باب-۱۵

1 0 0
                                    

آج یہاں آۓ دو دن ہوگۓ تھے۔ کوئ کسی نتیجے پر نہیں پہنچا تھا سبھی کی آپس میں کیا بات چیت چل رہی تھی اسے کچھ بھی خبر نہیں تھا۔
وہ اس وقت سیڑھیوں پر بیٹھا وہاں سے دور کھیلتے ہوۓ بچوں کو دیکھ رہا تھا۔ جب وہ چودہ سال کا ہوا تو اس کے والد واپس اسے اپنے ساتھ شہر لے آۓ اور یہاں اس کی ملاقات واحد سے ہوئ۔ یہاں اس نے اور بھی شرارتے شروع کی، وہ اور واحد زیادہ تر کلاس بنک کرتے اور یہاں وہاں کبھی راستہ پر اور کبھی کہی' بس گھمتے اور ٹہلتے رہتے تھے۔ یہ اس کیلئے سنہرا دن تھا۔ کئ بار اسے جاوید بھائ نے، اس کی بڑی بہن نے اور کبھی تو واحد کے والد نے بھی ان دونوں کو بنک کرتے ہوۓ پکڑلیا تھا۔ ایک دفعہ تو ایسا ہوا کہ وہ دونوں کلاس سے بھاگ رہے تھے اور کسی دوسرے اساتذہ اور اسٹاف نے نہیں بلکہ خود پرنسپل صاحب نے پکڑلیا تھا۔ وہ بہت شرمناک شکست تھی ان کی۔ ان دنوں اس کے والدین بہت زیادو پریشان رہتے تھے اسکا سوچ کر، وہ اپنی ہر کوشش کررہے تھے کہ یا تو واحد سے اس کی دوستی ٹوٹ جاۓ یا پھر وہ خود ہی یہ سب کرنا چھوڑ دے۔ ایک دن ایسا بھی آیا کہ اکرم کے والد کو ان دونوں کی حرکتوں کی وجہ سے حد سے زائد غصہ آیا اور انہوں نے اسے واپس گاؤں لے جانے کا فیصلہ سُنا دیا۔
وہ اس وقت اسکول سے واپس گھر ہی آیا تھا کہ اسے اس بات کی خبر دی گئ۔ عثمان صاحب کے کہنے پر اس کی والدہ نے سامان بھی پیک کردیا اور اسے اسی رات وہ اپنے ساتھ دارجلنگ لے آۓ۔ اکرم کو لگا کہ اب اسے واپس کبھی شہر نہیں لےکر جایا جاۓگا۔ شروعات کے کئ دن وہ بس سب سے چھُپ کر روتا رہا، کبھی اپنے کمرے میں، کبھی انہیں سیڑھیوں پر اور کبھی گاؤں کے کسی کونے میں۔ اسکی ہائسکنڈری کی تعلیم بھی یہی مکمل ہوئ۔
ایک دن اچانک اس کے دادا کے فون پر ایک کال آیا اور اس کال نے اکرم کہ اس رونے والے دنوں کو دور کردیا۔ وہ واحد کا کال تھا جو کہ اس نے اپنی امی کے فون سے کیا تھا۔ اس نے بتایا کہ کس طرح اسکول چھوڑنے پر وہ اس سے ناراض تھا اور کتنی جدوجہد کے بعد اکرم کی بڑی بہن سے اسے یہ نمبر ملا اس کے والد نے تو سختی سے منع کردیا تھا۔
اب اکرم بھی خوش رہنے لگا تھا اور اسے پہلے سے زیادہ بہتر محسوس ہورہاتھا۔ ان دونوں کی ہفتہ میں بس ایک ہی دن بات ہوتی اور وہ بھی سنیچر کے روز۔ ہر سنیچر کو دوپہر کے وقت واحد کا کال آتا اور جب وہ نا کرتا تو اکرم خود ہی کرلیتا۔ گفتگو کا موضوع بس اپنا دن بتانا ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ اسے اس گاؤ کی ہر ایک چھوٹی بڑی بات بتاتا، جیسے کہ یہاں کی کہانیاں' مانا جاتا ہے کہ لیپچا لیجنڈ کے مطابق، آبشار لیپچا لوگوں کی جائے پیدائش ہے۔ اس آبشار کو وہ جگہ کہا جاتا ہے جہاں لیپچا کے آباؤاجداد زمین سے نکلے تھے۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ پہاڑیوں پر لیپچا دیوتا، سمینہ دیوی آباد ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ آبشاروں میں رہتی ہے اور آس پاس کے جنگلات کی حفاظت کرتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ ایک لیپچا شمن نے روحانی طاقت حاصل کرنے کے لیے آبشار کے قریب مراقبہ کیا تھا۔
