منہ میں پین کو چباتے ہوۓ اس کی نظر ندا پر گئ تھی جو نوٹس لکھنے میں مصروف تھی۔ اس نے خود بھی یہ پہلی بار کیا تھا۔ آج کا دن ویسے تو کچھ خاص نہیں تھا لیکن واحد کا ندا کو اس طرح دیکھنا اس دن کو خاص بنا رہا تھا۔ اس کے ہلکے جوڑے سے دوپٹہ لٹک رہا تھا جیسے وہ جوڑا اس کے دوپٹہ کا بھار سنبھال رہا ہو۔ کہنی تک آستین تھی۔ کلائ پر گھڑی اس کے مصروفیات کی علامت تھی۔ اسے کلاس ختم ہونے کی جلدی تھی اس لۓ اپنے پاؤں کہ پنجوں کو وہ حرکت دے رہی تھی۔ عام لڑکیوں کی طرح اس کے بال اس کے چہرے کو نہیں چھو رہے تھے۔ میک اپ' وہ تو اس نے کیا ہی نہیں تھا۔
"ویسے تو آپ سبھی کی بیسک اسٹڈی مکمل ہوگئ ہے پر پھر بھی آج میں واضح طور پر ریوائز کروا رہی ہوں۔ بزنس اسٹڈیز ایک وسیع مضمون ہے، جہاں موضوعات کی حد طالب علم کو کاروبار چلانے کے مختلف عناصر کا عمومی جائزہ دینے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔
بزنس اسٹڈیز، جسے اکثر محض کاروبار کہا جاتا ہے، مطالعہ کا ایک شعبہ ہے جو کاروبار، نظم و نسق اور معاشیات کے اصولوں سے متعلق ہے۔ یہ اکاؤنٹنسی، فنانس، مارکیٹنگ، تنظیمی مطالعات، انسانی وسائل کے انتظام، اور آپریشنز کے عناصر کو یکجا کرتا ہے۔ کاروباری ڈگری کا انتخاب آپ کو بنیادی معاشی اصولوں، عالمی واقعات سے مارکیٹس کس طرح متاثر ہوتے ہیں، اور کسی فرم کی مالی صحت کا اندازہ لگانے کے بارے میں اچھی طرح سمجھے گا۔
بزنس اسٹڈیز کے مضمون کا استعمال کرتے ہوئے ملازمتوں کا انتخاب
بینک منیجر۔
کاروباری تجزیہ کار۔
بزنس ڈویلپمنٹ مینیجر۔
بزنس پروجیکٹ مینیجر۔
کسٹمر سروسز مینیجر۔
ڈیجیٹل مارکیٹر۔
اسٹیٹ ایجنٹ۔
مالیاتی مشیر۔"
پروفیسر عافیہ کی آواز سبھی کو متوجہ کررہی تھی۔ اکرم اپنی نظر سنبھال نہیں پا رہا تھا وہ زیادہ پروفیسر عافیہ کی طرف دیکھتا پر کبھی بھی اس کی نظریں ندا کے بینچ پر اس کی بغل والی سیٹ پر چلی جاتی، جہاں آج کوئ اور لڑکی بیٹھی تھی۔
"اگر آپ کا کوئی سوال ہے تو آپ مجھ سے پوچھ سکتے ہیں.. اس لیے اب جب سب ٹھیک ہیں تو میں آج کا کلاس یہی مکمل کر دیتی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ آپ سب اپنی پڑھائی میں بہترین کرے۔" اپنا جملہ مکمل کر کے انہوں نے اپنا پرس اٹھایا اور چلی گئی۔
