اور پھر من چاہی چیز کو چھوڑنا پڑتا ہے__!
"راحم کیا بات ہے؟تم نے مجھے یہاں کیوں بلایا ہے؟وہ بھی اتنی ایمرجنسی میں؟"علی اور راحم اس وقت ریسٹورانٹ میں بیٹھے تھے۔راحم نے ہی اسے یہاں بلایا تھا۔
"میں یہ ملک چھوڑ کر جا رہا ہوں"راحم نے سنجیدگی سے کہا جبکہ علی چونکا۔
"کیا مطلب ملک چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو؟"علی نے نا سمجھ سے سوال کیا۔
"میں لندن جا رہا ہوں۔وہاں بھی ڈیڈ نے کچھ بزنس ڈیلنگز کی تھیں اور وہاں بھی سارا سیٹ اپ ہے بزنس کا تو میں وہاں سے ہی سارا دیکھ لوں گا"راحم نے وضاحت دی۔
"کیوں راحم سب ٹھیک ہے نہ؟کسی سے کوئی جھگڑا ہوا ہے یا۔۔۔۔۔"علی پریشانی و بے تابي سے پوچھ رہا تھا لیکن راحم نے اُس کا جملہ کاٹا۔
"کوئی اور نہیں میرا ضمیر مجھے نہیں جینے دے رہا۔اس گھر میں جگہ جگہ ڈیڈ کی یادیں،ان کی پرچھائی دکھائی دیتی ہے۔نہ رات کو چین نہ دن میں سکون!!میں تھک گیا ہوں خود کو سمجھاتے،خود سے لڑتے۔۔۔"اُس کا لہجہ تھکا ہوا تھا اور اس کے لہجے میں موجود تکلیف کو علی محسوس کر سکتا تھا۔علی خاموش رہا۔
"اور وہاں جانا بھی میں اسی لیے چاہتا ہیں تاکہ اس سب سے دور ہو جاؤں۔خود کو مصروف کر لوں تاکہ اس سب سے میں باہر نکل سکوں"اُس نے گہرا سانس بھرے کہا۔علی اسے ہے خاموشی سے دیکھ رہا تھا اور جب وہ خاموش ہوگیا تو علی کہنے لگا۔
"تم نے سہی فیصلہ کیا ہے۔جگہ بدلو گے،مصروفیات بدلو گے تو یقیناً سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا"اُس کے اندر گلٹ تھا تو وہ اب کی بار اُس نے نظریں نہیں ملا پایا۔
راحم اُداسی سے مسکرا دیا۔
"کب کا جانے کا ارادہ ہے تمہارا؟"
"بس دو تین دن تک میں نے ڈیڈ کے پی_اے سے کہہ دیا ہے کہ یہاں سے سارا بزنس وائند اپ کرے!"
"تو کیا بزنس وائنڈ اپ دو دن میں ہو جائے گا؟"
"نہیں مہینہ دو مہینے تو لگیں گے لیکن میں دو دن تک چلا جاؤں گا پیچھے سے وہ سب ہینڈل کر لیں گے"
"وہاں جا کر بھول مت جانا مجھے"علی نے ماحول ہو ہلکا کرنے کے لیے دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا تو راحم بھی ہنس دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ منیجر کے ساتھ سائٹ وزٹ کرنے گیا تھا جس کے بعد اُسے آف ہوجانا تھا۔گھڑی شام کے پانچ بجا رہی تھی۔سائٹ وزٹ کرنے کے بعد وہ اپنی گاڑی میں آیا اور گاڑی گھر کی جانب بڑھا دی۔
گاڑی سڑک پر چل رہی تھی اور اُس کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہوتی جا رہی تھی۔آج اُسے نہ ہوٹل جانا تھا اور نہ ہی اپارٹمنٹ بلکہ واپسی پر اُسے اپنے،اپنے گھر والوں کے پاس جانا تھا۔
کچھ سوچ کر اُس نے فون اٹھایا اور کال ملانے لگا۔بیل جا رہی تھی۔اور دو تین گھنٹیوں بعد دوسری جانب سے فون اٹھا لیا گیا۔
"ہیلو!"اُس کی آواز گونجی اور زارون کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔
"ہیلو! کون بات کر رہا ہے؟"خاموشی پا کر اُس نے ایک بار پھر سے سوال کیا۔زارون مسکرایا اور شرارت سے کہنے لگا۔
"May I talk to Mrs.Zaroon Sikander please!?"
