باب-۸

37 25 12
                                        

صالحہ بس کھانا کھا کر اپنے بستر پر لیٹی ہی تھی کہ اسے سب سے پہلا خیال اکرم کا آیا۔ آنکھوں  پر ہاتھ رکھے پتہ نہیں کیا کیا سوچ رہی تھی۔
صالحہ: یار اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا چاہے کچھ بھی ہو
اب وہ آنکھوں سے ہاتھ ہٹا چکی تھی۔
صالحہ: پسند کرتا ہے کیا مجھے۔۔ نہیں نہیں ایسا کیسے وہ تو بہت غصہ کرتا ہے مجھ پر شروع سے ہی۔۔۔ دیکھنے میں تو میں ٹھیک ٹھاک ہی ہوں علیشا زیادہ خوبصورت ہے لیکن۔۔ ہاں کرتا ہی ہوگا پسند تبھی تو۔۔

اپنی باتوں میں گم اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہ خود کو علیشا سے کمتر سمجھ رہی تھی۔ تکیہ اٹھاۓ اسے گلے سے لگا کر وہ پلنگ کے کونے میں بیٹھی تھی۔ کبھی اپنے بالوں کو ہاتھ سے گھوما رہی ہوتی تو کبھی اچانک سے ہاتھ گردن پر پھیرتی اور پھر مسکراتی۔ سوچتے سوچتے کب آنکھ لگی اسے پتہ ہی نہیں چلا۔
صبح بارہ بجے آنکھ کھلی تو گھر میں شور مچا ہوا تھا۔ وقت اور حالات سے انجان وہ دوبارہ اپنی نیند میں چلی گئ۔
دوسری بار آنکھ اس کی امی کی آواز سے کھلی تھی جو اسے ڈانٹ رہی تھی۔
صالحہ: امی سونے دونا
امی: ہاں بس سوتی رہو۔ پتہ چلا کسی دن یہ سوتی رہ گئ اور بارات دروازہ سے لوٹ گئ۔
اس کی امی اب باہر آگئی تھی۔ وہ اور بھابھی رات کیلئے سبزی کاٹ رہی تھی۔ والد صاحب اور ذاکر بھائ چھوٹے سے فین کو ٹھیک کرنے میں لگے تھے اور عبداللہ ان کے اشاروں پر دوڑ رہا تھا۔
ابو: ارے ایسے مت کہو بچی ہے۔۔
امی: بچی! اب اتنی بھی چھوٹی نہیں ہے۔ کالج جاۓ گی تو یہ میک اپ بھر بھر کر لگاۓ گی اور نیچرل لوک کہے گی۔ ہم بھی تو جاتے تھے کالج... ہمیں تو اتنا میک اپ کرنے کی کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی۔
ابو: اسکول کے بعد تو شادی ہوگئی تھی۔۔ پتہ نہیں کب گئ کالج۔۔
وہ آہستہ سے کہہ رہے تھے ذاکر اور عبداللہ ان کی باتوں پر ہنس رہے تھے جس کی آواز امی کے کانوں تک نہیں جا رہی تھی۔
امی: شادی میں گئ تھی جمیلہ باجی کہ یہاں۔۔ ارے اس سے زیادہ کوئ تیار ہوکر ہی نہیں آیا تھا۔ اتنا لیپا پوتی کر کے گئ تھی۔۔ بول رہی ہوں میں اس سے زیادہ کوئ ہیروئین نہیں سنورتی ہوگی۔۔ جیسے شوٹنگ پر گۓ تھے ہم لوگ
سبھی کی ہنسی اپنے آپے میں نہیں تھی۔ اسی وقت صالحہ آنکھیں ملتی ہوئ آئ۔ اپنے ابو کو سلام کرنے اور گلے لگانے کے بعد صوفہ پر بیٹھ گئ۔ ابھی بھی اس کی امی چینخ رہی تھی۔
