ان دونوں کی ملاقات اچانک پارک میں ہوئ تھی، دونوں ہی بیٹھنے آۓ تھے۔ آج کا موسم واپس اچھا ہورہاتھا، ہلکی گرمی تھی لیکن ہوا اس بات کا احساس نہیں ہونے دے رہی تھی۔
صالحہ: تم نے صرف "میری می" ہی لیکھنے کا کیوں کہا تھا؟
اکرم: تم نے تو کہا تھا کہ تمہاری دوست بھی واحد کو اتنا ہی پسند کرتی ہے جتنا کہ واحد
صالحہ: تو؟ "وِل یو میری می" کیوں نہیں کہا تھا؟
اکرم: اگر اسے منع کرنا ہوتا تو وہ پورا لکھنے کے بعد بھی منع کردیتی۔ اسلۓ اتنا ہی کافی تھا۔
صالحہ: تم کتنے عجیب ہو!
ان کی گفتگو کا موضوع کہی سے کہی جا رہا تھا۔
اکرم: ویسے تمہیں تم کیوں پسند ہو۔۔ مطلب پچھلی بار تم نے کہا تھا نا اس لئے۔۔ ایسا کیا خاص ہے تم میں؟
صالحہ: مجھمے میں خاص ہوں۔ اپنے بارے میں مجھے ہر چیز پسند ہے۔ جیسے کہ مجھے جنک فوڈ کھانا، ڈرامہ اور ویب سیریز دیکھنا، فضول کی باتیں کرنا، سب کو پریشان کرنا اور تھوڑی بہت چغلی کرنا اچھا لگتا ہے۔
وہ مسکراتے ہوۓ کہہ رہی تھی اور وہ خاموشی سے اس کی بات سُن رہا تھا، کچھ دیر وہ بھی چُپ رہی پھر سامنے سے سوال کیا
صالحہ: تمہیں کیا پسند ہے؟
اکرم اس سوال پر کچھ دیر کیلئے خاموش ہوگیا، اس نے کچھ بھی کہنے کیلئے اپنا ذہن جھانکا، لیکن وہ مکمل طور پر خالی سا معلوم ہوا۔ صالحہ کہ اس سوال کا اس کے پاس کوئ جواب نہیں تھا۔ کچھ دیر بعد جواب نا آتا دیکھ اس نے پھر اپنی بات کہنی شروع کی
صالحہ: ویسے میں بھی کس سے ہی پوچھ رہی ہوں۔ جانے دو
بہرحال اس نے اس بات پر دھیان دینا ضروری نہیں سمجھا اور صرف مسکرا کر ہی رہ گیا۔ بغل سے کوئ بلی گزری تھی
صالحہ: پتہ ہے میں جب چھوٹی تھی نا تو اسکول جاتے وقت ایک بلی نے میرا راستہ کاٹ دیا تھا۔۔
اکرم: تم مانتی ہو ایسی باتوں کو؟
صالحہ: نہیں لیکن پتہ ہے پھر کیا ہوا۔۔
وہ حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا اور پورے ذہن سے اس کی باتوں پر دھیان بھی دے رہا تھا۔
اکرم: کیا؟
صالحہ: میں جب واپس اسکول سے گھر جارہی تھی تو اسی راستے پر وہ بلی مُردہ ملی۔
اکرم کو لگ رہا تھا کہ کوئ بہت عجیب یا بڑے حادثے والی باتیں وہ کہہ رہی ہوگی، لیکن اس بچوں جیسی بات پر اسے صالحہ پر بھی ہنسی آئ اور اپنے آپ پر بھی کہ آخر اس نے اس لڑکی سے سنجیدہ بات کی امید کیسے کرلی تھی۔ وہ مسکرایا پر اسے یہ بات بیہودہ لگ رہی تھی اور صالحہ زوروں سے ہنس رہی تھی، جیسے اس نے بہت بڑا کمال کیا ہو۔
◇◇◇
اچانک گھر سے کال آنے پر اسے حیرت ہوئ تھی کیوں کہ آج سے پہلے رات کے دو بجے اسے کبھی اس طرح کال نہیں آیا تھا۔ اپنے بستر پر لیٹے ہوۓ کی اپنے فون کو کان سے لگایا۔
اکرم: ہلو؟
اس کی امی کا نمبر تھا لیکن دوسری طرف سے عثمان صاحب کی آواز تھی۔
