باب-۲

24 2 2
                                    

چھت سے ٹیچرز نہ دیکھ لے اس لیے سب تھوڑی دوری پر الگ الگ جگہ سے دیکھنے لگے ایسا معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہاں پر کوئی ہے بھی۔ گیٹ کے قریب ہی ٹیبل رکھا گیا ابھی کھیل شروع ہونے میں وقت تھا۔
○○○
آج کا دن ہی کچھ برا تھا شاید اکرم اور اسکا دوست کل بھی کالج نہیں آۓ تھے۔ اور آج کافی حد تک دیر ہوگئی تھی اب تو اسے کالج کے دربان بھی پہچان چکے تھے۔ تمام باتوں سے لاعلم اور ٹیچرز سے ذلیل ہونے کا امکان اور دربان کی ڈانٹ سے بچنے کے لئے وہ خاموشی سے کالج کے پیچھے والی گیٹ سے آنے کی کوشش کرنے لگے۔ جب گیٹ میں کچھ ہلچل محسوس ہوئی تو تقریباً تمام لوگ خاموش ہوگۓ۔ پہلے واحد داخل ہوا پھر اکرم کو آواز لگائی آگے بڑھنے پر اسے ٹیبل سے ٹھوکر لگی سہی ہی تھا جلدی کا کام شیطان کا جو ہوتا ہے
واحد: بھائی بیگ دے پہلے اسے ہٹا
اکرم کو پہلے تو دشواری پیش آئ لیکن سر کے خوف نے بیدار کر دیا اسنے ٹیبل کو اکیلے اٹھا کر دوسری جانب رکھ دیا۔ ابھی جلدی کے قدم آگے نہیں بڑھے تھے کہ سامنے سارا کلاس شور مچانے لگا جانے انجانے میں وہ مفت کی واہ واہی بٹور گۓ۔ وہ لوگ خوشی سے تالیاں بجانے لگے۔ ان لوگوں کو دیکھ کر حیران تو دونوں ہوۓ پر پریشانی چہرہ سے واضح نہ ہونے دیا۔
واحد: بھائی یہ لوگ ہمارا مذاق تو نہیں اڑا رہے؟
اکرم: ابے چپ سے تالی بجا میری طرح۔
وہ دونوں تالی بجانے لگے باقیوں کی طرح الیشا ان کی طرف بڑھی
الیشا: ویل! یو آر د وینر۔ بٹ تم وہاں سے کیوں آۓ آئ مین راستہ تھا۔
واحد: ہم نے سوچا کہ کچھ الگ کرتے ہیں یو نو unique!
اکرم کو یہ تو سمجھ آگیا کہ کچھ تو بات چل رہی ہے
اکرم: تو کرنا کیا ہوگا
الیشا: کچھ نہیں بس آج میرے ساتھ پارٹی میں چلنا اور کیا
واحد نے دھیرے سے اکرم کو مخاطب کیا
واحد: بھئ آج کی پارٹی مالدار ہے یہاں سے تھوڑا دور جگہ ہے لیکن۔۔
ابھی ان کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ اس نے ٹوک دیا
الیشا: ویل! کیا پلان کیا ہے کیا پہن رہے ہو بات کر لے
اکرم: دیکھو میں نہیں جا سکتا میں بیزی ہوں
واحد: ویسے بھی بھائی کے پاس پہن نے کے لئے کچھ خاص نہیں ہے اور میں بھی بیزی ہوں۔۔ تم جاؤ کسی اور کو پوچھ لو شاید بات بن جائے
ان کے بیوقوفانہ بات نے سبھی کو ہنسا دیا اور الیشا کے غصے کو بڑھا دیا تھا۔
الیشا: تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی مجھے یہ سب کہنے کی
اکرم: خود تو پوچھ رہی ہو
الیشا: شٹ آپ! بھیکاری جیسے۔۔ جانتے بھی ہو کون ہوں میں اتنا ہی تھا تو ریس میں شریک کیوں ہوۓ
واحد: اے! بھیکاری کسے کہہ رہی ہو ہا، ہم لوگ اکثر اوقات یہی سے آتے جاتے ہیں تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہمارے جگہ پر تماشا لگانے کی۔
