Ep 8

513 55 18
                                    

 میں تنہا ہوں پارٹ ۲

نہ ہنسو

کیوں ہنستے ہو

میری قسمت پہ

ارمانوں پہ

جنازے پہ

تو نہ ہنسو

کیونکہ

تم بھی تو

اس آگ میں جھلس سکتے ہو

مجھ جیسی موت مر سکتے ہو

نہ ہنسو

خدارا

مجھے وحشت ہوتی ہے

مجھے درد ہوتا ہے

نہ ہنسو

پیپرز کا سیزن آگیا یونی میں کتابوں کا راج ہوگیا کسی کے پاس کسی کے لیے وقت نہ تھا ہر کوئ کتابوں اور پرچوں میں سر دیے بیٹھا تھا دیکھتے ہی دیکھتے آخری پیپر بھی آ پہنچا نیلم بی بی پیپر دینے کے بعد گھر آکر ایسا سوئ ایسا سوئ جیسے مردوں کو شکست دینی ہو وہ سونے کے کام میں مشغول تھی عنایہ لیپ ٹاپ پہ کوئ کیس سٹڈی کر رہی تھی اور زویا ساری کتابوں کو سیٹ کر رہی تھی

اچانک عنایہ کا فون بجا تو اس نے مصروف سے انداز میں فون اٹھایا

"ہیلو"

"ارے کیسے ہیں ڈاکٹر صاحب" اگلی بات سن کر وہ تھوڑی دیر کے لیے ساکت ہوئ پھر نظر قریب دنیا و جہاں سے بے گانہ نیلم پہ پڑی

"چلیں یہ تو گڈ ہوگیا" اور فون رکھ دیا

"نیلم تم میں بچپنا ہے لیکن صرف بچوں کے لیے۔ تم بہت اچھی ہو اور جو تم نے حور کے لیے کیا اللہ اس کا اجر دے" وہ اسے دیکھتی مسکرا کے سوچ رہی تھی ۔۔۔رات کو عنایہ کے علاوہ سب ڈائیننگ پہ موجود تھے (کیونکہ وہ آفس گئ تھی کچھ دنوں کے لیے وہ کسی اہم کیس پہ ریسرچ کر رہی تھی لیکن اسے اس کیس کا ماسٹر مائینڈ نہیں مل رہا تھا)

"تو اب فورتھ ایئر سٹارٹ ہوگا۔" فاروق صاحب گلہ کھنکار کے بولے مسز فاروق نے ایک پر شکوہ نگاہ ان پہ ڈالی اور روٹیاں رکھتے پلٹ گئیں

"ہاں جی" نیلم اور زویا روٹیوں پہ ٹوٹ پڑی تھیں اس لیے نیلم نے بس لفظی جواب دیا

"نیلم....." انھوں نے پھر گلہ کھنکارا مگر گلے میں ان کو کانٹے اگتے محسوس ہورہے تھے نیلم نے ایک نظر انھیں دیکھا اور انکو پریشان سا دیکھ کر روٹی سے ہاتھ کھینچ لیے

"جی بابا جانی" اب وہ مکمل طور پہ ان کی طرف متوجہ تھی

"میرے دوست کے بچے جو آئے تھے ان کے والد میرے بہت قریبی دوست تھے اور وہ تینوں بھی مجھے بہت عزیز ہیں" وہ ٹھہرے نیلم کو انکا تمہید باندھنا بلکل سمجھ نہ آیا

"روشن آرا رشتہ مانگ رہی تھی" نیلم نے اچھنبے سے زویا کو دیکھا (نہیں وہ تو چھوٹی ہے یعنی عنایہ بٹ وہ کیسے؟؟؟؟) اس نے سوچوں کو جھٹکا اور ان کی جانب متوجہ ہوئ

انصاف بقلم آسیہ ملک....《completed》Onde histórias criam vida. Descubra agora