جب وہ چلی گئی تو ہر کوئی سکون محسوس کررہا تھا۔ آج کا دن اسی طرح اکرم کی بےچینی کے ساتھ گزرا۔ آخری کلاس کے ختم ہونے سے کچھ دیر پہلے ہی اکرم نے اپنا صبر توڑا اور بالآخر سوال کرلیا۔
اکرم: آج اس کی وہ دوست کہاں ہے۔۔ ایسے تو بہت نظر آتی رہتی ہے؟
واحد: تمہارے وجہ سے ہی تو وہ کالج نہیں آرہی ہے
واحد کے الفاظ نے اکرم کو سوچ میں ڈال دیا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کے وہ حرکت کا ردعمل ایسا ہوگا۔ وہ وہی کلاس کہ دوران خاموشی سے ساکن بیٹھا رہا۔
◇◇◇
صالحہ جب کچن کے کام سے فارغ ہوئی تو اس نے گھر کے سارے کھڑکی دروازے بند کۓ، وہ فرج سے کولڈ ڈرینک کی بوتل نکالتے ہوۓ اپنے کمرے میں داخل ہوئ اور کھڑکی دروازے بند کرکے فون لے کر بیٹھی۔
اس کا کمرہ چھوٹا تھا پر خوبصورتی سے سجایا ہوا تھا۔ کمرے کی شروعات میں کچھ نہیں تھا پر دو قدم چلنے پر ایک لکڑی کی بنی ٹوکری تھی جس میں دھونے کیلئے کچھ کپڑے موجود تھے۔ پھر چھوٹا سا ڈرو رکھا تھا۔ اس پر ایک سفید رنگ کا گلدان جس میں گلابی رنگ کہ چیری بلوسم کے پھول موجود تھے۔ اس پھول کا دوسرا نام ساکورا بھی ہے۔ ساکورا کے معنی متضاد ہوتا ہے۔ یہ زندگی اور موت، خوبصورتی اور تشدد دونوں کی علامت ہے۔ جیسا کہ موسم بہار کی آمد نئی زندگی کا وعدہ کرتی ہے، اسی طرح چیری کے پھولوں کا کھلنا زندگانی اور متحرک ہونے کا احساس لاتا ہے۔ ایک ہی وقت میں، ان کی مختصر عمر ایک یاد دہانی ہے کہ زندگی عارضی ہے.
اس کے بعد لگاتار تین شیلف موجود تھے جن پر کچھ مختلف چیزیں سجی تھی۔ اسی کے قریب دیوار پر دو میکریم تھے۔ پہلے میکریم کے بعد ایک فریم تھا جس پر کیلیگرافی کرکے صالحہ کا نام تھا اور اسی کے بعد والے دیوار پر ایک اور میکریم۔
یہ میکریم دیوار پیچیدگی، تفصیلی، اور ساخت کے ساتھ لٹکی ہوئی تھی جو کسی بھی کمرے میں توجہ کا باعث بن سکتی تھی۔ ایک ٹیکسٹائل یا مختلف سجاوٹ تیار کرنے کا طریقہ جو بنیادی شکل بنانے کے لیے کئی قسم کی گرہیں استعمال کرتا ہے۔ شخصیت کو شامل کرنے اور کسی کے گھر کو سجانے کا یہ ایک آسان اور سستا طریقہ ہے۔ مختلف قسم کی گرہوں کو یکجا کرنے کے لامحدود طریقے سے، ہم جمالیاتی اور فنکشنل دونوں طرح کے ٹکڑے بنا سکتے ہیں۔ ایک میکریم بورڈ کو عام طور پر یا تو لکڑی کے فریم پر باندھا جاتا ہے یا چھت سے لٹکایا جاتا ہے۔