عثمان صاحب: اکرم کیا کر رہے ہو ابھی؟
اکرم: جی سو رہا تھا۔۔ کیا بات تھی؟
عثمان صاحب: غور سے سُنو۔۔ تمہارے دادا کی طبعیت خراب ہے آج شام میں ہی تمہارے چچا کا فون آیا تھا اور ابھی ہم لوگوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہاں جایا جاۓ۔
انہوں نے اس کی امی کہ فون سے اس لئے کال کیا تھا کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ وہ ان کا فون نہیں اُٹھاۓگا۔
اکرم:ابھی نکلنا ہوگا کیا؟
عثمان صاحب: ہاں تم گھر آجاؤ ہم سات بجے والی ٹرین سے چلتے ہیں پھر۔
اکرم: اچھا۔۔ ٹھیک ہے پھر میں آپ سب کو چھ بجے اسٹیشن پر پہنچ کر کال کروں گا۔
◇◇◇
اکرم سے انہیں اسی بات کی امید تھی وہ ٹھیک چھ بجے ان کے سامنے اسٹیشن پر کھڑا انتظار کررہا تھا۔
پورا سفر وہ بس اپنے فون میں لگا رہا، ایسا لگتا تھا جیسے اسے کوئ مطلب ہی نہیں تھا اس سفر اور سفر سے جُڑے کسی بھی چیز سے۔ اسے کوئ وادی، فضا اور کسی کی بھی باتوں میں دلچسپی نہیں تھی، حالاکہ اسے قدرت اور اس سے جُڑی ہر چیز اچھی لگتی تھی لیکن آج کے دن کی بات کچھ اور تھی۔
جب ایک لمبا سفر آخیر میں مکمل ہوا تو وہ اپنی منزل پر پہنچے۔ یہ کرسیونگ ریلوے اسٹیشن تھا جہاں سے انہیں لاتپنچر جانا تھا۔ اسٹیشن پر کھڑے اس کی نظر ایک کتابوں کی دوکان پر گئ، اسے یاد آیا کہ وہ اپنی کتاب ہاسٹل میں ہی بھول آیا ہے۔
ضلع دارجیلنگ کے کرسیونگ شہر میں انہیں نیچلے لاتپنچر گاؤں جانا تھا، جوکہ ٹیکسی سے ہوکر جاتا۔
گھر پہنچ کر انہوں نے پہلے آرام کیا۔ اس کا آدھا خاندان یہاں ہی رہتا تھا، بقیہ کچھ لوگ دلّی، ممبئ، اور کچھ ملک سے باہر بھی رہتے تھے۔ ایک حسین بڑا سا گھر ہی اس کے دادا کی ساری زندگی کی کمائی تھی جوکہ انہوں نے اپنے چاۓ کی پتی کے باغان سے حاصل کی تھی۔ آج سبھی گھر والے، یعنی اس کا پورا خاندان یہاں موجود تھا کیوں کہ سبھی کو کچھ ضروری بات کرنی تھی۔
اتنے بڑے اس گھر میں آنے کے دو راستے موجود تھے ، ایک دروازہ جس سے ہرکوئ آتا جاتا تھا، صدر دروازہ اور دوسرا اکرم کے کمرے سے نکلتا تھا۔ وہاں کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی یہ اس کے دادا کا اپنا فیصلہ تھا۔ اس دوسرے دروازے کے باہر ہی سیڑھیاں تھی جس سے کبھی بھی کوئ آرام سے اس گھر میں داخل ہوسکتا تھا اور باہر جاسکتا تھا بغیر کسی کو کوئ خبر ہوۓ۔
اکرم بھی اسی راستے آتا جاتا تھا لیکن، جب اس کا دل چاہتا وہ اپنے کمرے کے اس دوسرے دروازے سے باہر نکل جاتا یا پھر اسی گیٹ کے سیڑھیوں پر بیٹھا رہتا۔
