قسط:۳

67 9 1
                                    

ملاقات ادھوری رہ گئی__!  

دن رفتا رفتا گزر رہے تھے اور اسی طرح ہفتہ بھی پنکھ لگا کر اڑ گیا اور کسی کو خبر بھی نہ ہوئی۔سب خوشیوں سے بھرپور ٹرپ گزار کر واپس لوٹے تھے۔یہ ٹرپ یقیناً سب کے لیے ایک حسین یادگار تھا لیکن گل اس ٹرپ کو ساری زندگی یاد رکھنے والی تھی۔
یہ سات دِن اس کی زندگی کے حسین ترین دن تھے۔ان سات دنوں میں اُس نے زندگی کی خوبصورتی کو پہچانا تھا اور رشتے اصل زندگی میں بہت معنی رکھتے ہیں اُسے احساس ہوا تھا۔
حیات مختار اگرچہ ریٹائرڈ ہوچکے تھے لیکن انہوں نے ریٹائرمنٹ کے کچھ عرصہ بعد ہی بزنس شروع کر دیا تھا جس کی وجہ سے اُن کا دوسروں شہروں میں جانا لگا رہتا تھا۔جبکہ زوبیہ بیگم بھی ورکنگ ومن تھیں لیکن اب انہوں نے بھی جاب چھوڑ دی تھی۔جاب کرنا اُن کی مجبوری نہیں تھا بس شوق تھا جس پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے جاب شروع کی تھی جب گل کی عمر تقریباً چار سال ہی تھی۔
دونوں میاں بیوی اپنے کاموں میں اتنا مصروف تھے کہ گل کو ٹائم دینے کے لیے ان کے پاس بہت کم وقت ہوتا تھا۔
جب اُسے توجہ کی ضرورت تھی تب وہ اپنی زندگیوں میں مصروف تھے اور اب جب وہ اٹھارہ سال کی ہوچکی تھی تو اُس کی ماں نے جاب چھوڑ دی تھی تاکہ اپنی بیٹی کےساتھ وقت گزار سکیں جو پہلے ہی اکیلے رہنا سیکھ چکی تھی۔لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ وہ ہمیشہ اپنی مانتی تھی وہ ہمیشہ سے ہی اپنے والدین کی فرمانبردار اولاد تھی اور آگے بھی رہے گی اُسے اس بات کا یقین تھا۔
گاڑی اس وقت جمال الدین مینشن کے باہر کھڑی تھی۔زارون نے ہارن بجایا تو ملازم بھاگا بھاگا آیا اور دروازہ کھولنے لگا۔اور دروازہ کھلتے ہی زارون نے اپنی کالی پراڈو پورچ میں داخل کی۔سب گاڑی سے باہر نکلے۔گل بھی ان کے ہمراہ تھی۔ملازم نے گاڑی سے سارا سامان نکالا اور زارون نے گاڑی کی چابی ڈرائیور کو پکڑا دی جو گاڑی کو گیراج میں پارک کرنے چلا گیا۔
وہ سب چلتے اندر آئے تو لاؤنج خالی پڑا تھا۔گھڑی پر ٹائم دیکھا تو رات کے بارہ بج رہے تھے۔
"گل! رات کافی ہورہی ہے تم آج یہیں پر ہی سو جاؤ صبح ہم تمہیں چھوڑ آئیں گے"میرہ نے دھیرے سے اُس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا جس پر گل خاموش رہی۔
"ابھی سب سورہے ہیں صبح ہی سب کو مل لیں گے"احان نے کہا اور سب اپنے اپنے کمروں کی جانب بڑھ گئے۔جبکہ گل میرہ کے ساتھ تھی۔یہ حویلی باہر سے جتنی بڑی اور خوبصورت لگتی تھی اندر سے بھی اتنی ہی خوبصورت اور بڑی تھی۔اس خاندان کے سوا یقیناً کوئی بھی آتا تو اس میں آسانی سے کھو سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں مارچ کے مہینے میں گرمی کا آغاز شروع ہوا تھا وہیں لندن میں مارچ میں بھی سردی کی تپش باقی تھی۔
