گھر کا ماحول آج کچھ الگ سا لگ رہا تھا۔ دن بھر قطعی لمبی خاموشی رہی لیکن رات کہ وقت کھانے کے ٹیبل پر سبھی کو خاموش دیکھ رہی صالحہ نے خود ہی بولنا شروع کیا۔
صالحہ: پتہ ہے ہماری کلاسیس بہت لمبی اور نہایت بورنگ ہوتی ہے
عبداللہ: ہاں سمجھ سکتا ہوں۔۔ میری بھی ہوتی ہے۔
صالحہ: لیکن تمہارا اسکول ہے میرا کالج اس لۓ میری کلاسیس زیادہ بورنگ رہتی ہے۔
عبداللہ: وہ تو ہے لیکن میری زیادہ بورنگ رہتی ہے کیوں کہ ٹیچرز بہت سخت ہوتے ہیں۔
صالحہ: ارے لیکن میں بڑی ہوں اور میرا درجہ تم سے بڑا ہے اس لئے میری کلاسیس۔۔
عبداللہ: ہاں لیکن میری کلاسیس بھی۔۔
ابا: ارے چُپ! ایک دم خاموشی سے کھانا ختم کرو اور اپنے اپنے کمرے میں جاؤ۔
آج ان کے والد کا لہجہ ذرا سخت تھا۔ سبھی نے خاموشی سے کھانا ختم کر کہ اپنے کمرے کا رُخ لیا۔
جب وہ اپنے بستر پر لیٹی تو اسے یاد آیا کہ اس کے کسی ڈرامہ کا آخری ایپیسوڈ باقی ہے۔ فون نکالیں وہ دیکھنے بیٹھی تھی۔
دس سے پندرہ منٹ بعد ہی کسی نے اس کے کمرے کا دروازہ پیٹا۔
صالحہ: ایک منٹ۔
کمرے کا حال دیکھتے ہوۓ اس نے پہلے تھوڑا سا دروازہ کھولا، دیکھا تو سامنے بھابھی کھڑی تھی۔
بھابھی: اَ۔۔ صالحہ کیا میں آج تمہارے ساتھ سوسکتی ہوں؟
صالحہ: ہاں کیوں نہیں۔ آئیں
اس نے انہیں اندر بولاتے ہوۓ دروازہ پھر بند کردیا۔ اپنے ساتھ ساتھ اس نے بھابھی کو بھی سیریل میں مصروف کردیا تھا۔ کچھ ہی لمحہ میں وہ دونوں چیپس، کیک اور کوکیس کا لطف اُٹھا رہی تھی۔ دیر رات تک ڈرامہ دیکھنے کے بعد وہ دونوں ہنسی مزاق اور بات چیت کرتی ہوئ سو گئ۔
◇◇◇
صبح اس کی آنکھ شوروغل سے کھلی۔ اُٹھ کر دیکھا تو پورا گھر بِکھرا پڑا تھا۔ اس کے بغل سے ہی بہت سارے کپڑے وغیرہ نظر آتے وہ خود بھی کئ سارے کپڑوں کے نیچے دبا ہوا تھا۔ کچن سے برتن گرنے اور ہلچل کی آوازیں آرہی تھی جیسے کوئ جلدبازی میں کچھ کررہا ہو۔
اکرم: تم کیا کر رہے ہو اتنی صبح!