میکریم بغیر کسی اوزار کے، صرف ہمارے ہاتھوں کا استعمال کرکے
تیار کیا جاسکتا ہے۔ کمرے میں دیوار کا رنگ ہزار سالہ گلابی (میلینل گلابی) تھا جسے سنہرے رنگ کی ٹیونی لائٹس حسین بنا رہی تھی۔ اسی کے ٹھیک نیچے اس کا بستر جس پر اس وقت دیوار کے رنگ کی ہی بیٹ شیٹ تھی۔ اور آخر میں کھڑکی جس پر سفید رنگ کا پردہ لگا تھا۔
اپنے فون میں مصروف اسے اچانک احساس ہوا کہ کوئ اس کے کھڑکی کے قریب تھا۔ کچھ عجیب سی آواز نے اس کی دل کی دھڑکن کو تیز کردیا تھا۔
صالحہ: لگتا ہے کوئ ہے۔۔۔۔ کون ہوگا۔۔ چور ہوگا۔۔
وہ اپنے آپ میں بڑبڑا ہی رہی تھی کہ کھڑکی پر کسی کی آہٹ نے اسے حیران کر دیا تھا۔ پہلے تو وہ گھبرائی لیکن ہمت کرتے ہوۓ اسنے تحمل سے کام لیا۔
صالحہ: آج تو چور کو پکڑواکر شاباشی بٹورنی ہے۔
وہ اپنے میں ہی خوش ہو رہی تھی۔ اس نے بستر کے نیچے سے ایک لوہے کا روڈ نکالا اور ہمت کرتے ہوۓ آگے بڑھی۔ وہ روڈ زیادہ بڑی تو نہیں تھی پر جتنی تھی اتنی کافی تھی۔ آہستہ سے کھڑکی کھول کر اس نے ایک رفتار سے روڈ چلایا۔ کوئ تو تھا۔
"ابے" کسی کے گرنے کی آواز پر صالحہ کو سکون آیا اور اس نے نیچے کی جانب دیکھا۔
وہاں نیچے کوئ سویا ہوا تھا جیسے ابھی ابھی گرا ہو۔ اندھیرے کہ وجہ سے کچھ سمجھ تو نہیں آرہا تھا پر غور کرنے پر اسے معلوم ہوا کہ وہ کوئ اور نہیں بلکہ اکرم تھا۔
صالحہ: اکرم۔۔ یہ یہاں کیا کر رہا ہے۔۔ اُف!
اس نے جلدی جلدی اوپر کی جانب سے ہی بوتل سے پانی پھینکنا شروع کیا۔ وہ پریشان بھی تھی اور فکرمند بھی۔ تقریبً آدھے ایک گھنٹے بعد اس نے آنکھیں کھولی۔
صالحہ: کیا تم مجھے دیکھ سکتے ہو۔۔ یار پلز اب ہوش میں آجاؤ۔۔ ویسے تم یہاں کیا کر رہے ہو
آنکھوں کے سامنے دھندلاپن سا تھا اور ابھی سہی سے کچھ ہوش بھی نہیں آیا تھا جب اس نے اپنے سامنے صالحہ کو دیکھا۔ وہ کچھ پریشان لگ رہی تھی۔ اوپر سے آنے والی آواز دھیمی تھی پر پھر بھی اس کے کانوں میں لگ رہی تھی۔ کچھ منٹ گزر نے کہ بعد اس نے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کی تو ایک دو بار گرا لیکن پھر لڑکھڑاتے ہوۓ آخر مکمل طور پر ہوش میں آیا۔
اکرم: تم کالج میری وجہ سے نہیں آرہی ہو کیا؟
صالحہ نے اس سے اس بات کی توقع نہیں کی تھی۔
صالحہ: تم۔۔ تم یہاں اس وقت یہ پوچھنے آۓ ہو۔۔
اکرم: ارے بتاؤ تو سہی!