امی: ارے کالج جاتی ہے تھوڑا سلیقہ سے جاۓ اب۔۔ نہیں پہن لینا ہے اونچی اونچی سینڈل اور لنگڑا کر چلنا ہے۔ بول رہی ہوں میں ابھی بھی جس دن گِری نا منہ کہ بل نکل جاۓگی یہ ساری ہیروئین گری۔
صالحہ اب بغیر منہ دھوۓ کچن سے پراٹھا اور چکن کا سالن لے کر ٹیبل پر بیٹھ گئ۔ نائٹ سوٹ میں ملبوس، کھلے بالوں کے ساتھ وہ چڑیل جیسی ہی لگ رہی تھی۔ نوالا کھاتے وقت آنکھ بند رکھتی اور سالن کو بس کبھی کبھی دیکھتی۔
امی: یہ دیکھو۔۔۔ نہیں.. دیکھکیں آپ بھی، بغیر منہ دھوۓ جو کھا رہی ہے
ابو: ارے اب کھانے بیٹھ گئ ہے تو کیا کر سکتے ہے سامنے سے اٹھا لیں کیا۔۔ اب کھانے بھی دو بچی۔۔
امی: ہاں بس میں بولوں تو میں غلط
ابو: نہیں میں آپ کو غلط نہیں کہہ رہا تھا بس۔۔
امی: نہیں ٹھیک ہے۔۔ ٹھیک ہے جب دانت میں کیڑے آجائیں گے تو اس وقت بھی کیڑوں کو کہہ دینا بچی ہے۔۔ اسے کیا ہے،  ڈاکٹر کا خرچہ اور دوڑا دوڑی تو ہم لوگوں نے کرنی ہے، رانی جی کو تو بس سامنے میں کرکے سب کچھ مل جانا ہے۔
وہ کھانا کھا کر دوبارہ صوفہ پر بیٹھ گئ۔ امی کی ڈانٹ کہ وجہ سے وہ باہر نکلی اور واپس دوڑتی ہوئ اندر آئ۔ چہرے پر خوشی لۓ
صالحہ: کون آیا ہے؟ کس کی گاڑی ہے باہر؟
ذاکر: ہماری گاڑی ہے۔
اس نے اسی طرح کام کرتے ہوۓ کہا۔
صالحہ: ہماری!
عبداللہ: ذاکر بھائی گاڑی لےکر آۓ ہیں آج صبح ہی اور آپ تو ابھی اٹھی ہیں تو آپ کو کیسے پتہ چلتا۔
صالحہ کو تو جیسے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آیا۔ وہ خوشی سے چیلّا اور چینخ رہی تھی۔
صالحہ: ہم لوگ لونگ ڈرائیو پر چلیں؟
ذاکر: چلتے ہے پہلے کام ختم کرلیں۔
صالحہ: میں دو منٹ میں تیار ہوکر آتی ہوں
وہ اپنی بات مکمل کرتے ہوۓ اپنے کمرے میں داخل ہوگئی۔
امی: دیکھو پھر گئ ہے۔ ابھی سے لے کر پانچ بجے تک میک اپ کرتی رہے گی۔ میں بول رہی ہوں اس کہ منہ میں تھوڑا سا میک اپ نہیں ہوتا ہے بلکہ میک اپ میں تھوڑا سا منہ ہوتا ہے۔
سبھی بےپرواہی سے ہنس رہے تھے۔ اب امی واپس کچن کے اندر جاچکی تھی۔
○○○
پانچ بجے کہ قریب سبھی گھر والے تیار باہر کھڑے تھے۔ عبداللہ اپنے امی کا فون لےکر جا رہا تھا۔ جس میں وہ ویڈیو بنانا شروع کرچکا تھا۔ ذاکر اپنے گھڑی کی طرف دیکھتا اور پھر دروازہ کی طرف' جہاں اس وقت اس کی بیوی کھڑی تھی۔ وہ دونوں کچھ مسکراتے چہرے کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ تقریباً سبھی لوگ گھر کے باہر' گاڑی کے پاس آگۓ تھے۔
ذاکر: صالحہ!
