انصاف قسط ۴
کتنا عجیب تھا سب۔۔۔۔حیدر اس وقت اس لڑکی کا اوپریشن کر رہا تھا جس کے لیے کوئ دعا کرنے والا ہی نہ تھا، کیسی بات تھی اس نے پہلی مرتبہ اسے اپنی بہنوں کے لیے جینے مرنے والی سچویشن بناتے دیکھا تھا تو اب وہ ان سب میں اکیلی کیوں تھی ۔۔۔۔
(کیا یہ گھر چھوڑ کہ بھاگ گئ ہے، یا اس کی کوئ لڑائ ہوئ ہے کسی کو پسند ہی نا کرتی ہو ۔۔۔۔ توبہ اس وقت اوپریشن پہ فوکس کر حیدر)
آخر چار گھنٹوں کی محنت کے بعد وہ عنایہ کے جسم میں پھیلے زہر کو نکالنے میں کامیاب ہوا تاہم ابھی بھی چوبیس گھنٹے عنایہ کہ لیے زندگی اور موت کی جنگ تھے وہ (ICU) سے باہر آیا اور حور کہ پاس آکر بیٹھ گیا حور نے فون اس کی طرف بڑھایا جسے حیدر نے ابرو اچکا کے پکڑا
"یہ ان کا ہے" حور نے اوپریشن تھیٹر کی طرف اشارہ کیا تو حیدر کے زہن میں ایک خیال کندہ اس نے فورا اس کا فون اون کیا مگر ادھر پاس ورڈ اسے منھ چڑھا رہا تھا حیدر نے منہ بنایا
(کیا ہو سکتا ہے مس ہم کا پاس۔۔۔۔۔بہنیں یعنی مس ہم کو اس کی فیملی بہت عزیز ہے تو....) اسنے اپنے خیال کو عملی جامہ پہنایا اور پاس ورڈ فیملی لکھا اور اس کا خیال درست تھا پاس ورڈ وہیں تھا
(واہ حیدر شاباش تو تو ڈیٹیکٹیو بھی بن سکتا ہے) اس نے خیالوں ہی خیالوں میں خود کو سراہا پھر چونک کے ساتھ بیٹھی حور کو دیکھا جو تیکھی نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی
"یار میں تو اس کی فیملی کی انفارمیشن لے رہا ہوں" وہ کہتا کال لوگ میں چلا گیا جہاں آخری کال بابا جانی کو کی گئ تھی وہ بھی صبح ہی (یعنی گھر سے نہیں بھاگی اور ناراضگی بھی نہیں لگتی تو مسئلہ کیا ہے) وہ گیلری میں چلا گیا جہاں اس نے نیلم اور زویا کہ ساتھ الٹے سیدھے منہ بنا کہ فوٹوز کھینچی ہوئیں تھیں ایک میں تو اس کا چہرہ کارٹون ہی لگ رہا تھا حیدر بےاختیار ہنس دیا پھر نچلے لب کو دانت میں دبائے حور کو دیکھا جو خفگی سے اسی کو دیکھ رہی تھی اس نے فورا فون بند کیا اور سیٹ کی بیک سے ٹیک لگا لی
........
دوپہر ہو چکی تھی اور نیلم پریشان ہو رہی تھی کہ عنایہ کا کوئ میسج نہیں آیا تاہم اس کو یہ بات بھی معلوم تھی کام کی وجہ سے وہ اکثر کال نہیں کرتی تھی پر پھر بھی۔۔۔۔ آخر بچوں کے کھیلنے کا ٹائم ہوگیا تو نیلم بھی باہر کو چل دی اور زویا کو بھی اپنے ساتھ گھسیٹتے لے آئ کیونکہ آج زویا میڈم پہ صفائ کا بھوت سوار ہو چکا تھا اور وہ باہر نکلنے کے موڈ میں نہیں تھی مگر نیلم نے آج تک کسی کی سنی تھی جو اب سنتی ۔۔۔۔
"جی تو پھر نیلم کی بیٹنگ آگئ بلکہ یہ کہا جائے کہ وہ آؤٹ مان ہی نہیں رہیں" نیلم نے زویا کی کمینٹری پہ اسے بیٹ دکھایا
"اور یہ کرایا بلو نے بال یہ نیلم جی نے بیٹ گھمایا بال پھر آسمان کہ سپرد ہوا اور بال نیچے آرہا ہے اور یہ کیا۔۔۔۔۔" زویا کا منہ کھل گیا نیلم نے اس کے چپ ہوجانے پہ منہ بنایا
YOU ARE READING
انصاف بقلم آسیہ ملک....《completed》
HumorIt's a story about war Insaf love relations ..... About social evils ....A girl who lives a lively life but her ends is hearty ...... A girl who sacrifice her life for taking revenge of her sister ..... A boy who cried with blood tears because of re...