میں بھی کس سے ہی پوچھ رہی ہوں ایک بجے اچانک اسے بستر پر لیٹے ہوۓ صالحہ کی یہ بات یاد آئ۔ وہ اپنے کمرے میں الیکا سوتا تھا۔ نیند آئ تھی کہ اسے اس بات کا احساس ہوا کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہی تھی۔ اکرم اپنے آپ میں ہی اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہا تھا لیکن حیرت کی بات تھی کہ اسے تو اس کے پہلے سوال کا بھی جواب نہیں معلوم تھا۔ خود اکرم نہیں جانتا تھا کہ اسے کیا پسند ہے اور اس کا رویہ ہمیشہ ایسا کیوں رہتا ہے، اسے تو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ آخری بار وہ کب رویا تھا یا کب اسے کسی کی باتوں کا بُرا لگا تھا۔ کتنی عجیب بات تھی اسے اپنے بارے میں خود کچھ نہیں پتہ تھا۔ ستمبر کا مہینہ شروع ہوا تھا اور وہاں کا موسوم بہت حسین دیکھتا تھا لیکن سردی تھا۔ باقی رات اس کی اسی سوچ میں گزری اور دیکھتے ہی دیکھتے آنکھ لگ گئ۔
صبح چار بیس پر اس کی آنکھ الارم کی آواز پر کھُلی۔ سب سے پہلے اس نے فجر کی نماز ادا کی پھر کچھ کھایا اور اپنا ایک بیگ، جو اس نے رات ہی میں پیک کیا تھا وہ لے کر چھ بجے کے قریب اسی دوسرے دروازے سے نکل گیا۔
وہ پیدل سفر کیلئے آیا تھا۔ اسے اسی طرح کے نظاروں کو دیکھنا اور قدرت سے جُڑے رہنا اچھا لگتا تھا۔ موسم خوشگوار تھا اور درجہ حرارت ٹھیک ٹھاک تھی، اتنی کہ کوئ آجا سکے۔ پندرہ سے بیس منٹ کی دوری پر ہی لیپچا کا جھرنا بہتا تھا، وہ اس وقت وہی دیکھنے آیا تھا۔ جھرنے کے پاس اور بھی کچھ لوگ موجود تھے جن میں سے کئ سارے ٹورسٹ تھے اور کچھ انہیں لے کر آنے والے اسی گاؤ کے لوگ۔ جھرنے سے تھوڑے دور ایک پتھر پر بیٹھ کر اس نے اپنا بیگ کھولا اور اس میں سے تھرموس نکالا اور چاۓ کے دو گھونٹ پۓ۔
وہ اس وقت ہر گزری ہوئ باتوں پر غور کر رہا تھا۔ جب اکرم چھوٹا تھا وہ اپنے دادا کے ساتھ یہاں آیا کرتا تھا اس لۓ وہ یہاں آنکھ بند کرکے بھی چل سکتا تھا۔ جب وہ نو سال کا تھا تو اس کی دادی کے انتقال کے بعد اسے اس کے دادا نے اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ یہی کے ایک چھوٹے سے اسکول میں ہی اس کا داخلہ کرادیا گیا اور چوںکہ اس وقت اس کے سبھی چچا اور پھوپھی کی شادی ہوگئ تھی تو کچھ لوگ یہاں رہتے اور بقیہ یہاں سے دور اس لۓ ان سبھی سے زیادہ وقت اکرم نے اپنے دادا کے ساتھ گزرا تھا۔ جب اس کے دادا بیمار ہوۓ یا جب بھی کسی قسم کی تکلیف کا انہیں سامنا کرنا پڑا تو وہ ہی ان کے ساتھ تھا۔ اکرم کو اپنے گھر سے زیادہ خوشی یہاں رہ کر ہوتی تھی۔ اسے یہاں کی ساری اچھی بُری، سچ، جھوٹ کہانیاں معلوم تھی۔
