باب-۷

15 2 3
                                    

◇◇◇
اکرم: یار وہ میرے بارے میں بہت برا بھلا سوچ رہی ہوگی نا
واحد: ہاں بھئی!
بستر پر لیٹے ہوۓ دونوں ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے۔ اکرم چھت کی طرف دیکھ رہا تھا اور مسلسل بولتا ہی جارہا تھا جبکہ واحد محض اپنے آنکھوں پر ہاتھ رکھے سونے کی ناممکن کوشش کررہا تھا۔
اکرم: لیکن میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔۔ وہ تو بس۔۔
واحد: ہاں بھئی ہاں
اکرم: معافی مانگ چکا ہوں پھر بھی۔۔
واحد: ہاں بھئی ہاں ہاں
اکرم: بندہ کم سے کم تھپڑ کے بعد بات تو سن لیتا ہے
واحد: سہی ہے بھائی ہاں
واحد کا لہجہ ہر الفاظ میں سست تھا اور اس نے اپنے ہاتھوں کو آنکھ سے ہٹا کر پیٹ پر رکھ لیا تھا۔ اسے اب سمجھ آگیا تھا کہ آج اسے نیند نصیب نہیں ہونے والی تھی۔
اکرم: ارے تو بولنا کیا کروں میں۔۔ بول کچھ
واحد: مجرا کر اس کے سامنے
وہ اب اکرم کی باتوں سے جھجھک کر چی خا
واحد: سب شروع ہونے سے پہلے ختم کر کے آگیا اب کہہ رہا ہے کیا کروں۔ کیا ضرورت تھی ہاتھ پکڑنے کی۔۔
اکرم: ارے وہ تو وہ راضب کا بچہ۔۔۔
واحد: کبھی سینئر کبھی جونیئر کب تک اس طرح دور سے دیکھتا رہے گا
اکرم اب پہلے سے زیادہ افسوس زدہ تھا اور واحد پہلے سے زیادہ غصہ
واحد: صبح سے دماغ کھایا ہوا ہے۔۔
اکرم: کھایا تو میں نے ہے وہ بھی زور کا تھپڑ۔۔
واحد: اپنی حرکت کی وجہ سے
اکرم: ہاں ٹھیک ہے سوری بول چکا ہوں۔۔ اب بتا آگے کیا کروں؟
واحد: ابھی تو کچھ کر نہیں سکتے ہے بس معافی ہی مانگ وہی مل جاۓ بڑی بات ہوگی۔
اس نے اکرم سے تنگ آکر کروٹ بدل لی تھی۔
وہ دونوں ایک ساتھ ہی رہتے تھے ہاسٹل میں۔ اکرم اپنے گھر کی وجہ سے رہتا تھا اسے وہاں کا ماحول سہی نہیں لگتا تھا کبھی کبھار جب گھر والے فون کر کے بولتے تو ملنے کیلئے گھرجاتا اور واپس آجاتا۔
◇◇◇
انسان پریشان اپنے حالات کی وجہ سے ہوتا ہے یا اپنے آپ کی وجہ سے یہ بتانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کیونکہ یہ سوال ہی غلط ہے اصل بات تو یہ ہے کہ انسان پریشان اپنے دماغ کی وجہ سے ہوتا ہے۔
وہ ہر اس چیز کو چاہتا ہے جو اس سے دور جانا چاہتی ہے۔

اس وقت وہ اپنی کتاب میں دیکھ رہی تھی جب اکرم اس کے بعد والی بینچ پر جا بیٹھا۔ آج کلاس میں سر کے آنے سے پہلے ہی سکون بنا ہوا تھا۔
“گائز اب تم لوگ سینئر ہوگۓ ہو یار اپنے جونیئرس کا خیال رکھا کرو" معروف سر کی آواز پر سبھی کھڑے ہوگۓ تھے وہ اندر کی طرف داخل ہوتے ہوۓ وہاں بیٹھے تمام طلباء سے کہہ رہے تھے۔ ظاہری بات تھی، یہ جملہ انہوں نے اکرم کی وجہ سے کہا تھا لیکن گزرے ہوۓ موضوع کا انہیں واضح طور پر اندازہ نہیں تھا۔
پڑھائ کے دوران سبھوں کا ذہن صرف اپنے سامنے سے آنے والی آواز پر تھا۔ معروف سر کی آواز پورے کلاس میں گونج رہی تھی۔
◇◇◇
ندا: کیا ہوگیا ہے یار آج کل تمہیں؟ بات ہی نہیں کر رہی ہو؟
لائبریری میں بیٹھے وہ دونوں اپنے اپنے ہاتھوں میں کتاب لۓ بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے پر جھلکنے والی پریشانی کو ندا نے اچھی طرح بھانپ لیا تھا۔
رابعہ: یار وہ ایک بڑا عجیب سا مسئلہ ہوگیا ہے۔
وہ کچھ پریشان نظر آرہی تھی۔ دونوں آہستگی سے باتیں کر رہی تھی۔
ندا: آرام سے بتا کیا مسئلہ ہے۔
اس نے اپنی کتاب بند کی اور نظریں رابعہ کی طرف کرلی۔
رابعہ: یار میں کسی لڑکے سے بات کر رہی تھی اتنے دنوں سے۔۔ لیکن تمہیں تو پتا ہے نا میرے رشتہ کا
ندا: ہم۔۔ پھر
رابعہ: یار اب وہ الگ الگ نمبر سے مسج کرکے ملاقات کا کہہ رہا ہے۔ لیکن مجھے بات نہیں کرنی ہے اس سے۔
اس کی آنکھوں میں نمی کے ساتھ پچھتاوا بھی تھا۔
ندا: تو تم کہو اور بلاک کردو
رابعہ: سب کر کے دیکھ لیا ابھی بھی مسج آرہے ہے۔۔