جب وہ دونوں ان باتوں کا ذکر کرتے تو ان کا اتنا عجیب اور حیرت انگیز ردعمل ہوتا جیسے کسی بچے کو کسی نئ چیز دیکھ کر یا کسی نۓ جگہ جانے پر ہوتا ہے۔
جب انہیں علم ہوا کہ آبشار کے پیچھے ایک خزانہ چھپا ہوا تھا جس کی حفاظت روحیں کرتی رہی تھی اور بہت سے لوگوں نے اسے تلاش کرنے کی کوشش بھی کی لیکن کامیابی نہیں ملی، انہوں نے سوچا کہ ایک دن وہ دونوں جا کر یہ کہہ کر خزانہ لے جائیں گے کہ اکرم لیپچہ قبیلے کے لوگوں سے آیا ہے۔ یہ واضح طور پر کوئی معنی نہیں رکھتا تھا، لیکن وہ ہمیشہ اس بات کا خیالات رکھتے کہ اس جگہ کی کہانیوں میں ان کہ بڑے بزرگوں کی بھی کہانیاں شامل ىے۔ حالانکہ اس وقت دونوں کی ذہنیت ایک جیسی ہی تھی اگرچہ سمجھجاری بھی تھی تو بہت کم تھی۔
اسے اپنے وہی دن بہترین لگتے تھے۔ وہ کھانا لینے کیلئے اپنے کمرے سے نکلا تھا اور باہر کا ماحول اسے کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوا۔ ویسے تو جس دن سے آیا تھا وہ اپنا کھانا سبھی کے ساتھ کھا رہا تھا لیکن آج دوپہر کو بھی اس کے ساتھ ٹیبل پر کوئ نہیں بیٹھا تھا، سواۓ اس کے چھوٹے چچا، جاوید اور فیاض بھائ کے، اور ابھی رات کے وقت بھی کوئ نہیں آیا تھا۔ یہ اس کیلئے عجیب تو تھا لیکن حیران کن نہیں۔
صبح دس بجے اس کی نیند ٹوٹی۔ وہ ابھی سوکر ہی اُٹھا تھا اور نہایا بھی نہیں تھا لیکن سیاہ ٹروزر پر سفید ہوڈی اس پر اچھی لگ رہی تھی۔ منہ ہاتھ دھوکر سب سے پہلے کچن میں گیا' وہاں اس کی سب سے بڑی چاچی نے اسے دیکھ کر اپنی بھوئیں اوپر کرلی اور پھر یہی حال چھوٹی چاچی کا بھی تھا۔ باہر نکل کر دیکھا تو سبھی چچا اور پھوپھا کا یہی حال تھا یہاں تک کہ اس کے سبھی کزن بھی اسے تھوڑے دور سے ہی دیکھ رہے تھے لیکن ان کی نظریں کچھ اور ہی بیان کر رہی تھی۔ اس نے اپنا ناشتہ ٹیبل پر رکھا ہی تھا کہ اس کے والد نے اسے اس کے کمرے میں جانے کا کہا۔ اکرم کو حیرانی تھی لیکن وہ کربھی کیا سکتا تھا اس نے خاموشی سے اپنا پلیٹ اُٹھایا اور اپنے روم میں چلا گیا۔
اس کے تھوڑی دیر بعد ہی جاوید بھی اس کہ کمرے میں آگیا۔ جب اکرم اپنا ناشتہ ختم کرچُکا تو وہاں سے اُٹھ کر اسی دوسرے دروازے کی سیڑھیوں پر جاکر بیٹھ گیا۔
جاوید: تمہیں کچھ پوچھنا نہیں ہے؟
اس کے جاتے ہی پھر سے وہ اس کے پیچھے سیڑھیوں تک گیا
اکرم: ہا۔۔ کیا؟
وہ حیران تھا کیوں کہ آج تک میں یہ پہلا سوال تھا جو جاوید نے سامنے سے کیا تھا وہ بھی اکرم کے اپنے تسلیم کیلئے۔
جاوید: دراصل ایک بہت بڑا مسئلہ ہوگیا ہے۔۔
اس نے اسے ٹھہرنے کا کہا اور خود چاۓ لانے گیا۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکان تھی جیسے کہ وہ سب جانتا ہو
اکرم: ہاں اب بولو۔۔ کسی کے حصہ میں کوئی تبدیلی تو نہیں آئ یا کسی کو کچھ کم پڑگیا کیا۔۔
اس نے چاۓ کا ایک سیپ لگاتے ہوۓ کہا۔ ظاہر ہی تھا جائداد کے معاملات میں تو ایسی کی کیفیت ہوتی ہے۔ وہ کبھی اپنی چاۓ کہ طرف دیکھتا تو کبھی جاوید کہ طرف اور آخیر میں سامنے موجود نظر آنے والے نظارے کو جوکہ شاید اسے اپنی طرف رجوع کررہے تھے۔
جاوید: کسی کے حصہ میں-- بلکہ سبھی کہ حصہ میں
اکرم: کیا!