درخت برف سے ڈھکے ہوئے تھے جبکہ سورج کی تپش بھی نہ ہونے کے برابر۔
اپنے آپ کو ٹھنڈ سے محفوظ رکھنے کے لیے سب گرم کپڑے،سویٹزر اور جیکٹس کا استعمال کر رہے تھے۔
اب آتے ہیں لندن کے ہسپتال کی طرف جہاں ہل چل اپنے معمول کے مطابق تھی۔
وہ بھی اس وقت ہسپتال کے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔جبکہ غفور صاحب نے بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا رکھی تھی۔شاید وہ کوئی اہم بات کر رہے تھے۔
"حیات! میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے آج میں ہوں کل پتہ نہیں رہوں یا نہ رہوں۔۔۔"غفور صاحب کے لہجے میں کپکپاہٹ تھی۔
"کیسی باتیں کررہے ہو تم؟یوں حوصلا مت ہارو تم ٹھیک ہو جاؤ گے"حیات صاحب برہمی سے کہنے لگے جس پر غفور صاحب پھیکا سا مسکرا دیے۔
"میرا حوصلا تو صرف میرا ایک بیٹا ہی ہے۔بیوی تو کب کی جا چکی ہے"آخر میں اُس کے لہجے میں غم بھی شامل ہوا تھا۔
"تو بھائی صاحب آپ کو ابھی آپ کے بیٹے کے لیے ہی تو جینا ہوگا۔ابھی آپ کو اُس کی خوشیاں دیکھنی ہیں"زوبیہ نے ان سے کہا جس پر وہ کہنے لگے۔
"اُس کی خوشیوں کے لیے ہی تو آج میں آپ لوگوں سے یہ بات کرنے لگا ہوں"غفور صاحب کا لہجہ دھیما پڑا تھا۔
"حیات! میں جو تم سے کہنے لگا ہوں شاید وہ تمہیں برا لگے"
"تم کہو تو صحیح کیا بات ہے؟"
"میں۔۔۔۔میں اپنے بیٹے راحم کے لیے تمہاری بیٹی گل کا رشتہ مانگتا ہوں۔گل بہت پیاری بچی ہے اور اپنے بیٹے کے لیے مجھے وہ ہی صحیح لگی۔میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میری زندگی کا کیا بھروسہ اور اب بھی یہی کہوں گا لیکن پلیز! جواب دینے سے پہلے سوچ لینا میں انتظار کر لوں گا"غفور صاحب نے عاجزی سے کہا جبکہ زوبیہ بیگم تو یہ ایکسپیکٹ نہیں کر رہی تھیں۔حیات صاحب کے چہرے کے تاثرات نارمل تھے۔
کچھ دیر ہی گزری ہوگی جب حیات صاحب کی سنجیدہ آواز کمرے میں گونجی۔
"غفور! تم جانتے ہو تم مجھے بہت عزیز ہو اور یہ بھی جانتے ہو کہ تمہاری خواہش میرے لیے کیا معنی رکھتی ہے لیکن۔۔۔"پل بھر کو وہ خاموش ہوئے۔"لیکن میں یہ ہرگز برداشت نہیں کروں گا کہ تم حوصلا ہار کر بیٹھ جاؤ،اپنے جینے کی امید ہی کھو دو۔اور تمہارا بیٹا بھی اچھا بھلا دیکھا بھالا بچا ہے اور تم نے ابھی میری بیٹی اور اپنے بیٹے کی خوشیاں بھی دیکھنی ہیں"حیات صاحب کے لہجے میں سنجیدگی ابھی بھی گھلی ہوئی تھی جبکہ غفور صاحب کو سمجھ نہیں آیا تھا ان کا جملہ اسی لیے آنکھیں جھکا گئے۔
زوبیہ بیگم شاک کے عالم میں حیات صاحب کو دیکھ رہی تھیں۔اگرچہ راحم "اچھا" لڑکا تھا اور اپنی بیٹی کے لیے اُنہیں بہتر لگا تھا لیکن اس کہ یہ مطلب تو نہیں تھا کہ گل سے پوچھے بنا ہی ہاں کردی جائے۔
وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ گل کو ان کے فیصلے پر کوئی اختلاف نہیں ہو گا لیکن پھر بھی اُس سے پوچھنا اُس کا حق تھا۔
"اب کیا اس خوشی کے موقع پر مٹھائی نہیں کھلاؤ گے؟"حیات صاحب دھیرے سے مسکرائے۔
"کیا مطلب تم نے یہ رشتہ قبول کر لیا ہے؟"غفور صاحب نے بے چینی سے سوال کیا جس پر حیات صاحب مسکرا دیے۔
"حیات! تم نہیں جانتے آج میں کتنا خوش ہوں"غفور صاحب کی آنکھوں میں نمی آئی تھی۔حیات صاحب اٹھے اور ان تک آئے اور بغل گیر ہوئے۔
"تمہارا یہ احسان میں کبھی نہیں بھولوں گا"
"اچھا بس اب زیادہ بنو مت! اپنا خیال رکھو ابھی ہم سب کو تمہاری بہت ضرورت ہے"حیات صاحب نے کہا جس پر غفور صاحب مسکرا دیے۔زوبیہ بیگم بس اُن دونوں کو دیکھ کر رہ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لندن سے کئی میلوں کے فاصلے پر جہاں رات نے اپنا بسیرا جمایا ہوا تھا،اب پگھل چکی تھی اور صبح پورے آسمان پر اپنے پر پھیلا چکی تھی۔
اتوار کا دن تھا اور سب آج گھر پر ہی موجود تھے اور آہستہ آہستہ اٹھ رہے تھے۔
لاؤنج میں ایک سائڈ پر بیگز پڑے ہوئے تھے۔اُنہیں دیکھ کر سکندر صاحب نے ملازم سے سوال کیا۔
"یہ بیگز کس کے یہاں رکھے ہیں؟"
"صاحب جی یہ کل رات کو زارون صاحب اور باقی بچے آئے تھے تو اُن کا سامان ہے"اُس نے تابیداری سے جواب دیا۔
"بچے آگئے ہیں کب؟"مصطفیٰ صاحب نے حیرانگی سے کہا۔
"رات کو تقریاًً بارہ بجے آئے تھے"
"اچھا صحیح ہے تم یہ سامان ان کے کمروں میں رکھواؤ"غضنفر صاحب نے کہا۔ملازم اثبات میں سر ہلاتا وہاں سے نکل گیا۔
"بابا سائیں آپ کو پتا تھا کہ وہ لوگ آرہے ہیں؟"مریم نے سوال کیا۔
"نہیں یہ تو نہیں پتا تھا کہ رات میں آنا ہے اُن نے ویسے کہہ کر توگئے تھے کہ ایک ہفتے کا ٹرپ ہے"
"دادا سائیں مجھے کال کی تھی زارون نے لیکن میں اس وقت میٹنگ میں تھا کال اٹینڈ نہیں کر سکا"ذیشان جو سیڑھیاں اتر کر نیچے آرہا تھا کہنے لگا۔
"سب آجائیں ناشتہ لگ چکا ہے ناشتہ کر لیں۔بچے تو لیٹ اُٹھیں گے تو وہ بعد میں کر لیں گے"عائشہ اور زینب جو کہ ابھی ناشتہ لگوا کر آئی تھیں کہنے لگیں۔
سب اٹھ کر ناشتہ کرنے چل پڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشتہ ہوا اور اب سب لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے۔بچے بھی اٹھ کر آگئے تھے اور اپنے ٹور کے بارے میں بتا رہے تھے۔
"اور بھئی مزا آیا وہاں پر؟"مریم نے بچوں سے سوال کیا۔
"اتنا مزہ آیا کہ بس کیا بتائیں اور اوپر سے جگہ بھی اتنی پیاری تھی کہ واپس آنے کا دل ہی نہیں کر رہا تھا"احان نے کہا۔