الیشا: تمہارے باپ کی جگہ نہیں ہے۔ ابھی پرنسپل کو بتاتی ہوں
اکرم: ہاں اپنی بھی تعریف کردینا کے تم کیا کر رہی تھی پورے کلاس کے ساتھ
رخسانہ: پاگل مت بنو ابھی چلو یہاں سے ورنہ ہم سب لوگ کام سے جائینگے
اس کی بات مان کر الیشا اس وقت تو روانہ ہوگئ لیکن غصہ ابھی بھی باقی تھا۔
○○○
ندا: جیسی کرنی ویسی بھرنی ( ہنسی اڑاتے ہوئے)
صالحہ: وہی تو! یہ کیسی شرط تھی۔
رابعہ: واحد نے تو اس کا منہ ہی بند کروا دیا تھا
سبھوں کی نظر آج واحد اوراکرم پرتھی اور اس بات سے باخبر دونوں کو ایسا لگتا تھا جیسے سب انکا مذاق اڑا رہے ہو۔
واحد: بھائی آج کی انسلٹ یاد رہے گی
اکرم: میں کہہ تو رہا تھا کہ جلدی کر جلدی کر پر نہیں تجھے تونیند ہی پوری کرنی تھی
وہ پیچھے سے آکر بولی
صالحہ: کوئی بات نہیں جانے دو بندہ اب پورے کلاس میں سوۓ اس سے بہتر ہے گھر میں سوۓ۔
اکرم: تم۔۔۔ تم تو دور ہی رہو
صالحہ: لیکن ہو کچھ بھی آج تم نے اس کے منہ پہ منع کر کے ماحول ہی بدل دیا تھا
اکرم: دیکھو مجھے یہاں تو سکون سے رہنے دو
صالحہ: ارے! بندہ تعریف کرے تو بدلے میں واہ واہی دی جاتی ہے تمہارے تو رویہ میں بھی غصہ ہے
اکرم: اپنے کام سے کام مطلب رکھو
وہ آگے بڑھ گیا اور صالحہ وہی اسے دور سے دیکھتی رہی
صالحہ: پتہ نہیں کیا ہی گھمنڈ ہے اس کو۔ گھر پر کسی نے ایسا نہیں کہا یار، اپنے ابو کی کتنی پیاری بچی ہوں میں
رابعہ: اکیلے کس سے باتیں کر رہی ہو
صالحہ: انسان آرام سے بھی کہ سکتا ہے کہ مصروف ہے دیکھنا اگر اس کی کوئی بیٹی ہوئ نا تو وہ بھی اسی الیشا کی طرح گھمنڈی ہوگی
رابعہ: اچھا کوئ نہیں کلاس میں چلو۔
◇◇◇
انسان کو اپنی زبان ہرحال میں سہی رکھنی چاہئے کہ پتہ نہیں کب کیسے کیا ہوجائے۔ 
کچھ ہی ماہ میں امتحان ہوۓ سب نے اپنی اچھی ہی کوشش کی۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد پرنسپل صاحب نے اعلان کروایا کے کالج سے گھومنے لیکر جایا جارہا ہے جسے بھی چلنا ہو وہ اپنا نام کل آکر لکھوا دے
رخسانہ: ارے یار سب چلےگے مزہ آۓ گا یار
الیشا: افکورس! بہت مزہ کرینگے
سبھی اپنی سیٹ پر بیٹھے پلان بنا رہے تھے
صالحہ: میں گھر پر کہہ دونگی کہ۔۔
رابعہ: میرے گھر والے نہیں جانے دیں گے پتہ ہے مجھے
صالحہ: ارے پوری بات تو سنو تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے ہمارے تو ابھی اجازت دے رہے ہو۔۔ بات کرنی پڑتی ہے سہی سے۔
ندا: او! تو کیا پلان ہے؟
صالحہ: زیادہ نہیں بس ہم سب کہیں گے کے ہم لوگ ہی والنٹیر بنے ہے اور سب گروپ میں ہے تو گھبرا نے کی بات نہیں ہے۔
◇◇◇