وہ اسکرین اسکی طرف کرکے فون میں کچھ دکھا رہی تھی
ندا: رک۔۔ نام کیا ہے اسکا؟
رابعہ: واحد نام ہے ہمارے ہی کالج کا ہے۔۔
ندا کا تو جیسے خون ہی ابلنے لگا تھا۔ غصہ تو جیسے اسکی ناک پر ہمیشہ رہتا تھا۔ وہ رابعہ کو سمجھا کر اسے کلاس کو جانے کا کہہ رہی تھی۔
ند: ویسے تم چلی جاؤ مجھے لائبریری میں کچھ کام ہے۔
رابعہ: اوکے!


وہ چلتی ہوئی سیدھا واحد کے پاس گئ جو اس وقت اپنے فون میں گیم کھیل رہا تھا۔ آج اکرم نہیں آیا تھا اور وہ کلاس بنک کر رہا تھا۔ وہ اس کا ہاتھ کھینچتے ہوۓ کالج کے پیچھے والی گیٹ کی پاس لےکر آئ۔
واحد: آئ۔۔ کیا کر رہی ہو میں ویسا لڑکا نہیں ہوں۔
اس کے چہرے پر مسکان ابھر رہی تھی پر ندا کی آنکھوں کا غصہ دیکھ کر وہ کنٹرول کررہا تھا۔
ندا: یہ کیا حرکت ہے
واحد: ایک تو چوری اوپر سے سینا زوری۔۔ ہاتھ پکڑ کر تم لائ ہو اور کہہ رہی ہو میں کیا کر رہا ہوں
ندا: میں اسکی بات نہیں کر رہی
وہ کچھ چونکا۔
ندا: تم جو میری دوست کو مسج کر کر کے پریشان کر رہے ہو اسکی بات کر رہی ہوں۔
وہ اب اور بھی زیادہ حیران تھا۔
واحد: کیا! کھا پی کر اور کوئ کام نہیں ہے کیا میرے پاس تمہاری دوست کو کیوں کرنے لگا میں مسج۔۔ کوئ غلط فہمی ہوئ ہوگی تمہیں
ندا: کوئ غلط فہمی نہیں ہے۔۔ اپنا فون دیکھا
واحد: ارے یہ تو ضبردستی ہے
ندا: ابھی فون چیک کرواؤ ورنہ اچھا نہیں ہوگا
واحد نے اپنا فون اٹھایا اور سارے مسیجس دکھاۓ۔ اسے پھر بھی سکون نہیں آیا تو اسنے اسکا پورا فون خود چیک کیا۔
واحد: اب خوش ہوگیا صبر۔ دیکھوں کہنا تو نہیں چاہتا میں لیکن تم مجھ پر شک کر بھی کیسے سکتی ہو
ندا: نہیں وہ۔۔ دراصل میری دوست کو کوئ واحد نام کا لڑکا بار بار مسج کر کے پریشان کررہا ہے اور اب تو حد ہوگئی ہے اسے ملنے کا کہہ رہا ہے۔
اب اسکی باتوں میں پچھتاوا تھا۔
ندا: اسی کالج کا ہے مجھے بس لگا کہ تم ہو اور۔۔
واحد: لگا۔۔ تمہیں لگ کیسے گیا یار۔۔
وہ اب سنجیدہ ہوگیا تھا۔ ندا کو بھی اپنے حرکت کا احساس تھا۔
واحد: اچھا چھوڑوں تم مجھے نمبر دو اس کا میں ٹریس کر لوں گا۔