"سہی میں جگہ تو واقعی بہت خوبصورت تھی۔ویسے جگہ اس سے پہلے کبھی اتنی خوبصورت نہیں لگی تھی"زارون نے ہنستے ہوئے کہا۔
"ہیں بھئی اس بار بھلا کیا خاص ہوگیا؟"عائشہ بیگم نے سوال کیا۔اس سے پہلے زارون کچھ بولتا احمر بولنے لگا۔
"امی اس بار تو ایسا سین ہوا نا کہ کیا بتاؤں!"اُس نے ہنستے ہوئے کہا۔
"کون سا والا؟"مسی نے سوال کیا جس پر میرہ کہنے لگی۔
"وہی بچے والا"میرہ نے ہنستے ہوئے کہا جس پر گل سمیت چاروں ہنس دیے جبکہ زارون نے منہ بنایا۔
"خود ہی ہنستے جاؤ گے یا بتاؤ گے بھی ہوا کیا تھا؟"زینب بیگم نے سوال کیا جس پر احمر نے ہنستے ہوئے بچے کی ساری داستان سنائی جس پر سب ہنس دیے۔
"ڈیڈ! میں تو اُس بچے کی بات پر حیران پریشان تھا۔مطلب کے اتنی سی عمر تھی اُس کی اور باتیں۔۔افف!"زارون نے سکندر صاحب سے کہا۔
"بابا! اصل میں بھائی اس لیے اُس سے جیلس ہورہے ہیں کیونکہ گل نے اُس کو زیادہ خوبصورت کہا تھا"میرہ نے ہنستے ہوئے کہا جبکہ گل جھینپ کر خاموشی سے بیٹھی تھی۔
"زیادہ بنو مت! میں بھلا کیوں اُس سے جیلس ہوں گا؟"زار نے خفگی سے کہا۔
"احان بھائی! مسی! احمر! بتاؤ میں صحیح کہہ رہی ہوں نا؟"میرہ مسلسل ہنس رہی تھی جس پر وہ تینوں میسنی ہنسی ہنس دیے۔
"اچھا اچھا بھئی بس کرو اب گل بیٹی کیا سوچے گی؟"دادا سائیں نے اُنہیں ٹوکا۔
"دادا سائیں بیچاری انہی پانچوں کو برداشت کر کے آئی ہے پورا ہفتہ"ذیشان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"ایسی بھی بات نہیں ہے ذیشان بھائی آپ بے شک پوچھ لیں اس سے اس نہیں کافی انجواۓ کیا ہے ہمارے ساتھ"میرہ نے سنجیدگی سے کہا جس اور سب اب گل کی جانب دیکھنے لگے۔
"یہ بھلا کیا بات ہوئی تم اس سے سامنے بیٹھے ہو اب وہ کیسے انکار کر سکتی؟"ملیحہ نے آگے کو ہو کر بیٹھتے اپنا چہرہ ہاتھوں پر رکھے کہا۔
"بھابھی! یار ایسے تو مت کہیں!"احان نے مسکینوں جیسی شکل بنا کر کہا جس پر سب مسکرا دیے۔
"بیٹا! آپ کے والدین کیا کرتے ہیں؟"دادا سائیں نے اُس سے سوال کیا جو خاموش سے ایک کونے پر بیٹھی تھی۔
"جی۔۔میرے ڈیڈ ریٹائرڈ جنرل ہیں اور موم جاب کرتی تھیں لیکن اب چھوڑ دی ہے"اُس نے وہی اپنے مخصوص لہجے میں جواب دیا۔
"ماشاءاللہ!"دادا سائیں مسکرائے تھے جس پر وہ بھی ہلکا سا مسکرا دی۔
"میرہ! میں گھر جانا چاہتی ہوں"دادا سائیں اب دوسری جانب متوجہ تھے جب گل نے میرہ کے کان میں سرگوشی کی۔
"یار گل! تھوڑی دیر اور رک جاؤ پلیز!"میرہ کی آواز تھوڑی اونچی ہوئی تھی جس پر سب ان کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔
"کیا ہوا بیٹا کوئی پریشانی ہے؟"سکندر صاحب نے سوال کیا۔
"نہیں کچھ بھی۔۔۔۔"