سب لوگ تو نہیں لیکن زیادہ ترلوگ موجود تھے وہاں۔ آج نکلنا تھا۔ پورے سفر سب نے الگ الگ چیزیں دیکھی۔ جب منزل پر پہنچے تو وہاں کا منظر اور موسم دونوں ایک جیسا تھا۔ جنگل سے تھوڑی دوری پر کسی گاؤں کے قریب ایک جگہ پر انہوں نے ٹینٹ لگایا۔ اپنے اپنے لگاۓ ہوۓ ٹینٹ کو سب لوگ سجا رہے تھے کچھ کھیلنا شروع کر چکے تھے۔
واحد: ارے بھائی اسی دن کے لیے تو اس کالج میں داخلہ لیا ہے
اکرم: مجھے تو یہ نہیں سمجھ آرہا کہ ہم بزنس اسٹڈی کر رہے ہیں تو یہ لوگ جنگل میں کیوں لےکر آئے ہیں۔۔
واحد: نہیں تو رہنے دے! تو نا اس جگہ کے قابل ہی نہیں ہے جا کسی کونے میں بیٹھ کر کتاب پڑھ
اکرم: ارے میرا مطلب تھا کہ کسی بڑے جگہ لے جاتے جیسے کسی دوسرے ملک، اتنا بڑا کالج ہے آخر یہ
صالحہ: تم نا کشمیر چلے جاؤ ایک آک بم پھٹنے پر تمہیں عقل آجائے گی
اسنے پیچھے سے آواز لگائی۔ اس کے ہاتھ میں کچھ کپڑے تھے
اکرم: میں تم سے نہیں بات کر رہا ہوں اور یہ کیا ہے ہاتھ میں؟
صالحہ: ٹینٹ کے کپڑے ہے
اکرم: تو ابھی تک پکڑا کیوں ہے لگاؤ
صالحہ: نہیں آج اسے کاٹ کرسبھی جانوروں کو پہنا دوں گی
اکرم: لگانا نہیں آیا یہ بولو
اسنے اور واحد نے مل کر انکا بھی ٹینٹ لگا دیا
اکرم: دوسروں کی زندگی میں جھانکنے کے علاوہ کالج میں کچھ پڑھ لیتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا
صالحہ: کم سے کم تمہاری طرح تو لیٹ نہیں آتی میں
رابعہ: اچھا کوئی نہیں اب دونوں بحث بند کرو
○○○
پرنسپل سیکرٹری: سب لوگ فریش ہوجاۓ اور تیار بھی کچھ ہی دیر میں ہم سب آگے جھرنا اور باقی جنگلات کےلۓ روانہ ہونگے اور اگلے دو گھنٹوں تک بنا روکے چلنا ہے۔
وارث: تو سر جھرنے میں نہا نہیں سکتے کیا
سر: کیوں تم نہا کر نہیں آۓ ہوکیا
سبھی نے قہقہہ لگایا
وارث: ارے نہیں مطلب تھوڑی دیر بس ایسے ہی۔۔
آدھے گھنٹے بعد سب لوگ روانہ ہوۓ۔ تھوڑی دوری پر کسی نے جھرنا قریب ہی تھا  دیکھا
"سر وہ دیکھیں وہاں جھرنا"
سر: ہاں تو ایک کام کرو کود جاؤ۔۔ بڑی جلدی ہے تم کو۔ وہی چل رہے ہیں رکو ذرا
سب لوگ اس کے قریب جمع ہوئے بہت ساری تصویریں لی سب اپنے اپنے میں مشغول تھے۔ کچھ لڑکے آپس میں باتیں کررہے تھے "بھائی یہ لڑکیاں درخت کو گلے لگا کر یوں تصویر لے رہی ہے جیسے انکا میاں ہو" "ارے کوئی ہمارے ساتھ بھی تصویر لے لو" کہی قہقہے کی آواز کہی باتوں کی گونج غرض کی ہر طرف شوروغل مچی تھی۔ آخر ایک لڑکا پانی میں گر ہی گیا۔
سر: تم لوگ کہی لےکر جانے لائق ہی نہیں ہو۔۔
کافی چلنے کے بعد وہ لوگ ایک جگہ ٹھہرے تھوڑا آرام فرمایا کچھ کھایا اور پھر آگے بڑھ دۓ۔ دن مکمل ہوا اور واپس سب ٹینٹ میں آۓ۔
○○○
وہ تینوں ایک ہی ٹینٹ میں تھی
صالحہ: چلو جو تھا اچھا تھا اب آگے چل کر یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ہم لوگوں نے مزہ کۓ کالج میں
ندا: ہاں ورنہ مجھے تو لگا سارا سال بس پڑھائی اور امتحان کی تیاری میں گزر جاۓ گا