اس نے آنکھوں مو ملتے ہوۓ کہا۔ اس کا حلیہ کافی گندا دیکھ رہا تھا جیسے ابھی تک نہایا نا ہو۔
واحد: آج تو پےمینٹ آنے والی ہے نا
اکرم: تو؟
ابھی اس نے اپنی آنکھیں مکمل طور پر کھولی بھی نہیں تھی۔ وہ ابھی تک بستر پر یوں ہی لیٹا تھا۔
واحد: تو کیا۔ سوچ رہا ہوں کہ ندا کیلئے کچھ تحفۂ لے لوں
اکرم: او بھئ! تم کیا ابھی سے ہی سب کچھ لوٹا دوگے اس پر۔
واحد باربارکچن میں آتا اورجاتا ساتھ ہی اپنےالماری میں کچھ دیکھتا بھی
واحد: میں نے ناشتہ بنا دیا ہے اور نہانے جارہا ہوں پریشان مت کرنا مجھے آج وقت لگےگا اور۔۔ اُٹھ جاؤ تمہیں میرے ساتھ باہر جانا ہے۔
اپنی بات مکمل کرکے وہ غسل کرنے چلا گیا۔ کچھ دیر اسی طرح بیڈ پر بیٹھنے کے بعد اس نے اپنی چادر ہٹائ اس کے اوپر پڑے کپڑے ہٹاتے ہوۓ کچن میں گیا اور بغیر منہ دھوۓ ہی کھانا نکال کر کھانے لگا۔
جب دونوں غسل سے فارغ ہوۓ اور تیار ہوگۓ تو بھی واحد آئینہ کے سامنے کھاڑا رہا۔
اکرم: ہوگیا اتنا کافی ہے۔۔ اور کتنا بالوں پر ظلم کرنا ہے باقی ندا کیلئے چھوڑ دیں وہ آۓ گی تو کھینچ کر نکال دے گی۔
○○○
وہ لوگ وہسے تو بہت بار مارکیٹ گۓ تھے اور اچھی طرح دیکھا بھی تھا لیکن آج کی بات مختلف تھی۔ آج انہیں ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ پہلی بار آۓ ہو۔ لڑکیوں کیلئے طرح طرح کی چیزیں اور اتنے سارے سامان تو انہوں نے پہلی بار ہی دیکھا تھا۔ انہیں اندازہ بھی نہیں تھا کہ دنیا اتنی آگے پہنچ گئ ہے۔
وہاں کا ماحول عام بازار ہی کی طرح تھا لیکن فرق صرف اتنا تھا کہ سبزیوں کی جگہ سجاوٹ کا سامان تھا۔ فضا خوشی کے لمحات سے معمور تھی۔ رنگ برنگے غبارے اور اسٹریمرز بازار کی زینت بناۓ ہوۓ تھے۔ ہوا پرفیوم، بیکڈ کیک اور کوکیز کی میٹھی خوشبو سے بھری ہوئی تھی جو بھوک کا احساس فراہم کروارہی تھی۔ ہر عمر کی لڑکیاں اور خواتین ایک ساتھ گپ شپ کرتے، ہنستے اور خریداری کرتے نظر آ رہی تھی جس سے محبت بھرا اور معاون ماحول پیدا ہوتا تھا۔ مرد بھی تھے کئ سارے، کچھ لڑکیوں کے ساتھ اور کچھ ان کے پیچھے کھڑے۔ نوعمر لڑکیاں ہنس رہی تھی اور کپڑوں اور لوازمات کو آزما رہی تھی۔ نوجوان خواتین میک اپ اور سکن کیئر پروڈکٹس کو براؤز کررہی تھی۔ ماں اور بیٹیاں ایک ساتھ شاپنگ کررہی دیکھ رہی تھی جوکہ ایک بانڈنگ لمحے کا اشتراک کر رہا تھا۔ دوست ایک دوسرے سے ملتے جلتے، دعوتوں اور خریداری سے لطف اندوز ہوتے۔ مشورے، سفارش اور سجیلا ٹپس، میک اپ ٹرائل، ہیئر بریڈنگ اور نیل آرٹ جیسی ذاتی خدمات پیش کرنے والے دوستانہ فروش بھی موجود تھے۔ دکاندار اپنی مصنوعات کے پیچھے کہانیاں اور الہام کا اشتراک کررہے تھے۔ یہاں دلکش اسٹالز تھے۔
وہ دونوں بھی اسی طرح آگے بڑھے اور یہاں وہاں کچھ کچھ دیکھنے لگے۔