اُس کے لہجے میں شرارت واضع تھی جبکہ گل جھینپ گئی۔اور اُس کا جھینپنا محسوس کر کے زارون ہنس دیا۔
"کیسی ہو؟"اُسے خاموش پا کر اُس نے ایک بار پھر سوال کیا۔
"اچھی ہوں"دھیرے سے اُس کا جواب آیا۔
"ہمم اچھی تو تم ہو!"اور یہ کہہ کر زارون مسکرایا۔گل کا دل تیز رفتار سے دھڑکنے لگا تھا۔
"تو جیسے کہ آپ جانتی ہیں دادا سائیں مان گئے ہیں اس شادی کے لیے اور ڈیٹ لینے بھی آنے والے ہیں تو آپ کیسا محسوس کر رہی ہیں؟"
"جی۔۔۔۔؟؟؟؟"اُس کا "جی" قدرے لمبا تھا۔
"کیا جی؟ میں سوال پوچھ رہا تھا؟"
"نہیں میرا مطلب تھا وہ۔۔ہاں وہ مجھے موم بولا رہی ہیں میں آپ سے بعد میں بات کروں گی"اُس نے یہ کہتے ساتھ ہی فوراً سے فون کاٹ دیا۔جبکہ زارون دل کھول کر مسکرایا تھا اور پھر سے ڈرائیو کرنے لگا۔
گھر آچکا تھا۔اُس کی گاڑی دیکھ کر گارڈ نے دروازہ کھولا اور اُس نے گاڑی گیراج میں پارک کر دی۔
"سلام لالا کیسے ہیں آپ؟"اُسے گاڑی سے نکلتا دیکھ کر گارڈ مسکرایا۔
"میں ٹھیک ہوں بیٹا آپ کیسے ہیں؟"
"میں بھی ٹھیک۔اور سنائیں آپ کے بیٹے کی طبیعت ٹھیک ہے اب؟"
"ہاں بیٹا سر پھٹنے کی وجہ سے ٹانکے لگے ہیں اُسے اب بس بخار ہے اُسے دوا دے رہے ہیں"
"چلیں اللہ صحت دے۔"وہ مسکرایا "آپ کو اگر پیسوں کی یا کسی چیز کی بھی ضرورت ہو تو ضرور کہیے گا"
"بہت بہت شکریہ بیٹا"گارڈ نے سچے دل سے اُسے شکریہ کہا تو وہ بھی مسکراتا ہوا گھر میں داخل ہوگیا۔
بچے،بڑے سب لاؤنج میں بیٹھے تھے۔اُس نے آتے ساتھ ہی سب کو سلام کیا اور چلتا احان کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا۔
"اور سناؤ برخوردار کیسا گزرا دن؟"اُس کے بیٹھتے ساتھ ہی سکندر صاحب نے سوال کیا۔
"اچھا ہی تھا بابا"اُس نے جواب دیا اور ملازم کے ہاتھ سے پانی کا گلاس پکڑا۔
"برخوردار! تم یہ جوب شوب کی مدت پوری کرو اُس کے فوراً بعد ہی تمہاری شادی کی تاریخ طے کرنے کا ارادہ ہے ہمارا"دادا سائیں نے اُسے آگاہ کیا۔
"دادا سائیں اتنا انتظار؟کیوںکر رہے ہیں ظلم اس معصوم پر کہیں یہ ہی نہ ہو کہ پھر سے گھر چھوڑ کر چلا جائے"احان نے بیچ میں ٹانگ آڑائی۔
"احان تم کیوں میرے ہاتھوں قتل ہونے کا ارادہ رکھتے ہو؟"زارون نے سنجیدگی سے سوال کیا۔
"دیکھئے چاچو آپ کا بچہ کیسے فوراً سے خون خرابے پر اُتر آتا ہے"اُس نے فوراً سے سکندر صاحب کو گفتگو میں شامل کیا جس پر وہ مسکرا دیے۔