جاوید اب بھی سنجیدہ تھا لیکن وہ نہیں تھا اسے تو یہ سب محض ایک بناوٹی کہانی لگ رہی تھی جو سبھی ایک دوسرے کو صرف سُنانے کیلئے کہہ رہے تھے جیسے کہ اگر کوئ کہہ دے کہ اس کے حصہ میں کم حصہ آیا ہے تو دوسرے کا بھی اسے ہی مل جاۓ۔
جاوید: اکرم
اکرم: ہاں!
اس بار جاوید اسے پہلے سے زیادہ سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا
اکرم: سُن رہا ہوں بولو
جاوید: داداجی نے ساری جائداد۔۔ تمہارے نام کردی ہے۔
اکرم اپنے چاۓ کا ساتوا سیپ نا لےسکا اس کے ہاتھ جو چاۓ کے کپ کو اوپر اس کی منہ کی طرف لے جارہے تھے وہ اچانک رُک گۓ۔ اب وہ بھی جاوید کو اتنی ہی سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا جتنا کہ جاوید خود فرق صرف اتنا تھا کہ وہ حیران تھا جب کہ جاوید خاموش، اس کے چہرے پر کوئ حیرت نہیں تھی۔
اکرم: او۔۔ تو۔۔
اس نے بولنے کی کوشش کی تو تھی پر آواز حلق میں اٹک گئ تھی۔ اس کے پیٹ میں عجیب سا بھاری پن محسوس ہورہا تھا اور جلِد پورا برف جیسا ٹھنڈا حالانکہ وہ ہوڈی پہن کر تھا پھر بھی اسے ٹھنڈ لگ رہی تھی۔
جاوید: ان کا کہنا ہے کہ جب ان کے ساتھ کوئ نہیں تھا تو صرف تم تھے۔۔ ان کے ہر اچھے بُرے دنوں میں اور۔۔ تم نے ان کا خیال رکھنے میں کوئ کمی نہیں چھوڑی۔
اس نے اپنی نظر جاوید سے ہٹا کر سامنے نظرآنے والی گھاس اور جنگلات کی طرف کرلی۔ وہ ساکن تھا اب اس کے ہاتھ میں پکڑا ہوا چاۓ ٹھنڈا ہوگیا تھا جس میں ابھی بھی چاۓ موجود تھی۔
جاوید: خیر ابا نے آج ہی واپس جانے کا کہا ہے۔۔
اکرم: اوکے۔
اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور پھر واپس اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گیا۔ اسے جھٹکا تو لگا تھا پر خاصی فرق نہیں پڑا تھا۔
◇◇◇
وہ اپنے بستر پر کہنیوں کے بل اوندھی لیٹی ہوئ تھی۔ اس وقت رات ہورہی تھی۔ اس کی نظریں ہاتھ کے سامنے رکھے لیپ ٹاپ پر جمی تھی جس کی روشنی سے اس کے چہرے پر آنے والی مسکان کا پتہ چل رہا تھا۔ وہ اس وقت اپنے کمرے میں تھی، تمام لائٹس آف تھی صرف سنہری ٹیونی لائٹس ہی جل رہی تھی جس سے کمرہ خوبصورت نظر آرہا تھا۔ وہ بس لیپ ٹاپ میں اسی طرح دیکھتی اور مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر یک بیک آجاتا۔ کبھی ہنستی کبھی سست سا منہ بنا لیتی اور کبھی رونے جیسی شکل تو کبھی اچانک دیکھتے ہوۓ بولنا شروع کردیتی۔ کبھی کسی کیریکٹر کی آواز نکالتی تو کبھی کسی کی بُرائ کرتی، کبھی تعریف تو کبھی بس ایسے ہی ان کی اداکاری کرتی۔ اس کے علاوہ وہ ندا کو فون کرکے تمام ڈرامے کی کہانی بیان کرتی اور ساتھ میں اپنا مشورہ بھی دیتی اور اُس کا خیال بھی سُنتی۔ ساتھ ہی کئ کیریکٹرس کی چغلیاں بھی کرتی اور پھر اپنے خیالوں کا اظہار کرتی۔
