم رہا تھا۔
"ہنہ! رو رہی تھی۔"زارون منہ میں بڑبڑایا۔
"وہ بہت معصوم ہے احان! میں سمجھتی تھی کہ وہ لوگوں کو پہچانتی ہے۔جس طرح باہر سے مضبوط ہے اسی طرح اندر سے بھی ہے لیکن میں غلط تھی۔بظاھر وہ چاہے کیسے ہی خود کو شو کیوں نہ کرے لیکن اندر سے وہ بہت نازک ہے۔وہ سمجھتی ہے کہ اگر وہ اچھی ہے تو ہر کوئی اُس جیسا ہی ہوگا"مسی افسوس سے کہہ رہی تھی۔اس سے پہلے احان کوئی جواب دیتا زارون بولا۔
"کوئی معصوم نہیں ہے وہ سمجھی تم۔اگر معصوم ہوتی تو اس لڑکے کے ساتھ اکیلے کمرے میں نہ جاتی"وہ غصے سے بولا تھا جبکہ یہ روپ تو وہ لوگ اس کا پہلی بار دیکھ رہے تھے۔
"زارون! یہ سب ایک غلط فہمی۔۔۔۔"اُس نے کچھ کہنا چاہ جب زارون نے درشتگی سے اُس کی بات کاٹی۔
"اوہ پلیز! میں کوئی بچا نہیں ہوں۔غلط فہمی کا کوئی چانس نہیں ہے میں ابھی خود دیکھ کر آرہا ہوں کہ اس لڑکے نے اس پر کوئی زبردستی نہیں کی تھی بلکہ وہ خود اس کے ساتھ گئی تھی"غصہ تھا کہ گھٹنے کو ہی نہیں آرہا تھا اس نے پاکٹ سے سگریٹ نکالا اور اُسے جلا کر پھونکنے لگا۔
"زارون ابھی تمہارا دماغ گھوما ہوا ہے۔تم سے بات کرنا ہی فضول ہے"احان نے غصے سے کہا اور خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرنے لگا۔گاڑی میں ایک بات پھر سے خاموشی چھا گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جب سے گھر آئی تھی کمرے میں بند تھی۔زوبیہ بیگم اُس کے کمرے میں آئیں۔
"کیا ہوا ہے میری بیٹی کو اتنی خاموش کیوں ہے؟"انہوں نے سوال کیا جبکہ اس کی آنکھیں فوراً سے نم ہو گئیں۔
"موم! میں شادی نہیں کر سکتی"اُس نے جھجھکتے ہوئے کہا جبکہ زوبیہ بیگم حیران ہوئی پھر اُن کی حیرانی پریشانی میں بدل گئی۔
"کیسے بتائیں کر رہی ہو تم گل؟تمہاری بات پکی ہو چکی ہے اگلے مہینے کے پہلے ہفتے تمہاری شادی ہے سب جانتے ہیں اور اب تم کہہ رہی ہو کہ تم شادی نہیں کرنے سکتی"
گل خاموش رہی جبکہ آنسو جو پلکوں پر ٹھہرے تھے گالیں بھگونے لگے۔
"موم پلیز! آپ سمجھیں میری بات کو"اُسے یوں روتا دیکھ زوبیہ بیگم پریشان ہوئی تھیں۔
"گل! بیٹا کیا ہوا ہے؟تم کیوں ایسی باتیں کر رہی ہو؟"انہوں نے اُس کی گال پر ہاتھ رکھے محبت سے سوال کیا۔جس پر وہ یونی والا واقعی انہیں بتانے لگی۔زوبیہ بیگم شاک کے عالم میں بیٹھی سب سن رہی تھیں۔
"موم! میں نہیں چاہتی اس سب کے بعد میں شادی کروں بلکہ میں کسی سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتی!"اُس کے رونے میں شدت آئی تھی۔جبکہ زوبیہ بیگم اُسے تسلی دینے لگیں۔
"گل! ایسا کچھ بھی نہیں ہوا جس کی وجہ سے تم یہ کہہ رہی ہو۔شکر ہے اللہ نے تمہاری عزت رکھ لی۔ایسی باتیں نہیں کرتے ہیں"زوبیہ بیگم اُسے سمجھانے لگیں وہ اور بھی کچھ کہہ رہی تھیں جبکہ وہ مسلسل روۓ جا رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آج ہمارے گھر میں اتنی خاموشی کیوں ہے؟"دادا سائیں نے سوال کیا۔
"بچے جب سے یونی سے آئے ہیں اپنے کمروں میں ہیں اسی لیے"
"اچھا! چلو میں اپنے دوست کے ہاں جارہا ہوں! بتا دینا سب کو"وہ ملازم کو کہے باہر نکل گئے جبکہ وہ اثبات میں سر ہلاتا اندر چلا گیا۔
سب اپنے کاموں میں مشغول تھے احمر اور زارا لڈو کھیل رہے تھے اور بہوئیں بیٹھیں باتوں میں مگن تھیں۔