"احان بیٹا شاباش اٹھو جا کر فریش ہو کر آؤ ورنہ اس طرح تم نے ایسے ہی بیٹھے رہنا ہے"مریم بیگم نے اُسے کہا جو کچھ دیر پہلے ہی آیا تھا۔
"چلیں میں بھی فریش ہو لوں پھر سب میل کر چائے لیتے ہیں"زارون بھی کہتا اٹھا اور اپنا کوٹ بازو میں ڈالتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
تھوڑی دیر میں وہ فریش ہوئے نیچے آئے تب تک چائے تیار ہو چکی تھی۔
وہ بھی صوفے پر نشست سنبھالتا چائے کا کپ پکڑے اُس کے گھونٹ بھرنے لگا۔
بڑے شادی کا موضوع ڈسکس کر رہے تھے اور بچے اپنی الگ پارٹی بنائے بیٹھے تھے۔
"پتا ہے گل کیا کہہ رہی تھی؟"میرہ نے گل پر زور دیئے کہا اور زارون جو چائے پینے میں مگن تھا اُس کے نام پر مکمل طور پر ان کی جانب متوجہ ہوا۔
"کیا کہہ رہی تھیں؟"احمر نے پوچھا۔
"وہ کہتی کہ پلیز مجھے مت تنگ کرو مجھے شرم آرہی ہے"یہ کہتے ساتھ ہی میرہ ہنس دی جبکہ باقی سب کے چہرے پر بھی شریر مسکراہٹ رینگی۔
"کیا مطلب؟تم کیوں تنگ کر رہی تھی اُنہیں؟"احمر چونکا۔
"بھئی دیکھی میرے بھائی کی بیوی ہے وہ تو بس اُسے چھیڑ رہی تھی تو بیچارے شرما گئی"میرہ کے کہنے پر احمر شرارت سے زارون کی جانب دیکھنے لگا۔
"بھائی سن رہے ہیں؟آپ کے نام پر شرمائی تھیں وہ"احمر نے شرارت سے کہا جس پر زارون مسکرا دیا اور اُن سب نے شرارت سے "اوہ" کہا۔
"تو زارون کون سا کم ہے دیکھو اس کے بھی گال لال لال ہو رہے ہیں"احان نے آنکھ دبائے کہا جبکہ زارون نے اُسے گھورا۔
"او ہیلو! میں کوئی شرماتا ورماتا نہیں ہوں سمجھے!"
"اچھا۔۔۔۔"اور احان کا اچھا قدرے لمبا تھا اور زارون نے بھی اُسے کے انداز میں جی کہا۔
"بھئی میں سوچ رہی شاپنگ کب سے سٹارٹ کرنی ہے؟"مدیحہ جو ابھی باورچی سے آئی تھی ان کے ساتھ ہی بیٹھتے سوال پوچھنے لگی۔
"بھابھی جب زارون بھائی ہاتھ لگیں گے تب جائیں گے! بھئی بچے کی پہلی پہلی تنخواہ ہوگی تو ساری اپنے اوپر لٹوایں گے ان کی"احان نے شرارت سے کہا۔
"ہاں ہاں جیسے آپ چاہیں۔بلکہ کچھ دن تک مجھے پے ملنے والی ہے وہ میں آپ لوگوں کو دے دوں گا جو کرنا ہو ہے کریے گا"زارون نے فراخ دلی سے کہا۔
"ہائے دیور جی!! آپ کی نوازشیں!! لیکن یہ کام نہیں چلے گا۔کیوں سہی کہا نا میں نے"اُس نے سب کو مخاطب کیا۔
"اب ہم اتنے ظالم بھی نہیں کہ ساری کی ساری پے رکھ لیں تو آپ بس یہ کیجیۓ گا کہ ہم سب کو اچھے سے ریسٹورانٹ میں ڈنر کروا دیجیۓ گا"مدیحہ نے وضاحت دی۔
"Very good idea!"