رابعہ: ہاں اور دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے گھر والے شادی بھی کروا دیتے
ندا: مجھے تو جوب کرنی ہے تمہارا کیا خیال ہے کیا کروگی پڑھائی کے بعد
رابعہ: میرا تو رشتہ لگا ہوا ہے میرے کزن کے ساتھ ۔ امی مجھے پڑھائی ہی کرنے دے دے وہی بہت ہے
صالحہ: میں تو شادی کرونگی
"کیوں" "تمہارے گھر والے تو پڑھائی کے لئے رازی ہے" رابعہ اور ندا ایک بیک بولی
صالحہ: ہاں لیکن شادی کے بعد بھی تو پڑھائی کر سکتی ہوں۔ اور مجھے خود بھی نہیں پتہ کے کیوں کرنی ہے بس کرنی ہے شوق ہے۔
ندا: بھئ تم اور تمہارے خواب
صالحہ: اب تم دونوں بھی باہر نکلو مجھے کپڑے بدلنے ہے۔
اس وقت رات ہورہی تھی اور ہر کوئی سو چکا تھا۔ جو جاگے تھے وہ اپنے ٹینٹ میں آرام کر رہے تھے۔
الیشا: تمہیں کیا لگتا ہے کیا کرنا چاہیے
رخسانہ: وٹ یو مین(what you mean)

وہ تینوں بھی اس وقت اپنے ٹینٹ میں آرام کررہی تھی۔
الیشا: میرے فون کا کیمرہ اچھا ہے
رضوانہ: سو!
الیشا: بس آؤ اور دیکھو
شرارتے جب شرارت کے حد تک رہتی ہے تب اچھی لگتی ہے مگر وہ ایک بار حد سے بڑھ جاۓ تو شرارت نہیں رہتی۔ اُس رات الیشا نے بھی کچھ ایسا ہی کیا اسنے صالحہ کی ویڈیو بنائی جب وہ کپڑے بدل رہی تھی۔ ابھی یہ مصروف ہی تھی کے ندا اور رابعہ کی ان پر نظر پڑی۔ وہ اس کے پاس دوڑ کر گئ
رابعہ: یہ کیا کر رہی تھی
الیشا نے بڑے آرام سے کیمرہ بند کرتے ہوئے کہا
الیشا: نیوں فون ہے نا تو کیمرہ کیسے کام کرتا ہے دیکھ رہی تھی
ندا: تمہارا تو میں منہ ہی توڑ دونگی پھر بناتے رہنا ویڈیو۔
کچھ چھینا جھپٹی ہوئ ان کے درمیان لیکن الیشا اکیلی تھوڑی تھی اس کے ساتھ رخسانہ اور رضوانہ بھی تو تھی۔
الیشا: کم اون گرلز!
وہ تو چلی گئی انہوں نے صالحہ کو جاکر سارا واقعہ بتایا
ندا: تم روکو بس کالج میں تو اس کا وہ تماشا لگا دونگی کے وہ سوچ بھی نہیں سکتی
رابعہ: ابھی کچھ نہیں کر سکتے اس کے پاس اسکا پورا ویڈیو ہے کالج میں بات پھیل جائے گی
صالحہ خاموش تھی اسے تو ابھی یہ بھی کہنا مشکل تھا کہ صبح دیکھے گے۔ اس کی آنکھوں کے اشک شاید اسے ہی کوس رہے تھے۔ انسان اپنی غلطیوں سے ہی سبق حاصل کرتا ہے لیکن اگر غلطی کیا ہی نا ہو اور سبق ملے تو بنا غلطی والی سبق سے کیا حاصل کرنا چاہیے یہ کوئی نہیں بتاتا۔

وہ تینوں بھی اس وقت اپنے ٹینٹ میں آرام کررہی تھی۔
الیشا: میرے فون کا کیمرہ اچھا ہے
رضوانہ: سو!
الیشا: بس آؤ اور دیکھو
شرارتے جب شرارت کے حد تک رہتی ہے تب اچھی لگتی ہے مگر وہ ایک بار حد سے بڑھ جاۓ تو شرارت نہیں رہتی۔ اُس رات الیشا نے بھی کچھ ایسا ہ...

Oops! This image does not follow our content guidelines. To continue publishing, please remove it or upload a different image.
خواب گاہ Where stories live. Discover now