رات کے قریب اگیارہ بج کر پندرہ منٹ ہو رہے تھے فون کی آواز سن نے کے ساتھ صالحہ کی آنکھیں کھلی
صالحہ: ہاں! کون
الیشا: الیشا۔۔
اس کی آواز سنتے ہی صالحہ کی تو نیند ہی جیسے غائب ہو گئی تھی
صالحہ: تم۔۔ تمہاری تو میں اچھی طرح خبر لیتی اگر بیچ میں پروفیسر نہ آتی تو
الیشا: لے لینا لے لینا۔ لیکن آج کے بعد تم کسی کو اپنی خبر دینے لائق نہیں رہوگی۔ کالج میں کل دن کے وقت فنکشن ہے پورا کالج شامل ہوگا اس میں۔ میں وہاں تمہاری وہ والی فوٹوس پلے کروا دوں گی پروجیکٹر پر دیکھنا۔
صالحہ: آر یو میڈ اور واٹ۔۔ دیکھوں تم ایسا کچھ نہیں کروگی۔ ورنا۔۔۔ ورنا میں تمہارے گھر میں گھس کر تمہیں ماروں گی دیکھنا۔۔
الیشا: دیکھنا تو اب تم صالحہ گوڈ باۓ۔۔
صالحہ: الیشا۔۔۔ہلو۔۔ ہلو
اس کی یہ حرکت سے صالحہ کے گھر والوں کے سامنے اور کالج میں اسکی کیا ہی عزت رہ جاتی آخر کوئی اسے کس طرح کی سزا دے رہا ہے۔ تمام سوالات اس کے ذہن میں چل رہے تھے اور آنسو۔۔وہ تو روک ہی نہیں رہے تھے۔
رات بھر رونے کے بعد صالحہ نے صبح ساڑھے چھ بجے کے قریب ندا اور رابعہ کو فون کر کے پوری بات بتائ۔ انہیں بھی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا وہ لوگ اور زیادہ پریشان ہونے لگی۔
کافی دیر سوچنے سمجھنے کے بعد ندا نے رابعہ کو فون لگایا۔
ندا: رابعہ آواز آ رہی ہے؟
رابعہ: ہاں بولو کیا بات ہے
ندا: دیکھو میری بہن ناراض ہے اسلۓ میں کالج نہیں جا سکتی لیکن تم جا سکتی ہو ویسے بھی اس وقت تمہارے ابا باہر رہتے ہیں
رابعہ: لیکن امی غصہ ہوگی
ندا: ارے تو کہہ دینا نا کالج میں کچھ کام ہے یا کوئی بہانہ بنا دینا
رابعہ: اچھا ٹھیک ہے۔
ندا: ہاں تم بس جاکر کسی طرح فون ہی لے آؤ اس چڑیل کا
◇◇◇
جب دس بج چُکے تو صالحہ کو تھوڑی دیر کیلئے نیند آئ۔ کافی دیر سے اسکا فون بج رہا تھا اس لیے اس کی بھابھی نے آکر دیکھا۔
بھابھی: ہلو!
رابعہ: صالحہ ہے؟
بھابھی: وہ تو سو رہی ہے کچھ کام ہے تو کہہ دو میں بتا دونگی بعد میں۔۔
رابعہ: نہیں کچھ بس ایسے ہی
فون کٹ کر کے رابعہ جب کالج پہنچی تو فنکشن کی تیاری میں سینیرس مصروف تھے۔ ایک تیر کی طرح نظر دوڑائ تو سامنے واحد کھڑا تھا۔ اسنے کچھ دور سے ہی ہاتھ اٹھایا اور پھر اس تک آیا
واحد: ارے کل کیا ہوگیا تھا تمہارے گروپ کو۔۔ تم لوگوں کو تو نکال دیا ہے نا اس ہفتہ کے لیے؟
رابعہ: ہاں لیکن تمہیں اس سے کیا۔
واحد: ارے ناراض مت ہو میں نے تو ایسے ہی پوچھا تھا۔
واحد مسکراتے ہوئے واپس اپنی جگہ پر جا کھڑا ہوا۔ رابعہ کو بھی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اسے یاد تھا کہ آج ہی فنکشن ہے اور الیشا کے والد جج ہے تو وہ بھی آج کے مہمان ہوں گے۔ اور الیشا کو اپنی بات پوری کرنے کیلئے آنا ہی ہوگا لیکن وہ آۓگی تو دیر سے اور تب تک اسے نکال دیا جاۓگا تو پھر اسکا فون کیسے لے سکتی ہے۔ تمام سوالات ابھی اسے پریشان ہی کر رہے تھے کہ اس کی نظر پھر واحد پر پڑی وہ بھی سینیر کے ساتھ کچھ کام میں بزی تھا۔ رابعہ کے ذہن میں کچھ ہلچل ہوئ اور اسنے اپنی رکی قدم کو ایک بار پھر بڑھایا اس بار واحد کی طرف۔
رابعہ: ام۔۔واحد ایک منٹ کیلئے سائڈ میں آسکتے ہو۔۔۔ضروری بات تھی
واحد اور رابعہ کینٹین کے قریب ہی بات کرنے لگے۔ آس پاس کچھ ہی لوگ تھے جو باقیوں کی طرح کام میں مشغول تھے۔ رابعہ نے اسے ساری بات بتادی اور پھر مدد کا اظہار کیا۔ کچھ دیر کے لیے واحد خاموش رہا پھر اسنے ہاں کہہ دیا
واحد: تم سب فکر نہ کرو میں اور اکرم کرتے ہیں کچھ
YOU ARE READING
خواب گاہ
Romanceمحبت ایسے ہی تھوڑی ہوجاتی ہے کبھی بھی انسان خود کر لیتا ہے اور کبھی بول بول کر کروا دی جاتی ہے۔ قدرت اس وقت تک کسی شخص کو کسی سے ٹکراتی رہتی ہے جب تک اسے وہ پسند نا آجاۓ۔ Mohobat aise hi thori ho jati hai kbhi insaan khud kr leta hai or kabhi bol b...