باب-۱۰

10 2 2
                                    

آج کالج کی چھٹی تھی اور واحد کام میں بیزی۔ وہ گھر پر ہی اپنے الماری میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔ کمرے کی حالت صاف ستھری تھی، وہ آخری دفعہ جیسے صاف کر کے گیا تھا سب کچھ ویسے کا ویسا تھا۔ اس نے کمرے میں داخل ہونے کی اجازت کسی کو نہیں دی تھی اور سبھی اس بات کی فرمانبرداری بھی کرتے تھے۔
اکرم ناشتہ کے بعد کتاب ڈھونڈنے کمرے سے نکل کر باہر آیا جب اس نے کچن سے نکتلے وقت بھابھی کے ہاتھوں کا رنگ دیکھا۔ وہاں اسے کچھ عجیب سا لگا تو اس نے آگے سے سوال کر لیا
اکرم: بھابھی۔۔ ہاتھوں کو کیا ہوا ہے؟
وحیدہ: ارے کچھ نہیں۔۔ بس تھوڑا سا جل گیا تھا۔ تم آۓ تھے نا کل رات پانی لینے، اسی کے بعد۔
اکرم: بھائ کہاں ہے؟ اور آپ آرام کرونا۔
انہوں نے نرمی سے جواب دیتے ہوۓ اپنے کمرے کی طرف قدم بڑھایا۔
وحیدہ: وہ۔۔ وہ تو کچھ ضروری پیپرز دیکھ رہے ہیں اس وقت۔
اکرم کے دوسرے جملہ کا جواب انہوں نے مسکراہٹ میں چھُپا لیا تھا۔ جیسے کہ وہ یا کوئ اور کیا ہی کرسکتا ہےاس چھوٹے سے بات کا۔
ابھی وہ صوفہ پر بیٹھا ہی تھا کہ اس کے ماں باپ کمرے سے نکل کر آۓ جو کہ رفیعہ کی مجبوری کا حل سوچ رہے تھے۔ وہ بھی صوفہ پر ہی بیٹھے، اکرم کے سامنے۔ وہ اس وقت بس خاموش تھا اور اپنے ماں باپ کی باتوں کوغور سے سُن رہا تھا جو کہ اس سے نہیں بلکہ آپس میں ہی بات کر رہے تھے۔
امی: اب کیا کرسکتے ہیں۔۔ میری تو کچھ سمجھ نہیں آرہا
عثمان: بس اب فیصلہ ہوگیا، تلاق کرواتے ہے' ورنہ اس طرح کب تک ہماری بچی سہتی رہے گی۔
اس کے والد کے آخری جملہ پر اکرم نے اپنے بند مُٹھی کو کھولا جوکہ غصہ میں تھا اور بس کھڑا ہوگیا۔
اکرم: ایسا ہی ہونا چاہئے۔ اب کسی اور کی بیٹی کو تکلیف دی ہے تو اپنی بیٹی پر بھی وہی آۓ گا نا۔

عثمان صاحب کو تو غصہ آگیا تھا یہ بات سن کر لیکن اس کی امی حیران تھی کہ وہ ایسے کیسے کہہ سکتا ہے۔ اس کے اس طرح بات کرنے پر سبھی اپنے اپنے کمرے سے باہر آگۓ تھے سواۓ رفیعہ کہ، وہ اپنے کمرے میں ہی تھی۔
عثمان: تم چینخو مت آرام سے بیٹھو اور ذرا سوچ سمجھ کر بات کرو۔
وہ نہایت سکون بھرے لہجے میں جواب دے رہی تھے۔
اکرم: آپ کو نظر نہیں آتا کہ بھابھی کا ہاتھ جل گیا ہے اور وہ پھر بھی پورے گھر کا کام کر رہی ہے۔
امی: بیٹا نوکرانی اس کے ساتھ ہی ہے۔
اکرم: اس سے کیا ہوتا ہے ویسے بھی اسلام میں عورت سے کام نہیں کرواتے انہیں تو بلند درجہ حاصل ہوتا ہے۔
عثمان: دماغ پھر گیا ہے تمہارا۔ تم کہنا کیا چاہتے ہو ہم کچن میں جاکر کھانا بناۓ اور باہر کا کام۔۔
اکرم: دونوں کی ذمداری مرد پر ہی ہوتی ہے۔
عثمان: تم کہنا کیا چاہتے ہو کہ ہم تکلیف دیتے ہیں اسے
اکرم: نہیں پر اگر آپ حکم دیں تو اچھا ہوتا۔ معروفہ سے کہہ دیں کہ وہ گھر کا زیادہ تر کام کیا کرے۔
جاوید: کیا ہوگیا ہے تمہیں یہ کس طرح کی باتیں کررہے ہو۔
بگڑتے ماحول کو دیکھ جاوید نے آگے بڑھ کر بات بدلنے کی کوشش کی۔ سبھی اس کے اس رویہ پر حیران تھے۔

اکرم: باتیں نہیں کررہا فیصلہ کررہا ہوں۔ اگر چاہتے ہیں کہ رفیعہ باجی اپنے سسرال میں زیادہ خوش رہے تو آپ لوگ بھی وحیدہ بھابھی کو اپنی مرضی کی کرنے دیا کریں۔
جاوید: تم تو ایسے کہہ رہے ہو جیسے ہم نے اسے قید کر رکھا ہے۔
اکرم: بھائی آپ تو بولیں کم سے کم۔ پچھلی بار بھی بھابھی کو ایلرجی تھی لیکن پھر بھی انہیں کام کرنا پڑا تھا۔
امی: تو تم کہہ رہے ہو کہ ہم ناانصافی کررہے ہیں۔

خواب گاہ Where stories live. Discover now