اس کے معصوم لہجہ اور اس فکرمندی بھرے انداز پر صالحہ کو اس وقت اس پر غصہ بھی آرہا تھا اور ہمدردی بھی۔
صالحہ: نہیں۔۔ نہیں۔۔ اچھا اب تم واپس چلے جاؤ۔
اکرم: لیکن۔۔
صالحہ: میں کل آکر بتاتی ہوں۔۔ کل ہاں کالج میں۔
اس جواب سے وہ مطمئین ہوا تھا اس لۓ واپس جانے لگا۔ اسے آگے جاتا دیکھ صالحہ کو بھی سکون محسوس ہوا۔ اکرم کبھی چلتے چلتے گرتا اور پھر اُٹھ کر چلتا۔
◇◇◇
صبح نو بجے تک صالحہ ہر روز کی طرح تیار ہوکر کالج کیلئے نکلی۔ آج وہ کالج گاڑی میں جانے والی تھی لیکن اس کے چہرے پر مسکان نہیں بس ایک ہلکی مسکراہٹ تھی جو کہ کبھی آتی اور کبھی
نہیں۔
اس نے داخل ہوتے ہی اپنی نظریں دوڑائی جو کہ اکرم پر جاکر رُکی۔ وہ اس وقت لائبریری کے باہر کھڑا کسی کتاب کو دیکھ رہا تھا۔ وہ اس کی طرف بڑھی
صالحہ: کیا کر رہے تھے کل تم۔۔ ہاں؟
اتنے غصہ بھرے سوال کا جواب اس نے نرمی سے دیا۔
اکرم: میں تو بس پوچھنے گیا تھا۔ واحد نے ہی تو بتایا تھا مُجھے۔
صالحہ کو اچانک اس کی اور ندا کی بات چیت یاد آئی۔ وہ اب بس اسے غصہ سے گھوُر کر دیکھ رہی تھی کہ ندا اور واحد نظر آۓ۔ انہوں نے کلاس میں چلنے کا پوچھا اور خود آگے بڑھ گۓ۔
○○○
صالحہ: تم نے اور کیا کیا بولا ہوا ہے ان دونوں کو۔۔ میرے نہیں آنے کے بارے میں؟
ندا: بتایا تو تھا۔
وہ دونوں اس وقت کلاس میں بیٹھی آہستگی سے باتیں کر رہی تھی۔ انہی کے بعد والے بینچ پر وہ دونوں بھی بیٹھے تھے جو انکی باتوں سے انجان بورڈ پر دیکھ رہے تھے۔
پروفیسر جلال: مارکیٹنگ کاروبار کا وہ شعبہ ہے جو کاروباری اہداف کو صارفین کی ضروریات کے ساتھ جوڑتا ہے۔
مارکیٹنگ کے چار حصے پروڈکٹ، قیمت، جگہ اور پروموشن ہیں۔
مارکیٹنگ کی اقسام میں مواد کی مارکیٹنگ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ای میل مارکیٹنگ، گوریلا مارکیٹنگ، ان باؤنڈ/ آؤٹ باؤنڈ مارکیٹنگ شامل ہیں۔
جب ان کی بات مکمل ہوگئ تو انہوں نے کلاس ختم کرنے سے پہلے سبھی کو امتحان کا سمجھایا اور چلے گۓ۔
○○○
کینٹین میں وہ لوگ کھاتے ہوۓ فضول کی باتیں کر رہے تھے کہ اچانک صالحہ نے دوبارہ اپنے صبح والے سوال کو دہرایا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کا کیا ردعمل ہوگا۔
واحد: تم صالحہ کے گھر گۓ تھے؟
ندا: اور وہ بھی کل رات کو؟
سبھی حیران تھے۔ صالحہ کے بغل میں رابعہ بیٹھی تھی پھر اکرم اور سامنے والی کرسی پر ندا اور واحد اسی کے ٹھیک درمیان میں ٹیبل جس پر دو ٹیفین کے باکس اور تین پانی کی بوتلوں کے ساتھ کچھ پھل رکھے تھے۔
اکرم: ہمارا چھوڑو۔۔ تم اپنا بتاؤ، تم دونوں آج کل زیادہ ساتھ نظر آتے ہو۔ کچھ چل رہا ہے کیا تم دونوں کا؟
اس نے موضوع ہی تبدیل کردی۔ اس کے اس سوال پر صالحہ نے سیدھا ندا کی آنکھوں میں دیکھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ندا کا چہرہ گلابی ہونے لگا، اکرم ابھی بھی جواب کے انتظار میں خاموش بیٹھا تھا جب واحد نے یہ خاموشی توڑی۔
واحد: دراصل میں اور ندا ڈیٹ کرنے کی سوچ رہے ہیں ابھی۔۔
اکرم: او آئ سی۔
ہلکی سی گفتگو کے بعد سبھی واپس کلاس کی طرف روانہ ہوئے۔
◇◇◇
آج وہ اپنے گھر میں آیا تھا۔ اکرم اپنے گھر میں نہیں بلکہ واحد کے ساتھ ہوسٹل میں رہتا تھا اپنے گھروالوں کی وجہ سے۔ اکرم کھانے کہ ٹیبل پر بیٹھے سبھی کی گفتگو کو نظرانداز کررہا تھا۔
عثمان: ارے اب تم بھی بتا دو کہ کیا کرنا ہے۔
ان کے جوابیہ سوال پر اکرم نے اچانک غور کیا، وہ اسی سے کہہ رہے تھے اور باقی افراد اس کی طرف نظر ٹکاۓ جواب کا انتظار۔
اکرم: لیکن کس بارے میں؟
وہ اچانک کنفیوز ہوا۔
عثمان: لو بھئ سمجھاؤ اب!