"بابا یہ گھر جانا چاہتی ہے لیکن اس کے گھر پر کوئی بھی نہیں ہے انکل آنٹی کہیں گئے ہوئے ہیں لیکن یہ ضد کر رہی گھر جانے کی"میرہ نے اُس کی بات کاٹتے کہا جس پر گل بس اُسے دیکھ کر رہ گئی۔
"کیوں بیٹا؟آپ کو یہاں پر کوئی پریشانی ہے؟"سکندر صاحب نے اپنائیت بھرے لہجے میں سوال کیا۔جس پر گل شرمندہ ہوئی۔
"نہیں نہیں انکل! ایسی کوئی بات نہیں ہے"اُس نے فوراً سے کہا جبکہ نظریں اُس سے جا ملیں جو اسے ہے تک رہا تھا۔
"بیٹا اگر گھر پر آپ نے ہی رہنا ہے تو یہیں رہ لو۔جب آپ کے والدین آجائیں گے تب آپ چلی جانا"مصطفیٰ صاحب نے کہا۔وہ نہ کرنا چاہتی تھی لیکن اُن سب کے لہجوں میں اپنائیت بھری پڑی تھی۔
"گل تم یہاں رہ رہی ہو؟"میرہ نے جوش سے کہا جس پر گل خاموش ہی رہی۔
"ہاں بیٹا! گل بیٹی ادھر ہی رہ رہی ہے باقی اگر اس کے والدین سے میں خود بات کر لوں گا"دادا سائیں نے اپنا آخری فیصلے سنایا اور گل وہ نظریں جھکا گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات اندھیری تھی اور یوں معلوم پڑ رہا تھا جیسے پوری دنیا نظروں کے سامنے گھوم رہی ہو۔وہ آگے بڑھ رہا تھا لیکن اُس کے قدم اُس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔وہ قدم کہیں رکھتا تھا اور پڑتے کہیں اور تھے۔منظر سارا دھندلا پڑ رہا تھا۔
اسی نیم بیہوشی کے عالم میں وہ گھر میں داخل ہوا۔پورے میں اندھیرا اور سناٹا چھایا ہوا تھا۔گویا سامنے کا منظر اندر جیسا ہی تھا۔
دروازہ بند کرتا وہ اندر آیا اور وہیں صوفے پر ہی لیٹ گیا۔اپنے کمرے میں جانے کی اُس میں ہمت نہیں تھی۔
آخری چیز جو اُس نے دیکھی تھی وہ سامنے کھڑکی کے پار چاند تھا اور پھر سارا منظر دھندلا ہوگیا۔ہے طرف اندھیرا چھا چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس وقت میرہ کے کمرے میں بیٹھی تھی۔میرہ نے سب سے پہلے اُسے پورا منشن دکھایا تھا۔وہ واقعی قدرے خوبصورت اور بڑا تھا۔
"بتاؤ کیسا لگا ہمارا گھر؟"میرہ نے اُس سے سوال کیا جبکہ اتنے بڑے منشن کے لیے گھر کا لفظ استعمال کرنے پر گل کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں۔
"اتنے بڑے منشن کو تم گھر کہہ رہی ہو؟"گل نے حیرانگی سے سوال کیا۔جس پر میرہ ہنس دی۔
"ہاں ہاں وہی مطلب ہوا"
"بہت پیارا ہے انفیکٹ مجھے تو یہ ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں میں گم ہی نہ ہوجاؤں"گل نے ہنستے ہوئے کہا جس پر میرہ بھی ہنس دی۔
"گل ویسے ایک بات تو بتاؤ؟"میرہ بیڈ پر چت لیٹی ہوئی تھی جبکہ بازؤں میں اُس نے تکیہ پھنسایا ہوا تھا۔جبکہ گل بیڈ کی پشت سے ٹیک لگایا بیٹھی تھی۔
"ہمم پوچھو؟"
"تمہارے ڈیڈ اتنے سخت کیوں ہیں؟"میرہ نے سوال کیا جس پر گل ہلکا سا مسکرائی۔
"نہیں وہ سخت تو نہیں ہیں"وہ ٹھہری پھر کہنے لگے۔"اُن کی نیچر ہی اس طرح کی ہے سنجیدہ مزاج!"