اس نے کچھ دیر میں ہی اسے وہ نمبر لاکر دے دیا۔ وہ اسے بڑے احتیاط سے ٹریس کرنے لگا۔
واحد: نمبر کی لوکیشن تو یہی کی ہے پر بایوڈیٹا کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ لائبریری کی لوکیشن ہے۔۔
وہ دنوں ہی اب حیران تھے۔ اپنی اپنی چیزیں اٹھاۓ وہ لائبریری آۓ ندا نے رابعہ کو بھی بولا لیا۔
واحد: یہاں تو بہت سارے لڑکے ہے ان میں سے کون ہے۔۔
ندا: رابعہ اسے مسج کرکے باہر بولا کہہ ملنا ہے
رابعہ: ابھی!!
ندا: نہیں تو کل۔۔ کہہ اسے تو اسکا انتظار کر رہی ہے لائبریری کے باہر
اسنے ویسا ہی کیا وہ تینوں اب لائبریری کے باہر کھڑے اندر کے لوگوں کو سائڈ سے جھانک رہے تھے۔ کوئ باہر آتا اور سیدھا کالج سے باہر چلا جاتا کوئ اندر سے ہی نظریں اٹھا کر دیکھتا اور واپس اپنی کتابوں میں گھس جاتا۔
ندا: اسنے مسج دیکھا؟
رابعہ: سین تو اسی وقت کرلیا ہے اب پتہ نہیں ریپلاۓ کب کریگا۔
واحد: اگر نہیں آیا تو!
○○○
وہ تینوں اس وقت واحد کے بائک کے قریب کھڑے تھے۔ بائک پر ٹیک لگاۓ وہ ندا سے باتیں کر رہا تھا۔
ندا: آئ ایم سوری
واحد: اگین!
ندا: یار میں بس پریشان ہوگئ تھی رابعہ کو لےکر وہ رونے ہی والی تھی بس۔۔ میرے پاس آپشن بھی تو نہیں تھا۔
واحد: تم سب کو لےکر خود کو کیوں پریشان کرتی ہو
ندا: کیا مطلب
وہ حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی جبکہ وہ اسے مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔ ندا کی آنکھوں کی کش مکش ہی الگ لگ رہی تھی جو واحد کو بار بار اسکی طرف دیکھنے پر مجبور کررہی تھی۔ وہ اپنی ساری دنیاوی باتیں اور خیالات بتاتی اور واحد بس خاموشی سے سنتا۔

" ندا۔۔"
رابعہ کالج کہ گیٹ کے پاس سے بھاگتی ہوئ آئ۔
رابعہ: آگیا ہے۔۔ آگیا ہے
ندا: کہاں ہے؟
رابعہ: وہ رہا۔
واحد اور ندا کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ جہاں وہ اتنی دیر سے کھڑے باتیں کر رہے تھے اسی سے ٹھیک سیدھا کالج کے گیٹ پر جو لڑکا کھڑا تھا وہ رابعہ کو پریشان کر رہا تھا۔ دبلا پتلا سا، گھنگریلے بال، آنکھوں میں بڑی سی عینک، کارگو پینٹ اور سرخ رنگ کے ہوڈی میں ملبوس شخص جسکے ٹین ایج ابھی سہی سے ختم ہی ہوۓ تھے۔ نا داڑھی نا مرد جیسا طاقتور جسم بس ایک چھوٹا اور ہلکا سا بیگ کندھے پر لٹکاۓ اپنے فون میں مصروف تھا۔ رابعہ خاموشی سے اس کی طرف بڑھی
رابعہ: تم۔۔ تم واحد
وہ ہچکچا رہی تھی "رابعہ"، اس کی آواز بھی خاصی بھاری نہیں تھی۔
رابعہ: بتاؤ یہ تماشا کیوں کر رہے تھے؟
وہ اپنے غضہ کو قابو میں کرتے ہوۓ اس سے باتیں کررہی تھی۔
لڑکا: ارے یار وہ تو بس ایسے ہی دل کر رہا تھا۔
رابعہ: دل کر رہا تھا۔۔ میں پریشان ہو رہی تھی اور تمہیں ہنسی آرہی تھی
وہ حیران تھی کہ کوئی اتنی احمقانہ باتیں کیسے کر سکتا ہے۔
لڑکا: ریلیکس رابعہ۔ تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے میں نے کچھ کردیا ہو
رابعہ: اچھا ٹھیک ہے پہلے تھوڑا سائڈ ہو جاتے ہے