سب نے حامی بھری۔
"بھابھی آپ نے اتنا اچھا موقع گوا دیا۔بھائی آپ کو ساری پے دے رہے تھے شاپنگ کے لیے"
"احمر سمجھا کرو بھابھی کسی اور کے پیسے کرچ کروانا چاہتی ہیں"میرہ نے شرارت سے کہا جس پر مدیحہ جھینپا جھینپا مسکرا دی۔
سب اُس کی یہ حرکت دیکھ کر ہنس دیے۔
"ویسے بھابھی جی! میں تو کہتا ہوں کہ اللہ اللہ کر کے اب کوئی فنکشن آیا ہے تو خوب بھائی کے پیسے خرچ کروائیے گا۔"احان نے اُسے مشورہ دیا۔
"ہمم پوائنٹ ہے! ویسے ایک بات تو ہے میرے سارے دیور آئیڈیاز بڑے کام کے دیتے ہیں"اور وہ تینوں شوخی سے اپنے کندھے جھاڑنے لگے۔
"زارا کیا تم نے اپنی بہن سے کمپیٹیشن لگایا ہے کہ جو کم بولے گا اُسے سونے کا کپ گفٹ کیا جائے گا؟"احمر نے دونوں کو چپ بیٹھا دیکھ کر شرارت بھری سنجیدگی سے کہا۔
"نہیں تو۔۔۔"زارا نے فوراً سے جواب دیا۔
"پھر تم بول سکتی ہو یہاں پر کسی کے بولنے پر بھی پابندی نہیں ہے"
"نہیں احمر بھائی میں ایک بات سوچ رہی تھی"زارا نے کہا۔
"کیا؟"
"یہی کہ زارون بھائی پر ڈریسز کون کون سے لینے ہیں"اُس کے کہنے پر وہ لوگ ہنس دیے۔
"لو جی تم بیٹھی یہی سوچتی رہنا"احمر نے اپنا سر جھٹکا۔
"ہاں نہ میں شادی پر بہت پیارا لگنا چاہتی ہوں"اُس نے پرجوش انداز میں کہا۔
"بھائی دیکھ لیں کیا کہہ رہی ہے آپ کی بہن سب سے پیارا دکھنا چاہتی ہے۔۔۔"احمر نے زارون کی جانب دیکھتے کہا۔
"ہاں نہ تو کیوں نہیں"
"ہیں سچی!!؟؟ میں تو آپ سے یہ ایکسپکٹ کر رہا تھا کہ آپ کہیں گے کہ نہیں میری بیوی سب سے خوبصورت دکھے گی تو بلاہ بلاہ تو بلاہ۔۔۔۔"
"بیٹا ابھی ایسے بھی دن نہیں آئے ہیں سمجھے"زارون نے آنکھ دبائی۔
"مطلب عنقریب آ جائیں گے؟"احان نے شرارت سے پوچھا تو زارون نے گدی اٹھا کر اُسے ماری تو وہ ہنس دیا۔
"مدیحہ بیٹا آپ بھی کل تیار رہنا کال گل بیٹی کی طرف جانا ہے"دادا سائیں نے کہا تو اُن کے کہنے پر سب اُن کی جانب دیکھنے لگے۔
"جی دادا سائیں میں ہو جاؤں گی۔کس ٹائم جانا ہے؟"
"شام میں کل۔حیات صاحب کو فون کر کے آگاہ کر دیں گے ہم۔"
"اوئے ہوۓ!!"احان نے اُس کے کان میں سرگوشی کی۔
"دادا سائیں زارون بھائی بھی جائیں گے کیا؟"احمر نے جوش سے سوال کیا۔
"نہیں!"
"لیکن کیوں؟بھائی کا نکاح تو ہو چکا ہے گل سے تو پھر۔۔۔؟"
"بیٹا اپنی شادی کی تاریخ لینے دولہے نہیں جایا کرتے۔دولہے کے گھر والے جاکر تاریخ لے کر آتے ہیں"دادا سائیں نے وضاحت دی۔
"Oh sad!"
احمر نے افسوس سے کہا۔
"تمہیں بڑا افسوس ہو رہا ہے؟"احان نے اُس کا کان کھینچتے کہا۔
"آہ!! یار اب ایک بھائی کا خیال دوسرا بھائی ہی رکھے گا۔آئی۔۔درد ہورہی!"اُس نے اپنا کان چھٹواتے کہا تو احان نے جھٹکے سے اُس کا کان چھوڑا۔
"میرا معصوم کان! آپ اتارنے کہ ارادہ رکھتے تھے کیا؟"احمر نے خفگی سے کہا جس پر احان نے لا پرواہی سے اپنے کندھے اُچکائے۔
زارون تب سے مسی کا رویہ نوٹ کر رہا تھا۔وہ جب سے آیا تھا وہ خاموش خاموش ہی تھی جانے اُسے کیا ہوا تھا؟ویسے ان سب کی ہی آپس میں کافی دوستی تھی لیکن اس کی خاموشی اُسے عجیب لگی۔وہ پہلے تو کبھی اتنا خاموش نہیں رہتی تھی۔اُس سے بات کرنے کا ارادہ کیے وہ دوبارہ اُن سب کی جانب متوجہ ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,
YOU ARE READING
مراسمِ دل از:ماہی (مکمل)
Fantasyمراسمِ دل کہانی ہے دل سے بنے رشتوں کی اور ضروری نہیں تمام رشتے ناطے صرف خونی ہوں بعض اوقات دل سے بنے ہوئے رشتے بھی بہت معنی رکھتے ہیں۔