اکرم واحد کے ساتھ بازار میں جاتے ہوئے بے چین تھا۔ اس نے پہلے کبھی لڑکیوں والی چیزیں نہیں لی اور وہ اپنے عناصر سے باہر محسوس کررہا تھا۔ وہ صرف اس لیے یہاں تھا کیونکہ واحد نے اسے ندا کے لیے تحفہ لینے میں مدد کرنے پر راضی کیا تھا۔
جب وہ سٹالز کو براؤز کرتے، اکرم ہچکچاتا، اس بات کو نہیں جانتا تھا کہ کیا انتخاب کرنا ہوگا۔ وہ لرزتے کپڑوں اور چمکدار لوازمات میں گھرے ہوئے شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔ اس نے واحد سے سرگوشی کی
اکرم: یار، مجھے نہیں معلوم کہ ہم یہاں کیا کر رہے ہیں۔ کیا ہم اسے صرف ایک ویڈیو گیم یا کچھ اور نہیں دےسکتے؟
دوسری طرف، واحد شرارت سے مسکرا رہا تھا جب وہ اکرم کو بازار میں گھسیٹ رہا تھا۔ وہ اس نئے علاقے کو تلاش کرنے اور ندا کے لیے بہترین تحفہ تلاش کرنے کے لیے پرجوش تھا۔ وہ ہمیشہ خریداری کے دوسرے پہلو کے بارے میں متجسس رہتا اور اسے ایک مہم جوئی کے طور پر دیکھتا۔
جب وہ سٹالوں کو دیکھ رہے تھے، واحد نے جوش و خروش سے اشیاء اٹھائیں اور اکرم سے اس کی رائے پوچھی۔ وہ چمکدار ٹائرے پر آزماتا، اکرم کو ہنساتا۔ وہ ایک چمکدار جامنی رنگ کی موم بتی خریدنے پر اصرار کررہا تھا کیونکہ 'ندا کو وہ پسند آتا'۔ واحد کی توانائی متعدی تھی اور اکرم خود کو اس تجربے سے لطف اندوز ہوتے محسوس کر رہا تھا۔
آخر کار انہیں کچھ اچھا مل گیا۔ سب سے پہلے اس نے ایک پیارا لباس خریدا، اور مماثل بالیاں۔ ان کے لیے مماثل بالیاں اور دیگر لوازمات تلاش کرنا بہت مشکل تھا کیوں کہ انہیں پہلے کبھی ان چیزوں کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ چوڑیاں، چاکلیٹ اور آخر میں پھول۔
بازار سے واپسی پر انہوں نے جنک فوڈ کھایا، اور سارے راستے وہ صرف ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے رہے جبکہ وہ دونوں جانتے تھے کہ وہ عجیب لگ رہے تھے۔
◇◇◇
آج کا دن اس کیلئے کیسا گزنے والا تھا اسے خود بھی معلوم نہیں تھا۔ کینٹین میں بیٹھے ندا نوٹس بنا رہی تھی اور وہ اس کے نوٹس کی کاپی کررہی تھی۔ آج اگر وہ دونوں دیر سے آۓ تھے تو واحد کی وجہ سے، اسی کے سجنے سنورنے میں کچھ زیادہ وقت لگاتھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگی جب ان کی نظر اکرم اور واحد پر گئ۔ وہ کافی حد تک صاف اور حسین دکھائ دے رہےتھے۔ ہلکے نیلے رنگ کی شرٹ میں ملبوس۔ اس کہ ہاتھوں میں کچھ تھا، جوکہ کسی پیکِٹ جیسا تھا۔
وہ دونوں ان کے پاس والی کرسی پر آکر بیٹھے، واحد نے جوش کے ساتھ وہ پیکِٹ ندا کو دیا لیکن جلدبازی میں پھول اور چاکلیٹ کا ڈبہ اکرم کے ہاتھوں میں ہی رہ گیا۔ انہوں نے ہڑبڑاتے ہوۓ اس کا تبادلہ کیا۔
ندا کی خوشی کی کوئ حد نا رہی وہ تو بس شرماتے اور مسکراتے رہ گئ لیکن صالحہ نے خوشی کا اظہار زوردار چینخ سے کیا اور اسی وقت وہاں بیٹھے تمام لوگ' جن میں کچھ اسٹوڈنٹس کے ساتھ دوسرے اسٹاف بھی شامل تھے سبھی کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا۔