جاوید: ابا کا مطلب تمہارے کام سے ہے۔ تم کب تک اس طرح دور ہوسٹل میں۔۔
امی: مطلب بیٹا پڑھائ کے بعد کیا سوچا ہے تم نے۔ اپنے ابا اور بھائ کے ساتھ ہی کاروبار دیکھتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔
اس کے بڑے بھائ کے جملہ پر اس کی امی نے پردہ کرتے ہوۓ بات سمجھایا۔ وہ کچھ دیر خاموش رہا۔
اکرم: میں نے ابھی تک کچھ خاص پلین نہیں کیا ہے۔
عثمان: تو اب کب کرنے کا ارادہ ہے۔
وہ اس بات پر کھانا ختم کۓ بغیر ہی اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
عثمان: بس بات کرو تو خفا ہوجاتا ہے۔۔ جیسے اس کی محبوبہ کہ بارے میں پوچھ لیا ہو۔
سبھی کو ہنسی آئ اور انہوں نے اسی کے ساتھ اپنا اپنا کھانا مکمل کیا۔ کچھ ہی دیر میں سب سونے چلے گۓ۔
○○○
پانی لینے کیلئے جب وہ کچن میں داخل ہوا تو وحیدہ بھابھی کچھ بنا رہی تھی۔
اکرم: بھابھی آپ۔۔ بھائ کہاں ہے؟
وحیدہ: تمہارے بھائ کے بچوں کو نا کبھی بھی بھوک لگ سکتی ہے۔
اس نے فریج سے بوتل نکالتے ہوۓ اپنے کمرے کی طرف قدم بڑھایا۔ اس وقت بھی ابا جاگ رہے تھے، کچھ کاغذات دیکھ رہے تھے اور شہباز چھت سے نیچے آرہا تھا۔ ایک آواز آئی، کچھ گرنے کی تھی۔
اکرم: کوئ ہے کیا معروفہ کے ساتھ؟
عثمان: وہ۔۔ رفیعہ آئ ہوئ ہے۔
اکرم: کیا۔۔ ابھی لاسٹ ویک پر ہی تو گئ تھی وہ۔
عثمان: ہاں وہی تو۔۔ پتہ نہیں کیا ہی سوجھی تھی ہمیں۔۔ نا جانے اپنی بیٹی کی شادی کس منحوس گھر میں کروادی۔
اکرم خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔ ہاتھ میں پانی کا بوتل لۓ اسے بہت شرمندگی محسوس ہورہی تھی، کیسے نا ہوتی بھائ جو تھا۔ چار ماہ میں یہ لے کر نو بار آگئ تھی اس کی بہن سسرال والوں سے تنگ آکر۔ بڑے عجیب قسم کے لوگ ہے وہ، اسے خود بھی وہ لوگ پسند نہیں تھے پر پھوپھی نے رشتہ دیکھا تھا تو کر بھی کیا سکتا تھا کوئ۔
YOU ARE READING
خواب گاہ
Romanceمحبت ایسے ہی تھوڑی ہوجاتی ہے کبھی بھی انسان خود کر لیتا ہے اور کبھی بول بول کر کروا دی جاتی ہے۔ قدرت اس وقت تک کسی شخص کو کسی سے ٹکراتی رہتی ہے جب تک اسے وہ پسند نا آجاۓ۔ Mohobat aise hi thori ho jati hai kbhi insaan khud kr leta hai or kabhi bol b...