اس کے دادا اسے یہاں کی کہانیاں اور یہاں کے بارے میں بتاتے، جیسے کہ کرسیونگ کیوں مشہور ہے یا کچھ اور۔ کرسیونگ قصبے کو "وائٹ (سفید) آرکڈز کی سرزمین" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کیونکہ یہاں کی آب و ہوا اور مٹی آرکڈ کی افزائش کو سہارا دیتی ہے، ارد گرد کے جنگلات آرکڈز کے لیے مثالی حالات فراہم کرتے ہیں، یہاں 100 سے زیادہ آرکڈ کی انواع ہیں، جن میں نایاب سفید آرکڈ بھی شامل ہیں، جو کرسیونگ میں کھلتے ہیں۔ وہ اپنے دادا کے ساتھ کرسیونگ آرکڈ فیسٹیول میں جاتا تھا، جو مارچ سے اپریل تک منعقد رہتا۔ اس کے دادا اسے اس جگہ کی تاریخ اور کہانی سناتے تھے، جیسے لیپچا ایک مقامی قبیلہ ہے جو سکم کے ہمالیائی علاقے، مشرقی نیپال، مغربی بھوٹان، اور مغربی بنگال کے دارجلنگ ضلع میں رہتے ہیں۔ ان کے بارے میں سوچا جاتا ہے کہ وہ سکم کے قدیم ترین باشندے ہیں۔ لیپچا کے لوگوں کا ماننا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد دنیا کے تیسرے بلند ترین پہاڑ کنچن جنگا کی چوٹی پر برف سے پیدا ہوئے تھے، ان کا قدرتی ماحول اور نام کی چوٹیوں، جھیلوں اور غاروں سے گہرا تعلق ہے، وہ اصل میں شکاری اور جمع کرنے والے تھے، لیکن اب کھیتی باڑی اور مویشی پالتے ہیں، ان کی زبان، رونگ آرنگ، نیپالی اور سکّمی زبانوں کا مرکب ہے، اور اسے خطرے سے دوچار سمجھا جاتا ہے، انہیں اصل میں ان کے نیپالی پڑوسی "بکواس بولنے والے" کہتے تھے، وہ تین صدیوں سے نیپالیوں، تبتیوں اور بھوٹانیوں کے زیر تسلط تھے۔ لیپچا کے افسانوں کے مطابق کرسیونگ کا نام "کر" سے آیا ہے جس کا مطلب ہے سفید اور "سونگ" کا مطلب آرکڈ ہے، لیپچا قبائل کا ماننا ہے کہ کرسیونگ ان کے آباؤ اجداد کی مقدس سرزمین ہے۔ جب اکرم تہواروں میں جاتا تھا تو اسے کچھ افسانوی کہانیاں بھی معلوم ہوئ تھی جیسے کہ مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ، دیوی دُرگا، ایک ہندو دیوی، کرسیونگ کی پہاڑیوں میں رہتی ہے، جو شہر کی حفاظت کرتی ہے۔
اس کے ہاتھ کا چاۓ اب ٹھڈا ہوچُکا تھا اور اسے یہ بات تب پتہ چلی جب اس کا فون بجا۔ وہ واحد کا کال تھا۔
واحد: "تو بھئ۔۔ پہنچ کر انجؤۓ کر رہا ہے یا نہیں
اکرم: ہاں۔۔ بہت اچھا لگ رہا ہے، کافی سکون ہے یہاں۔
ان دونوں نے ہلکی پھلکی گفتگو کے بعد فون رکھ دیا۔ اب اسے بھی گھر کا خیال آیا۔
راستہ میں وہاں ایک پُل بھی آتا تھا۔ اکرم کو اس پُل کو پار کرنا بہت پسند تھا وہ بہت خوشی سے یہ کرتا، اسے وہ کسی چیلنج کہ طور پر لیتا۔ راستہ میں اسی طرح چلتے ہوۓ اس نے گاؤ کہ کئ سارے بچوں کو دیکھا جوکہ اسکول جارہے تھے۔ اس کے چہرے پر ایک مسکان آئ کیوں کہ جب وہ یہاں رہتا تھا تو اس نے گاؤ کے بچوں کہ ساتھ کھیلتے ہوۓعجیب و غریب واقعات سُنے تھے، جیسے کہ یہاں پہاڑوں میں کسی برطانوی خاتون روح تھی جو نیچے کی پہاڑیوں اور اس میں رہنے والے لوگوں کو ستاتی تھی، ایک لاوارث برطانوی دور کا بنگلہ جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ پریتوادت تھی، کرسیونگ ریلوے اسٹیشن پر سر کے بغیر بھوت گھومتے تھے۔ اور اس کے علاوہ ایک آبشار جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں شفا بخش خصوصیات موجود ہیں، جنگل کی گہرائی میں ایک پوشیدہ مندر جس میں خواہشات کو پورا کرنے کی افواہ پھیلی ہوئ تھی۔
وہ اب گھر پہنچ گیا تھا اور جاتے ہی اپنے بستر پر لیٹ کر سفر کی تھکان کو دور کرنے لگا۔ ابھی آدھا گھنٹا ہی ہوا تھا کہ جاوید نے اس کہ کمرے میں دخل کی۔
جاوید: تو کیسا گیا سفر؟
اکرم: تمہیں کیسے پتہ میں کہاں گیا تھا؟
وہ حیران تھا کیوں کہ یہ بات کسی کو بھی معلوم نا تھی۔
جاوید: اب تم نے کپڑے ہی ایسے پہنے ہے کہ صاف ظاہر ہو رہا ہے
اکرم: او۔۔اچھا۔
اس نے اسی طرح بستر پر لیٹے ہوۓ جواب دیا۔
جاوید: دراصل سبھی لوگ جائداد کی بات کرنے آۓ ہیں۔۔
وہ کپڑے تبدیل کر کہ آیا ہی تھا کہ یہ سُن کر اسے ہنسی آگی
اکرم: ہا۔۔ وہ تو مجھے پہلے ہی معلوم تھا۔ جب ابا نے بتایا کہ دادو کی طبیعت خراب ہے اور چچا کا فون آیا ہے، میں اسی وقت سمجھ گیا تھا کہ ایسا ہی کچھ ہونے والا ہوگا۔
جاوید: اب تو ایسا لگتا ہے کہ پورا ماحول تبدیل ہونے والا ہے۔
اکرم: انشاءاللہ جلد ہی۔
اس نے ٹیبل پر رکھا سیب اُٹھایا اور جوس لینے باہر نکلا۔ کچھ دیر میں جب وہ واپس آیا تو اس کے چہرے پر ایک عجیب جوش تھا
اکرم: کینیڈا سے زاہد چچا اور فیاض بھائ بھی آۓ ہوۓ ہے تو
جاوید: ہاں، شاید مسئلہ ذاتی طور پر ہوگا ان دونوں کا
زاہد اکرم کے سب سے بڑے چچا تھے اور فیاض زاہد کے داماد۔
اکرم: اب تو سبھی کو اللہ ہی بچا سکتا ہے۔
وہ دونوں سبھی کی ہنسی اُڑا رہے تھے کیوں کہ اس کے دوسرے چچا تو اپنا حصہ چھوڑنے والے نہیں تھے، اس کی پھوپھی یعنی زویا کی امی تو اپنا اور ساتھ میں دوسروں کا بھی حصہ لے لیتی، باقی دو پھوپھیاں بھی ایسی ہی تھی۔ چاچییاں تو خیر بنا جائداد چچا کو زندہ نہیں رہنے دیتی اور آخیر میں بچے زاہد چاچا جو کہ اپنے داماد فیاض کو لے کر آۓ تھے، جو کہ ایک وکیل تھا۔ اگر جائداد میں کسی کا حق چھین لیا جاتا تو وہ صرف اس کے اپنے والد اور سب سے چھوٹے چچا کا حصہ ہوتا کیوں کہ ایسے تو انسان کسی بھی چھوٹی چیز کے معاملے میں نہیں بخشتا اور بہرحال یہ تو جائداد کا معاملہ تھا۔
YOU ARE READING
خواب گاہ
Romanceمحبت ایسے ہی تھوڑی ہوجاتی ہے کبھی بھی انسان خود کر لیتا ہے اور کبھی بول بول کر کروا دی جاتی ہے۔ قدرت اس وقت تک کسی شخص کو کسی سے ٹکراتی رہتی ہے جب تک اسے وہ پسند نا آجاۓ۔ Mohobat aise hi thori ho jati hai kbhi insaan khud kr leta hai or kabhi bol b...