اکرم تو بس اس کے اس انداز کو دیکھ کر حیران تھا۔ اتنا تو خود ندا بھی خوش نہیں ہوئ تھی جتنا صالحہ ہورہی تھی، جیسے اس کی کوئ خواہش پوری ہوئی ہو۔ اس کی آنکھیں بڑی ہوگئ تھی جوکہ پُرجوش انداز میں ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ واحد کے منہ سے نکلنے والے ہر الفاظ اور ندا کی ہر چھُپتی مسکراہٹ پر وہ ضرورت سے زیادہ خوش اور مطمئن نظر آرہی تھی۔
اس کی آنکھیں جوش و خروش کے ساتھ پھیل جاتی۔ ہیروں کی طرح چمکتی جب وہ اسے رومانوی لمحے میں لیتی۔ ایک چمکیلی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل رہی تھی جو کہ اپنی دوست کے لیے حقیقی خوشی کا اظہار کررہی تھی۔ اس کے گال نرم گلابی رنگت سے چمکتے، جو اس کی خوشی اور گرم جوشی کی نشاندہی کررہے تھے۔ آنکھیں خوشی کے آنسوؤں کے ساتھ اچھی طرح سے پھیلی ہوئ جیسے جب وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی تو وہ بہنے کی دھمکی دے رہے ہو۔ وہ جوش و خروش سے اونچی آوازیں نکال رہی تھی۔ تالیاں بجارہی تھی۔ جیسے دعا میں ہو، اس خاص لمحے کا مشاہدہ کرنے پر اظہار تشکر کررہی ہو۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا دل ضرور اوپر نیچے اُچھلتا ہوگا۔ جیسے تہوار پر کسی بچے کا ہوتا ہے۔ اس کے پورے چہرہ پر خوشی کی لہر دوڑتی، سورج کی کرن کی طرح چمکتی، جو اس کے آس پاس کے لوگوں سے متعدی تھی۔
اس لمحہ کو اکرم نے اپنے ذہن میں کسی خاص تصویر کی طرح سمبھال لیا تھا۔
◇◇◇
اس کے گھر میں داخل ہوتے ہی پورا گھر خاموش ہوگیا تھا جیسے اچانک سب کو اپنا اپنا کام یاد آیا ہو۔ وہ تو خیر اس بات کی پرواہ ویسے بھی نہیں کرنے والی تھی۔
کھانا کھاتے ہوۓ ٹیبل پر اس کی مسکان ابُھر رہی تھی کہ اچانک گھر میں ذاکر بھائ اور بھابھی داخل ہوۓ۔ اسے صبح سے اس بات کا بھی اندازہ نہیں ہوا تھا کہ وہ دونوں آج گھر پر نہیں تھے۔
صالحہ: امی کیا ہوا ہے؟
بھابھی کو سیدھا کمرے میں اور ذاکر کو چھت پر جاتے دیکھ اس نے اپنی ماں سے پوچھا۔ انہوں نے فلہال تو بات ٹال دی لیکن کھانے کے بعد خود اپنی بہو کے کمرے میں جاکر بات کی اور واپس اپنے کمرے میں سونے چلی گئ۔
آج کا دن بہتر نہیں بلکہ بہترین تھا۔ اس نے واحد اور اکرم کے جانے کے بعد ندا کے ساتھ وہی پارک میں جاکر سارے تحفہ کھولے تھے۔ وہ سب لاجواب تھا۔ ندا کو تو اس بات کی اُمید بھی نہیں تھی۔ خود صالحہ نے بھی تصور نہیں کیا تھا کہ واحد یہ کرےگا، وہ بھی اُس اکرم کا دوست۔ حیرانی والی بات تھی کہ وہ بھی ساتھ تھا۔
YOU ARE READING
خواب گاہ
Romanceمحبت ایسے ہی تھوڑی ہوجاتی ہے کبھی بھی انسان خود کر لیتا ہے اور کبھی بول بول کر کروا دی جاتی ہے۔ قدرت اس وقت تک کسی شخص کو کسی سے ٹکراتی رہتی ہے جب تک اسے وہ پسند نا آجاۓ۔ Mohobat aise hi thori ho jati hai kbhi insaan khud kr leta hai or kabhi bol b...