"لیکن پھر بھی گل! بندہ جتنا بھی اسڑکٹ کیوں نہ ہو بٹ اپنے بچوں پر تو اتنی پابندیاں نہیں لگاتا نا"میرہ اوپر ہوئے ایک ہاتھ سر کے نیچے رکھے اُس کی جانب دیکھنے لگی۔
"میرہ! میرے ڈیڈ نے زندگی میں بہت سی مشکلات سہی ہیں،ہر وقت ان کی جان کے خطرے پڑے رہتے تھے حتیٰ کہ کئی بار ڈیڈ بہت زخمی بھی ہوئے۔لیکن تم جانتی ہو انہوں نے ہمیشہ ہمیں اس سب سے دور ہی رکھا۔خود جس حال میں بھی رہے ہمیں ماحول کی گرمی سردی سے محفوظ رکھا۔اور اب بھی انہوں نے میرے لیے ہی یہ سب پابندیاں لگائی ہیں تاکہ میں اب بھی محفوظ رہوں۔"اُس نے جواب دیا جبکہ میرہ خاموش رہ گئی۔اُس کے پاس مزید کہنے کو کچھ نہیں تھا۔
"کافی رات ہورہی ہے۔اب سونا چاہیے!"گل نے کہا جس پر میرہ مسکرا دی اور لیمپ بند کر دیے۔رات قطرہ قطرہ پگھلنے لگی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن یونہی پنکھ لگا کر اڑ گئے اور وہ دن بھی آگیا جب اُسے واپس اپنے گھر جانا تھا۔
خان لالا باہر کھڑے تھے جبکہ وہ سب سے مل رہی تھی اور ان کا شکریہ ادا کر رہی تھی۔اور اب وہ باہر کھڑی تھی میرہ کے ساتھ۔
"یار گل! کچھ دن اور رک جاتی صحیح میں مجھے بہت مزا آیا تمہارے ساتھ"میرہ نے اُس کے گلے لگے کہا۔گل مسکرا دی۔
"مجھے بھی بہت مزا آیا۔تھینک یو ویری مچ!"اُس نے خوش دلی سے کہا۔
"یار! کتنا مزہ آئے تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہمارے ساتھ رہو!"میرہ نے کہا
"لڑکی! اور کتنا روکنا ہے تم نے مجھے؟پچھلے دو ہفتوں سے تمہارے ساتھ ہی ہوں تم بھی تنگ آگئی ہوگی"گل نے ہنستے ہوئے کہا"اوہو میری شال تمہارے روم میں رہ گئی ہے"اُس نے اپنے بیگ میں ہاتھ مارا۔"پلیز! میرہ تم مجھے کا دو گی میں تو ہم ہو جاؤں گی"
"اچھا لا دیتی۔اور ہاں میں کوئی تنگ ونگ نہیں آئی سمجھی تم"میرہ نے منہ بناتے ہوئے کہا اور اندر چلی گئی۔
"ویسے ایک طرح سے آپ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہاں اس گھر میں ہمارے ساتھ رہ سکتی ہیں"زارون جانے کہاں سے آیا تھا کہنے لگا۔گل نے نا سمجھی سے اُس کی جانب دیکھا۔
"جی؟میں سمجھی نہیں؟"اُس نے کہا جس پر زارون دھیرے سے مسکرا دیا۔
"کچھ باتیں بتائی نہیں جاتیں اُنہیں خود سمجھنا پڑتا ہے اور یقیناً آپ بھی وقت آنے پر سب سمجھ جائیں گیں"وہ کہتا رکا نہیں بلکہ اندر چلا گیا جبکہ پیچھے گل کو سوچوں میں گرفتار کر گیا۔
اپنا سر جھٹکتے وہ بغیر میرہ کا انتظار کیے باہر نکل گئی جہاں خان لالا اسی کا انتظار کر رہے تھے۔اُس کے بیٹھتے ہی اُنہوں نے گاڑی آگے دوڑا دی۔
میرہ آئی تو گیراج خالی تھا۔
"ہیں یہ کہاں گئی؟"اُس نے کہا پھر سر ہلاتے اندر چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جب سے گھر لوٹی تھی زوبیہ بیگم کو ان دو ہفتوں کے متعلق بتا رہی تھی جبکہ زوبیہ بیگم اُس کو یوں باتیں کرتا دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہوئی تھیں۔شاید وہ پہلی بار ان سے اس طرح بات کر رہی تھی۔