وہ اسے آواز لگا رہا تھا۔
صالحہ: ہاں بس دو منٹ بھائی
امی: ابھی بھی میک اپ ہی کر رہی ہوگی۔۔
عبداللہ: بھائی لیکن اس میں میری سیٹ کہاں ہوگی؟
دائیں ہاتھ میں فون پکڑے اس نے اپنے اور گاڑی کی ویڈیو کو ایک فریم میں کیا۔
ذاکر: تم ڈکّی میں جاکر بیٹھ جاؤ۔
ذاکر کی آواز پر اس نے منہ بنالیا۔
عبداللہ: نہیں میں کھڑکی کہ سائڈ میں بیٹھتا ہوں۔
صالحہ: ونڈو سیٹ میں میرا حق رہےگا۔
اس نے اپنا دوپٹہ کندھے سے ٹھیک کرتے ہوۓ کہا۔ وہسے تو اس پر پیلا رنگ اچھا لگ رہا تھا، لیکن جب سورج کی روشنی اس پر پڑی تو اس کی خوبصورتی میں ہزارگنا اضافہ ہوگیا تھا۔ گول سیاہ آنکھیں جن پر اس نے ہلی ہاتھوں سے آئلائنر لگائ تھی۔ اس کے سیاہ بال کھُلے ہوۓ اور بھی اچھے لگ رہے تھے۔ ہاتھوں میں دو بینگلس اور فون لۓ وہ آگے بڑھی اور سب سے پہلے عبداللہ کے ویڈیو کا حصہ بنی۔ وہ گاڑی میں بیٹھے اپنے ابا کو بھی کیمرہ کی طرف شامل کر رہا تھا۔
بھابھی: امی آپ نہیں آرہی کیا؟
امی: چلو شکر ہے کسی کو تو میرا خیال ہے ورنہ یہاں تو لوگ بھول ہی گۓ جیسے مجھے
صالحہ: ارے امی میں نے تو ویسے بھی شادی کر کے چلے جانا ہے تو بھابھی ہے نا۔۔
وہ اب اپنے بالوں کو آگے کی طرف چہرے کہ قریب کرتے ہوۓ ویڈیو میں اپنی پوز اچھی کرنے میں مصروف تھی۔
امی: بیٹا آپ کی جیسی حرکت ہے نا کوئ اپنا بیٹا دے گی بھی نہیں
ابو: لیکن آپ جا کیوں نہیں رہی ہیں بیگم؟
انہوں نے گاڑی کی طرف بڑھتے ہوۓ سوال کیا۔
امی: آمنہ باجی کے یہاں دور سے عورتوں کی جماعت آئ ہے تو وہی۔۔
صالحہ: چلو چلو سب لوگ بیٹھو یہ سب ڈراما تو چلتا ہی رہےگا۔
اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہوۓ کہا۔
امی: کیا کہہ رہی ہو۔۔۔
صالحہ: میرا مطلب اب آپ کی عمر تو جماعت میں ہی جانے والی ہے نا لونگ ڈرائیو پر ہم جیسے جوان ہی جاۓ تو وہی اچھا ہے۔
وہ گاڑی کہ اندر سے کہتی ہے۔ اس کی امی غصہ سے اس کے والد کو دیکھ رہی تھی۔
ابو: ارے بیگم اب میں تو عورتوں کی جماعت میں نہیں جا سکتا نا ورنہ اجازت ہوتی تو ضرور جاتا۔
سبھی گاڑی میں بیٹھ گۓ۔ ڈرائیونگ سیٹ پر ذاکر، فرنٹ سیٹ پر اس کی بیوی، بیک سیٹ کے دونوں کھڑکیوں کی طرف عبداللہ اور صالحہ اور بیچ میں کہی اس کے والد جو پورے سفر اپنے دونوں اولادوں کی لڑائ ہی چھڑا رہے تھے۔

خواب گاہ Onde histórias criam vida. Descubra agora