باب-۶

12 2 1
                                    

اکرم کے والد بہت زیادہ نامی شخص تو نہیں تھے لیکن اچھے کاروبار کی وجہ سے ایک خوبصورت گھر تھا اور بس وہی انکی ساری زندگی کی کمائی تھی۔ آج اگر وہ گھر زیادہ حسین تھا تو اکرم کے بڑے بھائی جاوید کی وجہ سے جس نے کاروبار میں آنے کے بعد اپنے والد کا نام روشن کیا ہوا تھا۔ ان کے گھر میں عورتوں کی عزت تو تھی لیکن سوچ ذرا چھوٹی تھی۔
اس کے والد کا ماننا تھا کہ عورتوں کا گھر میں رہنا اور صرف گھر کے کام کاج پر دھیان دینا ہی ان کا فرض ہے۔ حالانکہ ایسی کوئ بھی تکلیف نہیں دی تھی۔ اس کے بھائ کا بھی یہی کلام تھا جو اسکے والد کا تھا، لیکن اکرم کی سوچ تھوڑی زیادہ علیحدہ تھی جسکی وجہ سے اکثر اوقات وہ اپنے والد سے مار ہی کھاتا رہتا تھا۔ یہ سلسلہ اس کے بچپن سے ہی شروع ہوا جب اس کے بڑے چچا نے مذاق مذاق میں ان کی دوسری بھابھی، یعنی اکرم کی چاچی کا دوپٹہ سر سے کھینچ دیا تھا۔ اس وقت اکرم بس چھ سال کا ہی تھا۔ یہ منظر چھت کی سیڑھیوں پر ہو رہا تھا اور اکرم اپنی چاچی کے ساتھ کھڑا تھا۔ چھت کی سیڑھی کے شروعات میں اس کے چچا کھڑے تھے۔ اکرم نے یہ واقعہ دیکھتے ہی اپنے چچا کو ایک دھکہ سے پیچھے کرنے کی کوشش کی چونکہ وہ بہت کنارہ پر کھڑے تھے اس لیے پاؤں نے بھی انکا ساتھ نہ دیا اور وہ پھسل کر چھت کی سیڑھیوں سے گر پڑے۔ چاچی کے تو ہوش حواس ہی اڑ گۓ تھے۔
اکرم کے والد چار بھائ تھے اور تین بہن جن میں سے وہ بھائیوں میں تیسرے نمبر پر آتے تھے اور وہ چچا دوسرے نمبر پر جو اپنی سب سے بڑی بھابھی کے ساتھ مذاق کر رہے تھے۔
اکرم بچہ تھا اور اس کی گواہی ہاں نا کے برابر تھی۔ اس کی چاچی نے تو ساتھ نہیں دی بلکہ اور چاچا جی جھوٹ پر جھوٹ بولتے رہے کہ اکرم شرارتی ہے اور اس نے جانتے بھر میں دھکّہ دیا تھا۔ اس کے والد نے اس دن اسے بہت مارا تھا۔ اسی واقعہ کے بعد سے اکرم ہر چھوٹی چھوٹی بات پر اپنے والد سے مار کھاتا تھا۔ اس کی والدہ کی بھی ایک نہیں چلتی اور بڑا بھائی بھی کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔
جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا گیا اس کا غصہ اس جاہلیت کو دیکھ کر بڑھتا گیا۔ یہ چیزیں اس کے خاندان میں نا تو کسی کہ ساتھ ہوئ تھی اور نا ہی ہوتی کیوں کہ اب بہت دیر ہوچکی تھی وقت اور حالات دونوں بدل گۓ تھے، اب پورے خاندان میں یہ بات پھیلی تھی کہ اکرم کو ناانصافی پسند نہیں ہے اس لیے اسکے سامنے سارے بھائ بہن سہی سے رہتے حتٰی کہ وہ لوگ جاوید سے اتنے خوفزدہ نہیں تھے جتنا کہ اکرم سے۔ اس کی پھوپھی نے اپنی اکلوتی بیٹی زویا کا رشتہ اکرم کے ساتھ طے کردیا تھا۔ انہوں نے اپنے بھائی کی بڑھتی دولت اور خاندان میں اکرم کی بڑھتی ہوئی عزت کو دیکھ کر یہ سب کچھ کیا تھا تاکہ ان کی بیٹی کی خاندان میں سب سے اعلٰی مقام رہے۔ کوئ کسی کا کہا مانے یا نہ مانے سب لوگ اکرم کی بات کبھی نہیں ٹالتے تھے۔ کوئ چھوٹا ہو یا بڑا سب کیلئے اکرم کا انصاف برابر ہوتا۔
صحت مند تھا لیکن دیکھنے میں ذرا دبلا پتلا سا تھا۔ جسنے ہلکی داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ اکرم اگر اپنے انصافی والے رتبہ سے مشہور نہ رہتا تو بھی اپنے ذہن کی وجہ سے خاندان میں سب سے زیادہ سمارٹ رہتا، اور وہ تھا بھی۔
◇◇◇
راضب نامہ سینئر جو کہ لیڈر بھی تھا اس کے ساتھ صالحہ کی بات چیت اچھی تھی۔ وہ لوگ کینٹین اور لائیبریری بھی ساتھ جایا کرتے تھے وہ اسے پڑھائی میں بھی کافی مدد کرتا تھا۔ ان کی ملاقات لائبریری سے ہی شروع ہوئ تھی وہ کوئی کتاب ڈھونڈ رہی تھی اور اسنے اسکی مدد کی تھی۔ اسے صالحہ کی بات چیت اسکا انداز اور حرکات سب اچھا لگتا تھا حالانکہ صالحہ نے اس بات پر کبھی غور نہیں کیا تھا وہ تو بس بات کرلیتی تھی کبھی کبھار کالج میں ہی صرف۔
◇◇◇
اس وقت پروفیسر جلال کلاس سے نکلے ہی تھے کہ راضب نے دستک دی تھی۔ صالحہ اپنی بات کہتے ہوئے رکی اور سبھی کلاس کا بھی یہی حال تھا۔ وہ پہلا سینئر تھا جس نے کبھی کسی جونئر سے بات نہیں کی تھی کام کے علاوہ اور لڑکیوں سے تو بالکل بھی نہیں۔ اکرم کہی دور اپنی سیٹ پر بیٹھے یہ تماشا دیکھ رہا تھا جب راضب نے آکر صالحہ کو اسکی فرینڈز کے ساتھ لنچ کی دعوت دی۔ دعوت قبول کرتے ہی وہ اسکے ساتھ اٹھ کر چلی بھی گئ تھی۔ یہ پہلی دفعہ تھا جب اکرم کو جلن سی محسوس ہو رہی تھی۔

خواب گاہ Where stories live. Discover now