"ممی! ان کے خاندان میں رہ کر بالکل محسوس نہیں ہوا کہ میں کسی اور فیملی کا حصہ ہوں"اُس نے کہا جبکہ خوشی اُس کے ہر انداز سے چھلک رہا تھا۔
حیات صاحب لاؤنج میں داخل ہوئے۔گل خاموش ہوگئی اور اُنہیں تکنے لگی۔
وہ چلتے آئے اور صوفے پر بیٹھ گئے۔
"ادھر آؤ میری بیٹی!"انہوں نے کہا جس اور گل چلتی ان تک آئی اور ان کے پاس بیٹھ گئی۔
"غفور انکل کیسے تھے ڈیڈ؟"اُس نے اُن کے پاس بیٹھتے سوال کیا۔
"وہ اب ٹھیک ہیں لیکن بالکل ٹھیک نہیں ہیں"حیات صاحب نے کہا جس پر گل خاموش ہوگئی۔
"بیٹا تمہاری موم اور میں اگر تمہاری زندگی کا کوئی اہم فیصلہ کریں تو کیا تم اُسے قبول کر لو گی؟"حیات صاحب نے اُس سے سوال کیا۔زوبیہ بیگم بھی ساتھ والے صوفے اور آکر بیٹھ چکی تھیں۔
"جی ڈیڈ! آپ اور موم جو بھی فیصلہ کریں گے وہ میرے لیے بہت معنی رکھے گا"اُس نے کہا جس پر حیات صاحب اور زوبیہ بیگم بے ساختہ مسکرا دیے۔
"مجھے اپنی بیٹی سے یہی امید تھی"انہوں نے کہا پھر مزید کہنے لگے۔"بیٹا غفور نے تمہارا رشتہ مانگا ہے اپنے بیٹے راحم کے لیے وہ چاہتا ہے کہ جلد از جلد تمہاری شادی کر دی جائے۔وہ اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کی خوشیاں دیکھنا چاہتا ہے"حیات صاحب کہہ رہے تھے جبکہ وہ خاموشی سے نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔
"تم بتاؤ بیٹا تم کیا چاہتی ہو؟"اُنہیں نے اُس سے سوال کیا۔
"ڈیڈ جیسے آپ کو اور ممی کو ٹھیک لگے"وہ کہے پھر سے نظریں جھکا گئی۔
"جیتی رہو خوش رہو!"انہوں نے اُس کے سر پر پیار کرتے کہا۔
"غفور نے اگلے ہفتے تک آنا ہے واپس پھر اُس لحاظ سے فنکشن رکھ لیتے ہیں"انہوں نے اب زوبیہ بیگم کی جانب دیکھتے کہا۔
"دیکھ لیں جیسے آپ کو صحیح لگے"زوبیہ بیگم نے کہا۔گل اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج وہ پورے دو دن بعد یونیورسٹی آئی تھی۔وہ اپنے ہی دھیان میں آگے چل رہی تھی جب پیچھے سے کسی نے زور سے اُسے ہگ کیا۔
"گل بھلا ایسے بھی کوئی کرتا ہے؟دو دن سے نہ آتا نہ پتا؟اور اوپر سے تمہارا فون بھی بند جارہا تھا؟تم ٹھیک تو ہو؟اُس دِن بھی تم اپنی شال لیے بنا ہی چلی گئی تھی؟"میرہ نے سوالات کرنے شروع کر دیے۔
"ہاں میں ٹھیک ہوں۔سوری تم میری وجہ سے اتنی پریشان ہوتی رہی۔"گل نے معذرت کی۔
"اب جلدی سے بتاؤ کیا ہوا ہے؟یونیورسٹی بھی نہیں آئی تم؟"
"ابھی کلاس کا ٹائم ہورہاہے۔میں بعد میں تمہیں سب بتاتی ہوں"گل نے کہا۔
"اب سارا وقت میں اسی سوچ میں پڑی رہوں گی کہ کیا بات ہے"میرہ نے منہ بنایا۔گل مسکرا دی اور پیار سے اُس کا گال تھپکا۔
دونوں مسکرا دیں اور کلاس کی جانب بڑھ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت دونوں کیفے میں بیٹھی تھیں۔
"اب جلدی جلدی بتاؤ کیا سین ہے؟"میرہ نے بے چینی سے سوال کیا۔
"میری بات پکی کر دی ہے"اُس نے نیچے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