"میره جاؤ زارا دیکھ کر تو آؤ ان تینوں کو جب سے آئے ہیں کمروں میں بند ہیں"عائشہ بیگم نے میرہ سے کہ جو بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔
"جی امی"وہ کہے اٹھی اور اوپر کی جانب بڑھ گئی۔مسی بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی سوچوں میں گم تھی۔
"مسی نیچے آجاؤ امی وغیرہ پوچھ رہے ہیں"میرہ نے کمرے میں آتے ساتھ ہی کہا لیکن مسی ویسے ہی بیٹھی رہی۔
"مسی میں توجہ سے کہہ رہی ہوں"میرہ نے اُس کے سامنے بیڈ پر بیٹھتے کہا۔مسی واپس اپنے حواس میں آئی۔
"کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے؟لگتا ہے یونی میں آج تم نے مجھے بہت مس کیا تھا"میرہ نے ہنستے ہوئے کہا جبکہ مسی سنجیدگی سے کہنے لگی۔
"آمائرہ تم جاؤ میں آجاتی ہوں"
"اب تو پکی بات ہے کچھ ہوا ہے؟بتاؤ مجھے تم ٹھیک نہیں لگ رہی؟زارون بھائی اپنے کمرے سے باہر نہیں نکل رہے۔احان بھائی اُدھر اپنے کمرے میں بند ہوئے بیٹھے ہیں اور ادھر تم ہو"میرہ نے سنجیدگی سے کہا۔
"کہیں تم لوگوں کی لڑائی تو نہیں ہوگئی؟"
"میرہ!"مسی نے کہا۔
"تم جب تک نہیں بتاؤ گی تب تک میں ایسے ہی گیس لگاتی رہوں گی"
"گل کے بارے میں بات ہے!"مسی نے سنجیدگی سے کہا جبکہ گل کا نام سن کر میرہ فوراً سیدھی ہوئی۔
"کیا ہوا گل کو؟سب ٹھیک تو ہے؟"اور پھر مسی اُسے ساری بات بتانے لگی جبکہ میرہ کو یقین نہیں آرہا تھا۔
"ت۔۔تم سچ کہہ رہی ہو؟"میرہ کا لہجہ کانپا تھا۔آرائی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
"اففف اللہ مسی! اس کی شادی ہونے والی ہے اور اس سے پہلے یہ سب کچھ!!!"میرہ نے پریشانی سے کہا۔
"میرہ پریشانی کی تو بات ہے"
"تو اب کیا ہوگا؟"
"اللہ سے ہم دعا ہے کر سکتے ہیں کہ خیر کرے"مسی نے گہرا سانس بھرے کہا۔
"شکر ہے زارون بھائی ٹائم سے چلے گئے تھے ورنہ جانے اُس کے ساتھ۔۔۔"میرہ نے جملہ ادھورا چھوڑا۔
"میرے سامنے زارون کے بارے میں بات مت کرو"مسی نے خفگی سے کہا۔
"ناراض ہو بھائی سے؟"
"ہاں بنتا بھی ہے تم نہیں جانتی وہ کس طرح روڈلی بولا تھا ہم سے!"
دوسری جانب وہ بھی اپنے کمرے میں بیٹھا تھا۔اُسے احان اور مسی کے ساتھ ایسے نہیں بولنا چاہیے تھا۔وہ کچھ سوچ کر باہر آیا اُدھر سے میرہ اور مسی احان کے کمرے سے نکل رہے تھے اور وہ بھی ان کے ساتھ تھا۔
"مسی احان! آئی ایم سوری!"اُس نے شرمندگی سے کہا۔"میں جانتا ہوں مجھے تم سے ایسے نہیں بولنا چاہیے تھا لیکن میں غصے میں تھا پلیز معاف کر دو آئندہ ایسے نہیں بولوں گا"زارون نے شرمندگی سے کہا۔
"آئندہ تو بول تو سہی ایسے اُسے وقت تیرا منہ نہ توڑ دوں گا آج تو میں تیرے زخمی ہاتھ کی وجہ سے خاموش رہا تھا"احان نے منہ بناتے ہوئے کہا جس پر وہ لوگ ہنس دیے۔
"بھائی آپ کو چوٹ لگی ہے؟کیسے؟"اُس نے سوال کیا جس پر زارون کے ذہن میں گل کا چہرہ گھومنے لگا۔ایک بار پھر سے اُس کو تعیش آنے لگا تھا۔خود پر قابو کیے وہ بمشکل مسکرایا۔
"نہیں بس ہلکا سا زخم ہے ٹھیک ہو جائے گا چلو ابھی نیچے چلتے ہیں"اُس نے کہا اور چاروں نیچے کی جانب بڑھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مراسمِ دل از:ماہی (مکمل)Onde histórias criam vida. Descubra agora