وہ اسے ایک خالی کلاس روم میں لےکر آئ تھی۔ پورے راستہ وہ اسے بس سمجھاتا رہا کہ اسے کتنا مزہ آیا ایسا کر کے اور اسے تو اندازہ بھی نہیں تھا کہ رابعہ اتنی جلدی رازی ہوجائے گی ملاقات کیلئے۔

لڑکا: ویسے اس کلاس میں ہم کرینگے کیا رابعہ۔۔ آئ مین اتنی جلدی یہ سب میں نے نہیں سوچا تھا۔
اس لڑکے کہ چہرے پر مسکان ابھر رہی تھی کہ تبھی کسی نے دروازہ پر دخل کی۔
ندا: سوچا تو ہم نے بھی کچھ نہیں تھا پر اب کرنا تو پڑےگا
لڑکا: او گوڈ! تم اپنی فرنڈ کے ساتھ۔۔ ویسے یہ بات میں کسی سے نہیں کہوں گا کہ تم میں اور تمہاری فرنڈ۔۔

واحد: کہنے کے تو تو لائق بھی نہیں بچےگا۔
ندا کہ پیچھے سے اندر داخل ہوتے ہوۓ اس نے دروازہ بند کیا۔
لڑکا: تم کون ہو؟
واحد: تیرا باپ سالے!
واحد اسکی طرف کسی بھوکے اور خونخوار جانور کی طرح لپکا پہلے تو تین چار مکہ اسکے منہ پہ دے مارا جس سے اسکی عینک گری اور پھر کالر پکڑ کر اسے دھمکیاں اور گالیاں دینے لگا۔
واحد: اب بول سالے ہے کون تو؟
لڑکا: میرا نام جمال ہے اور میں جونیئر ہوں نیو ایڈمیشن ہے میرا
واحد: تو نیو ایڈمیشن ہے تو لڑکیوں کو تنگ کریگا
لڑکا: تم لوگ کون ہو
وہ حیرانی سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ واحد نے ابھی بھی اسکی کالر پر اپنی جکڑ کو بناۓ رکھا تھا۔
ندا: ہم سینئر ہے تمہارے
رابعہ: اور میرا نمبر کہاں سے ملا تمہیں؟
اس نے دور سے ہی کھڑے اس سے سوال کیا۔
لڑکا: آفس میں جب گیا تھا تو ریجسٹر کھلا تھا۔ نام اچھا لگا آپ کا، تو سوچا نمبر لے لوں بات کرنے کیلئے
ندا: ہوگئ نا بات اب عائندہ مسج کیا تو۔۔
لڑکا: نہیں کرونگا۔۔ خیال رہےگا مجھے
واحد: اور اس طرح سے کسی اور بھی پریشان مت کرنا ورنہ۔۔
لڑکا: ورنہ سمجھ گیا بھائ۔۔ آپ جانے دیں مجھے بس۔
وہ ضرورت سے تھوڑا زیادہ ڈر گیا تھا۔ واحد نے اپنا غصہ قابو میں کیا اور اسکا کالر چھوڑا۔ کالر چھوٹتے ہی اسنے سب سے پہلے اپنی عینک اٹھائ جوکہ کافی حد تک ٹوٹ گئ تھی پھر بیگ لیا اور دوڑتے ہوۓ دروازہ کی طرف بھاگا جو بند تھا۔
واحد: چہرہ صاف کر۔۔
لڑکا: جی۔۔
وہ دروازہ کھول کر واپس ان کی طرف مڑا
لڑکا: لیکن آپ کون ہے؟
اسے ابھی بھی کچھ شک سا ہو رہا تھا
واحد: میں واحد ہوں۔۔ اور عائندہ اس نام سے آئڈی بنایا تو تیرا نام ہی مٹا دوں گا۔
وہ واحد کی اس دھمکی پر اور زیادہ خوفزدہ ہوگیا تھا اور جی جی کرتا ہوا روم سے نکل گیا۔ ڈرتا بھی کیسے نہیں واحد کے ہاتھ کہ مُکّے اور گھوسہ جو کھالۓ تھے اس نے۔ اس کے جانے کے بعد وہ تینوں بھی نکل گۓ تھے۔

◇◇◇
اکرم: یار وہ میرے بارے میں بہت برا بھلا سوچ رہی ہوگی نا
واحد: ہاں بھئی!
بستر پر لیٹے ہوۓ دونوں ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے۔ اکرم چھت کی طرف دیکھ رہا تھا اور مسلسل بولتا ہی جارہا تھا جبکہ واحد محض اپنے آنکھوں پر ہاتھ رکھے سونے کی ناممکن کوشش ک...

¡Ay! Esta imagen no sigue nuestras pautas de contenido. Para continuar la publicación, intente quitarla o subir otra.
خواب گاہ Donde viven las historias. Descúbrelo ahora