صالحہ کو بھوک لگی تو وہ اپنے کمرے سے نکلی۔ نکلتے وقت سامنے رکھے آئینہ میں اس نے اپنے آپ کو دیکھا اور ہنستی ہوئ کچن کی طرف گئ۔ داخل ہونے سے قبل اس نے لائٹ جلائ۔ فریج کو کھول کر پہلے کچھ تلاش کیا جس میں آج کی بقیہ بھنڈی کی سبزی اور کل کے بچے ہوۓ سالن تھے۔ وہی دوسری جانب دہی، دودھ کا ڈبہ اور کچھ پانی کی بوتلیں تھی۔ ایک پلیٹ یوں ہی رکھا ہوا تھا جس میں تین دنوں سے کباب رکھا تھا اور کسی کو بھی گزشتہ دنوں میں اسے کھانے کا دل نہیں کیا۔ پھل موجود تھے پر پتہ نہیں کب سے۔
صالحہ: عبدل کا بچہ!
اس وقت فریج میں وہ کباب والی پلیٹ خالی تھی۔ بقیہ کھانے کی چیزیں یوں ہی تھی لیکن وہ کباب غائب تھا۔ اس نے فریج سے ایک پانی کی بوتل نکالی اور اسے بند کرتے ہوۓ واپس اپنے کمرے میں آگئی۔
آتے ہی سب سے پہلے اس نے اپنے دروازے کو بند کیا اور واپس لیپ ٹاپ کی طرف منہ کرکے بیٹھ گئ۔
صالحہ: ارے واہ۔۔ یار۔۔ یہ کتنا اچھا لگ رہا ہے۔
اس نے مسکراتے ہوئے اپنے گود میں رکھے تکیہ کو گلے سے لگا لیا۔ جب بھی وہ کسی ڈرامہ میں کوئ ایسی رومانٹک سین دیکھتی جس میں کوئ لڑکا کسی لڑکی کو پروپوز کر رہا ہے یا پھر اسے غور سے دیکھ رہا ہے اور مسکرا رہا ہے تو اسے بےحد خوشی محسوس ہوتی۔ کچھ ہی لمحہ میں وہ واپس اسی طرح کہنی کے بل اوندھی لیٹ گئ جیسے تھوڑی دیر پہلے تھی۔
◇◇◇
گھر سے نکلتے وقت بھی سبھوں کا ردعمل ویسا ہی تھا جیسا کہ کل۔
اکرم کو اس بات سے بھی کچھ فرق نہیں پڑا تھا۔ اپنا سامان لۓ اور بغیر کسی کو بھی سلام کۓ اس نے اپنے دادا کے کمرے کا رُخ کیا۔
بستر پر سفید چادر تھی جس پر اس کے دادا بغیر کسی کمبل کے یوں ہی لیٹے ہوۓ تھے۔ اکرم نے آکر سب سے پہلے انہیں ایک گلابی رنگ کی کمبل اوڑھائی، جوکہ کافی دنوں پُرانا دکھتا تھا۔
اکرم: ابھی آپ کیسے ہیں؟ کسی نے کچھ کہا تو نہیں آپ کو کچھ؟
وہ انہی کے بغل میں بیٹھتے ہوۓ کہہ رہا تھا۔ اس کے دادا نے ہاتھ کی ہتھیلی کہ اشارے سے نا میں جواب دیا۔ وہ ان سے یہاں وہاں کہ پرانے گزرے ہوۓ موضوع پر بات کررہا تھا اور وہ اسے اشاروں میں جواب دیں رہے تھے۔
کچھ رسمی سلوک کے بعد اس نے اجازت لی اور واپس باہر کی طرف چلا گیا۔ باہر اس کا پورا خاندان اسے علیحدہ علیحدہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے والد نے اس کے بڑے بھائ کو اشارہ کیا، اس نے اکرم کا کندھا پکڑا اور سبھوں کو سلام کرتا ہوا اسے لیں کر گاڑی کی طرف بڑھنے لگا۔ یہ اس کے لۓ نہایت افسوس کی بات تھی کہ سبھوں کی نظریں اسے انہیں سلام کرنے سے بھی روک رہی تھی۔ اکرم نے ایسا ہی کیا۔ وہ دوبارہ بغیر کسی کو سلام کۓ بس گاڑی میں بیٹھ گیا تھا۔ اس کے بعد اسی گاڑی میں اس کہ دونوں بھائ اور بھابھی بیٹھے، اکرم آگے کی پہلی سیٹ پر تھا اور پیچھے وہ تینوں۔ دوسری گاڑی میں اس کے والدین اور بہنیں تھی۔