"کیا۔۔۔۔۔"میرہ خوشی سے چیخی تھی۔کیفےمیں بیٹھے سٹوڈنٹس ان کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔
"گل کیا تم سچ کہہ رہی ہو؟کون ہے لڑکا؟کیا کرتا ہے؟نام کیا ہے اُس کا؟اور کیسا دکھتا ہے؟اب جلدی جلدی بتاؤ مجھے سب"میرہ نے ایک ساتھ سارے سوال کر دیے۔
"ڈیڈ کے فرینڈ کا بیٹا ہے۔کیسا دکھتا ہے یہ تو نہیں معلوم۔نام راحم ہے شاید۔بس یہی پتہ ہے مجھے"گل نے اُس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
"کیا؟نہ تم نے اُسے دیکھا نہ ہی تمہیں معلوم ہے وہ کیسا دکھتا ہے کیا کرتا ہے اور نہ ہی تم اُسے جانتی ہو اور تم نے ہاں کر دی؟"میرہ نے حیرانگی سے سوال کیا۔
"ڈیڈ اور موم نے دیکھا ہوا ہے اور وہ خوش ہیں تو میں نے بھی ہاں کر دی۔ویسے بھی موم اور ڈیڈ نے دیکھ کر ہی چوز کیا ہوگا"
"گل میں بہت خوش ہوں۔تم یقین نہیں کر سکتی۔"میرہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔"اور ہیں میں بتا رہی ہوں تمہاری شادی پر میں نے دن فیکس ہونے پر ہی پہنچ جانا ہے"اُس نے اُسے مزید اطلاع دی۔
"ہاں ہاں! ضرور!"گل نے مسکراتے ہوئے کہا۔"خان لالا کا فون آرہا لگتا ہے آگئے ہیں۔میں چلتی ہوں"گل اپنا بیگ سنبھالتے کھڑی ہوئی۔میرہ نے زور سے اُس کو ہگ کیا۔گل آگے بڑھ گئی۔میرہ بھی چلتی مسی لوگوں کے پاس آگئی جو کھڑے کسی بات پر ہنس رہے تھے۔
"مسی مسی مسی! تمہیں پتہ ہے میں آج بہت خوش ہوں"میرہ نے مسیرا سے کہا۔
"خیریت؟آج اتنی خوشی کی وجہ؟"احان نے آنکھیں چھوٹی کیے اُس کی جانب دیکھتے سوال کیا۔
"اب بتاؤ بھی کیا بات ہے؟"مسی نے بھی کہا۔
"آپ کو پتہ ہے گل کی بات پکی ہوگئی ہے۔"اُس نے مسکراتے ہوئے بتایا۔زارون جو جوس پی رہا تھا وہ اُس کے منہ سے گرتے گرتے بچا۔
"جو ہمارے ساتھ گئی تھی وہی گل؟"مسی نے پوچھا جس پر میرہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
"واہ یہ تو بہت اچھی بات ہے!"مسی مسکرائی تھی۔
"او بھئی! تجھے کیا ہوگیا ہے؟آرام سے جوس بھی اپنا"زارون بے یقینی سی کیفیت میں کھڑا تھا جب احان نے اسے جھنجھوڑا۔
"نہیں تو م۔۔مجھے کیا ہونا ہے؟"زارون فوراً سے سمبھلا تھا۔
"لگ تو رہا ہے تیری شکل سے جیسے بڑا دکھ لگ گیا ہے؟"احان نے مزید کہا۔
"چل! مجھے بھلا کیا دکھ لگنا ہے؟میں گاڑی نکال رہا ہوں۔ہم گھر چل رہے ہیں"زارون کہے آگے بڑھ گیا۔جبکہ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ سب اچانک کیسے ہوسکتا ہے۔اور گل کیسے مان گئی شادی کے لیے؟ویسے وہ انکار بھی کیوں کرتی؟بھلا زارون نے کون سا کبھی اُسے اس بارے میں کچھ کہا تھا۔اور اُسے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ کیا وہ بھی اُس کے لیے ویسے ہی جذبات رکھتی ہے جیسے وہ رکھتا ہے؟
اُس نے فیصلہ کیا تھا کہ کل وہ ضرور اس سے اس بارے کی بات کرے گا۔تھی سوچ کر اُس نے گاڑی سٹارٹ کی۔باقی تینوں بھی آچکے تھے۔
گاڑی اب گھر کے راستے پر دوڑ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مراسمِ دل از:ماہی (مکمل)Where stories live. Discover now