محبت ایسے ہی تھوڑی ہوجاتی ہے کبھی بھی انسان خود کر لیتا ہے اور کبھی بول بول کر کروا دی جاتی ہے۔
قدرت اس وقت تک کسی شخص کو کسی سے ٹکراتی رہتی ہے جب تک اسے وہ پسند نا آجاۓ۔
Mohobat aise hi thori ho jati hai kbhi insaan khud kr leta hai or kabhi bol b...
صبح پونے دس بجے تک وہ دونوں بس اسٹاپ کے قریب آگۓ تھے لیکن ندا اور صالحہ کو ابھی بھی تھوڑا وقت چاہیے تھا۔ اکرم نے بھورے رنگ کی شرٹ اور کریم رنگ کا پینٹ پہنا تھا جوکہ اس پر اچھا لگ رہا تھا۔ دوسری طرف واحد نے سفید پینٹ کے اوپر سبز رنگ کی شرٹ پہنی جو کہ پودینا سبز تھا، ایک لغت اور قدرے دھول دار سبز رنگ۔ اگیارہ دس پر وہ دونوں پہنچی۔ اکرم نے آج سے پہلے ایسا کچھ نہیں دیکھا تھا۔ واحد تو خیر بیٹھا تھا لیکن وہ کھڑا رہا۔ وہ ہلکی گلابی مائل یعنی شفتالو رنگ کی لمبی فروک میں ملبوس تھی جس کا آستین پورے کہنی تک ڈھکا تھا، چاندی کے رنگ کے دو چوڑی دونوں ہاتھوں میں اور کان کی بالی۔ کھُلے بالوں میں ہلکے میک اپ کۓ مسکان کے ساتھ وہ اس کی طرف بڑھ رہی تھی اور وہ اسے ہی دیکھے جا رہا تھا۔ جب کہ ندا نے ہلکی جامنی رنگ کی لمبی فروک پہنی۔ دونوں کے لباس اور حلیہ ایک جیسے ہی تھے، لیکن ندا کے ہاتھوں میں کوئی چوڑی نہیں تھی۔ ایک انگُوٹھی تھی بائیں ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی میں اور گلے میں خوبصورت ہار، کوئ کان کی بالی نہیں تھی بس کھُلے زُلف ہی کافی تھے۔ ایک آواز پر اکرم نے اچانک غور کیا تو پتہ چلا کہ بس آگئ تھی اور واحد اسے چلنے کا بول رہا تھا۔ اسے پتہ بھی نہیں چلا کہ کب بس آئ اور کب وہ لوگ جگہ پر پہنچ بھی گئے۔ کھانے پینے کی کافی ساری چیزوں کے علاوہ وہ بیڈمنٹن بھی لاۓ تھے۔ وہ جگہ ایک کھُلے میدان جیسی تھی یا کہہ سکتے ہے باغ جیسی جہاں لوگ سیروتفریح کیلئے آۓ تھے۔ کچھ اپنے فیملی کے ساتھ تھے تو کچھ دوستوں کے ساتھ، کچھ کپلز (جوڑا) تھے تو کچھ اکیلے ہی آۓ تھے۔ خوبصورتی سے دروازہ سجا تھا داخل ہونے والوں کیلئے۔ شروعات میں بس گھاس ہی تھے لیکن تھوڑی دور جانے پر باغیچہ شروع ہوتا تھا۔ بڑا نرم باغ ایک پناہ گاہ کی طرح لگتا تھا۔ دنیا سے اعتکاف، جہاں ہر کوئی آرام کر سکتا تھا، قدرت سے جڑ سکتا تھا اور آرام و سکون سے لطف اندوز ہو سکتا تھا۔ سرسبز گھاس جو چھونے میں نرم لگ رہی تھی' پورے باغ میں پھیلی ہوئی تھی۔ خوبصورت متحرک پھولوں کی جھاڑیاں، احتیاط سے کٹائی اور ترتیب دی گئی تھی۔ بلند و بالا درخت جو سایہ اور سکون کا احساس فراہم کررہی تھی۔ لکڑی یا کائی جیسے نرم مواد سے جُڑے گھومتے ہوئے راستے۔ آرام دہ کونوں اور کرینیاں جو پڑھنے اور آرام کرنے کے لئے بہترین تھی ایک اچھے انداز میں سجایا گیا تھا۔ کچھ درختوں پر سٹرنگ لائٹ تاروں جیسی نرم روشنی سے گھیری ہوئ تھی جو ماحول کو مزید گرم جوشی اور جمالیاتی بنائ ہوئ تھی۔ کھلتے پھولوں اور تازہ کٹی ہوئی گھاس کی میٹھی خوشبو، پرندوں کے گُنگُنانے کی پُرسکون آوازیں، پانی کا چشمہ اور ہلکی ہوا جو پُرامن اور پرسکون ماحول فراہم کررہی تھی۔ پتوں کی ہلکی ہلکی جھونکی رومانوی اور مباشرت کا احساس دلارہی تھی۔ سورج کی تپش آرام اور سکون کی دعوت دے رہی تھی۔ وہ دونوں چنچل اور سنکی تھے۔ آتے ہی سب سے پہلے بیٹھنے کی جگہ دیکھی اور سامان پھیلا کر بیٹھے گۓ۔ صالحہ: اوہ خدا۔۔ سنجیدگی سے کہہ رہی ہوں مجھے بہت اچھا احساس ہورہا ہے۔ ندا: ہاں! یہ زبردست ہے۔ میرا مطلب ہے یہاں خوبصورتی کی چوٹی ہے۔ واحد: ہاں وہ تو ہے میں نے فون پر دیکھا تھا اس جگہ کو۔۔ سبھی اپنی اپنی راۓ دیں رہے تھے اور تعریف کررہے تھے پر اکرم' وہ ابھی بھی کسی کتاب کو لۓ بیٹھا تھا۔ یہ وہی کتاب تھی جو وہ اپنے گھر سے لایا تھا۔ کچھ ہی دیر میں وہ سبھی سیر کرنے کیلئے گۓ۔ پورے باغ کی تفریح کرنے کے بعد وہ واپس اپنی جگہ پر آمادہ ہوۓ۔ جو بھی لاۓ تھے وہ کھاپی کر اپنے مطابق جو جی چاہتا کرتے۔ صالحہ کو تو تصویر لینے سے فرصت نہیں تھی۔ ندا اور واحد خود بھی کھیلتے اور آس پاس میں موجود بچوں کے ساتھ بھی، خود صالحہ بھی یہ کررہی تھی۔ جتنی تصویریں لی جاسکتی تھی وہ اتنی لے رہے تھے۔ واحد: بھائ آج سیر کرنے کا ارادہ ہے یا بس ایسے ہی کتاب لے کر بیٹھے رہنا ہے۔ اکرم: نہیں۔۔ مطلب تم لوگ انجوائے کرو۔ اس نے ایک نظر واحد کی طرف دیکھا اور پھر واپس اسی کتاب کی طرف۔ وہ بھی کچھ دیر بیٹھنے کے بعد ندا کے پاس چلاگیا۔ نہایت جوش سے صالحہ آئ اور پانی کی بوتل سے آدھا بوتل پانی ختم کردیا۔ صالحہ: میں تو اتنا تھک گئ ہوں پھر بھی دل نہیں بھر رہا ہے۔۔ اس نے ہانپتے ہوۓ کہا، وہ ابھی بھی پڑھ رہا تھا۔ تھوڑی دیراس نے جواب کا انتظار کیا۔ پھر اس نے خود ہی بولنا شروع کیا صالحہ: ارے کالج میں تو پڑھتے ہی رہتے ہو یہاں تو کم سے کم انجوۓ کرلو۔ اکرم: میں اپنی طرح سے انجوۓ ہی کر رہا ہو۔ وہ اتنے غور سے سُن رہا ہوگا اسے اندازہ نہیں تھا۔ کچھ دیر اسے دیکھنے کہ بعد اس نے بوتل واپس رکھی اور فون پر لگ گئ۔ دور سے کہی واحد اور ندا کے ہنسنے کی آوازیں آرہی تھی۔ وہ دونوں اس بات پر دھیان دے رہے تھے۔ واحد کے گرنے پر صالحہ کو تو زور سے ہنسی بھی آئ لیکن اکرم نے مسکرانا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ کافی دیر کی خاموشی کو اس نے پھر توڑا۔ صالحہ: یار تم بلکل نہیں ہنستے کیا۔ کم سے کم مسکرا ہی دو۔ اس جملہ پر اس نے ایک نظر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا، جواب دینے کیلئے منہ تو کھولا تھا پر شاید جواب تھا نہیں تو واپس ہونٹ کو کھینچا اور نظریں نیچے کرلی۔ اکرم: تمہیں کیا لگتا ہے یہ لوگ جو ایسا کر رہے ہیں یہ سہی ہے۔۔ تھوڑی دیر بعد یہ پہلا موقع تھا جب اسنے اپنی بات رکھی تھی۔ صالحہ: کیا مطلب؟ وہ کچھ حیرانگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اب اس نے بھی اپنی کتاب بند کردی تھی۔ اکرم: میرا مطلب ہے کہ۔۔ دیکھو غلط مت سمجھنا لیکن۔۔ واحد اور ندا کا اس طرح کپل بن کر رہنا۔۔ آئ مین انہیں اپنے گھر والوں کو بتانا چاہئے اس طرح تو غلط بات ہے۔ صالحہ: دیکھو یہ غلط ضرور ہے کہ ان کے فیملی کو اس بات کی خبر نہیں ہے لیکن ان دونوں کے اس طرح ساتھ ہونے کو تم غلط نہیں کہہ سکتے۔ وہ پھر کچھ دیر خاموش رہا۔ اکرم: لیکن یہ حرام ہے۔۔ جس طرح اس نے اسے پروپوس کیا اور۔۔ صالحہ: پروپوس کرنا حرام نہیں ہے۔ اکرم: لیکن اس طرح میرا مطلب۔۔۔ صالحہ: تمہارا مطلب یہ ہے کہ کسی کو پسند کرنا غلط ہے اور اسے بتانا غلط ہے تو پھر میں کہتی ہوں تم غلط ہو۔ وہ اپنے سوال اتنی جلدی نہیں کہہ پا رہا تھا جتنی جلدی وہ جواب دے رہی تھی۔ اکرم: میرا کہنا یہ ہے کہ اس طرح رہنا تو حرام ہے نا۔ صالحہ: پسند کرنا غلط نہیں ہے اور نا ہی اس طرح رہنا۔ ہر چیز میں حلال اور حرام ہوتا ہے اگر وہ اس رشتہ میں کچھ کرتے ہیں یا پھر یہ کہوں کہ ایک دوسرے کا ہاتھ بھی پکڑتے ہے تو وہ حرام ہے۔ رشتہ نہیں۔ وہ بس خاموشی سے اس کی بات سُن رہاتھا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس لڑکی کو اتنی سمجھ ہوگی۔ وہ کچھ دیر بول نا سکا۔ اکرم: تو پھر بتاؤ کیا سہی ہے؟ صالحہ: میں سہی ہوں۔ اکرم: کیا! اس کی ہر بات ہر الفاظ ہی اسے حیران کر دیتی تھی، بھلا وہ ایسے کیسے کہہ سکتی تھی۔ اکرم: میرا مطلب۔۔ صالحہ: تم نے کبھی کسی کو پسند کیا ہے؟ اتنے معصوم سے سوال کا جواب اکرم کے ذہن میں تھا لیکن وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا، پتہ نہیں کیوں۔ اکرم: نہیں۔ جواب سچ تھا اور سہی بھی اس نے تو کبھی کسی کے بارے میں اس طرح سوچا ہی نہیں۔ اکرم: تم۔۔ تم نے کسی کو پسند کیا؟ صالحہ: ہاں! اکرم: کسے۔۔ اس کے کچھ اور پوچھنے سے پہلے ندا آگئ تھی جو اسے اس کے ساتھ چلنے کا کہہ رہی تھی۔ وہ بھی خوشی میں دوڑی چلی گئ۔ کچھ ہی دیر میں وہ سبھی کھیلتے دیکھائ دے رہے تھے۔ اکرم وہی بیٹھا اس کی باتیں سوچ رہا تھا۔ آخر کیسے وہ اتنی جلدی ہر سوال کا جواب دے سکتی تھی سوچنا اور سمجھنا چاہیے تھا نا۔ وہ بس اسی طرح کچھ دیر ساکن رہا اور پھر واپس اپنی کتاب کی طرف دیکھنے لگا۔ ◇◇◇ کل کا دن کافی تھکاوٹ والا تھا اس لۓ سبھی کو آج آرام کرنے کی ضرورت تھی۔ اس کی آنکھ ساڑھے بارہ بجے کھُلی وہ بھی کسی کی آواز سے۔ شروع میں تو وہ نیند میں ہی رہا لیکن آواز کے بار بار آنے پر اس نے آنکھ کھولی اور اپنے اردگرد دیکھنے لگا۔ آواز اس کے بغل سے ارہی تھی۔ "ہاں۔۔ ہاں وہ تو ہے۔۔ ہم بھی" اچانک چادر ہٹانے پر دیکھا تو وہ واحد تھا جوکہ اس وقت فون پر کسی سے باتیں کر رہا تھا۔ اکرم: اس وقت۔۔ کس سے بات کر رہا ہے۔ واحد: جس سے بھی تمہیں کیا۔۔ سوجاؤ اس کی باتوں سے ہی سمجھ آرہا تھا کہ وہ ندا تھی۔ حیرت تھا اتنی رات گۓ وہ اس وقت اس طرح کیسے بات کر سکتا ہے اور ندا۔۔ کم سے کم وہ تو وقت کا خیال کر لیتی۔ اسے یہ ساری باتیں عجیب لگتی تھی۔ ٹھیک ہی تھا اس کا ایسا ردعمل۔ ◇◇◇ آج کالج کی کلاس کچھ خاصی دلچسپ تو نہیں تھی لیکن پھر بھی کررہے تھے سبھی۔ "بزنس اسٹڈیز میں، انٹرپرینیورشپ ایک کاروبار شروع کرنے، اسے ترقی دینے، اور قدر پیدا کرنے یا منافع پیدا کرنے کے لیے اس کا انتظام کرنے کا عمل ہے۔ یہ صرف ایک کاروبار شروع کرنے سے زیادہ ہے، اور یہ ایک ذہنیت ہے جس میں مواقع کی نشاندہی کرنا، خطرات مول لینا، اور مسائل کا تخلیقی حل تلاش کرنا شامل ہے۔ کاروباری افراد اپنے کاروباری منصوبے کے تمام خطرات اور انعامات کے ذمہ دار ہیں۔ وہ اکیلے یا دوسروں کے ساتھ کام کر سکتے ہیں، اور وہ اکثر مارکیٹ میں خلا تلاش کرتے ہیں اور انہیں نئے آئیڈیاز سے بھرتے ہیں۔ کاروباری افراد کے لیے کچھ مشترکہ اہداف میں جدت، کامیابی اور منافع شامل ہیں۔ ادیدوستا جدت، اقتصادی ترقی، اور سماجی تبدیلی کے پیچھے ایک محرک قوت ہو سکتی ہے۔" بہت لمبی کلاس تو نہیں تھی پر کلاس سے جب وہ فارغ ہوۓ تو گھر کی طرف رُخ کیا۔ ان چارو کا راستہ الگ تھا لیکن آج ندا اور واحد کہی باہر کھانا کھانے جانے والے تھے جس پر صالحہ کو اکیلے ہی سفر طے کرنا پڑا۔ اکرم کو کچھ کام تھا اسی لۓ اسے بھی اسی راستہ سے گزرنا پڑا، وہ دونوں ساتھ ہی چل رہے تھے۔ اکرم اس سے کافی دور چل رہا تھا اتنا کہ اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہ صالحہ کے پیچھے تھا۔ صالحہ کا دل نہیں تھا ابھی گھر جانے کا تو وہ اسی پارک میں بیٹھ گئ۔ سب سے پہلے اس نے جھولے کا مزہ لیا پھر واپس آکر بیٹھ گئ۔ اسے کچھ ہی دیر میں احساس ہوا کہ کوئ اس کے بغل میں بیٹھا تھا۔ مُڑ کر دیکھا تو وہ اکرم تھا جو کہ اسی بینچ کے کنارے اس سے دوری بنائیں بیٹھا تھا۔ وہ اپنے تصورات کی دنیا میں تھی اس لۓ نا بات کررہی تھی نا دیکھ رہی تھی۔ کچھ ہی لمحہ کی خاموشی کے بعد اس نے خود آگے سے سوال کرلیا۔ اکرم: تم۔۔ تم نے کہا تھا نا کہ۔۔۔ اس نے اس کی طرف دیکھا اسے توقع نہیں تھی کہ وہ کچھ بولنے والا تھا اور وہ بھی پہلے صالحہ: ہا! کیا؟ اکرم: تم کسی کو پسند کرتی ہو ایسا بتایا تھا نا۔۔ تو وہی کسے۔۔ پسند کرتی ہو وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر خوشی سے مسکراتے ہوئے جواب دیا صالحہ: مجھے۔ اکرم: کیا؟ صالحہ: مطلب اپنے آپ کو۔ وہ کچھ حیران کن تھا۔ دو دن سے وہ بس اسی سوال کا جواب تلاش کر رہا تھا اور جواب کتنا آسان تھا اسے خبر نہیں تھی۔ اس کی آنکھوں میں سچائی اور الفاظ میں معصومیت شامل تھی۔ ہرحرف اکرم کیلئے حیران کن اور مختلف تھا۔ وہ واپس اپنے انہی خیالو میں گُم ہوئ اور خاموشی کا یہ لبما سفر آدھے گھنٹے تک چلا۔ وہ اتنی دیر تک کچھ سوچ نا سکا ذہن پورا خالی سا معلوم ہوتا تھا۔ کچھ اور لمحہ بعد اس کے گھر سے فون آیا اور وہ وہاں سے اُٹھ کر چلی گئ جب کہ وہ وہی بیٹھا رہا، کافی دیر۔ وہ اس وقت بھی کچھ سوچ رہا تھا، معلوم نہیں کیوں۔ جب اس نے اپنے آس پاس دیکھا تو پورا میدان خالی تھا۔ اس کے علاوہ اگر کچھ اور تھا تو وہ صرف دو تین کتّے تھے جو میدان میں بھی رہا کرتے تھے۔ وہ اوورتھنکر (زیادہ سوچنے والا) شخص تھا جو کہ کچھ دیر پہلے ایک کم سوچ ولی لڑکی سے بات کررہا تھا۔
Oops! This image does not follow our content guidelines. To continue publishing, please remove it or upload a different image.