پورا سفر خاموشی سے طے ہوا البتہ اسٹیشن اور ٹرین کے سفر کا بھی یہی حال تھا۔ اسے بہتر پتہ تھا کہ اس کے دادا کی زندگی اب چند دنوں کی ہیں اور یہ اس کے یہاں آنے کی آخری باری تھی۔ اس کے بعد نا تو اسے یہاں کوئ بولانے والا تھا اور نا ہی یہاں اب آنے کی کوئ وجہ تھی اس کے پاس۔ خاندان والوں کی نظروں میں اب وہ ایسے بھی گِر چُکا تھا۔ سبھی کہ لہجہ اور نظروں نے اسے اس بات کی گواہی دے دی تھی کہ اب وہاں اس کی نا تو کوئ ضرورت ہے اور نا ہی کوئ جگہ۔

ٹرین ایک گھنٹے بعد روکا تھا کوئ اسٹیشن آیا تھا، کون سا۔۔ اسے خود بھی خیال نہیں تھا۔
وہ کھڑکی کی طرف منہ گھُماۓ وہاں سے دِکھنے والی ہر چیز کو دیکھ تو رہا تھا پر اس کے ذہن میں کچھ بھی داخل نہیں ہورہا تھا۔ اسے اتنی بہتری سے لوگ کیسے سمجھ آنے لگے تھے، وہ اس بات پر غمگین تھا۔ اسے اس بات کی امید نہیں تھی آخر اس کے دادا نے اتنی بڑی جائداد صرف اس کے نام کیوں کردی۔ آج اسے اپنے والد کے اس تماچے کا خیال آیا جو اسے کچھ دن پہلے مارا گیا تھا۔ اسے ایسا احساس ہوا کہ اس کے پورے خاندان نے آج اسے نظروں اور اہنے لہجہ سے تماچہ مارا ہو۔
اچانک اس کے کندھے پر کسی کی پکڑ کا اسے احساس ہوا۔ سر اٹھایا تو اس کے سامنے جاوید کھڑا تھا۔
جاوید: کب سے کہہ رہا ہوں کہاں دھیان ہے تمہارا۔۔۔
اس بار گاڑی آدھے گھنٹے بعد روکی تھی اور وہ اس سے کچھ کھانے کا پوچھ رہا تھا۔ اسے اپنے آس پاس دیکھنے پر معلوم ہوا کہ اس کے والد بھی باہر نکل رہے تھے۔
اکرم: نہیں آپ سب کھاؤ۔۔ میرا دل بھی نہیں ہے باہر جانے کا۔
آج تک اس کا جتنا بھی ایسا سفر گزرا تھا ان سب میں یہ پہلا ایسا سفر تھا جس میں وہ ٹرین سے باہر جانے پر منع کر رہا تھا۔
جاوید اور اس کے والد باہر بھی گۓ اور واپس بھی آگۓ جب کہ وہ اسی طرح خالی ذہن کے ساتھ بیٹھا رہا۔

ٹرین ایک گھنٹے بعد روکا تھا کوئ اسٹیشن آیا تھا، کون سا۔۔ اسے خود بھی خیال نہیں تھا۔ وہ کھڑکی کی طرف منہ گھُماۓ وہاں سے دِکھنے والی ہر چیز کو دیکھ تو رہا تھا پر اس کے ذہن میں کچھ بھی داخل نہیں ہورہا تھا۔ اسے اتنی بہتری سے لوگ کیسے سمجھ آنے لگے تھے،...

Oops! This image does not follow our content guidelines. To continue publishing, please remove it or upload a different image.
You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: 2 days ago ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

خواب گاہ Where stories live. Discover now