Ep 7

663 62 19
                                    

میں تنہا ہوں (پارٹ ۱) 


صبح اس کی آنکھ عنایہ کہ منہ پہ پانی ڈالنے سے کھلی وہ ہڑبڑا کر سیدھی بیٹھی تو عنایہ نے لیمو پانی کا گلاس آگے کردیا تھوڑی دیر وہ اس گلاس کو گھوڑتی رہی پھر اسے سر میں شدید ٹیسیں اٹھتی محسوس ہوئیں تو اسنے وہ پکڑ کے پی لیا

"اب کیسا محسوس کر رہی ہو ؟" عنایہ نے قریب بیٹھتے نرمی سے پوچھا

"بہتر لیکن میرے سر میں...." اس کی بات مکمل بھی نہیں ہوئ تھی جب دماغ نے کسی اور طرف اشارہ کیا "رات کو....رات کو کیا ہوا تھا مجھے....مجھے کچھ یاد کیوں نہیں آرہا" عنایہ نے سمجھنے کے سے انداز میں سر ہلایا

"جب زید میرے ساتھ ڈانس کر رہا تھا تو تم نے کوئ ڈرنک لی تھی۔" نیلم نے دماغ پہ زور ڈالا پھر بامشکل جب یاد آیا تو اثبات میں سر ہلا دیا

"اس میں الکوہل تھی اور اگر زید وقت پہ نہ آتا تو شائد وکی تمہارا وہ حال کرتا جسے سوچ کر ہی تمہاری روح کانپ جائے" نیلم حیرت کا بت بنی اسے دیکھ رہی تھی جو بہت سکون سے اسے یہ سب بتا کہ اٹھ چکی تھی

"تم کیا کرنے والی ہو" نیلم کو جیسے اس کے سکون کی وجہ سمجھ آگئ تھی

"جو اس جیسے ذلیل لوگوں کے ساتھ کرنا چاہیے گیٹ ریڈی یونی کا ٹائم ہورہا ہے۔" وہ کہہ کہ کمرے سے نکل گئ اور نیلم بھی فورا اتری منہ ہاتھ دھوئے اور کپڑے بدل کے سیڑھیاں پھلانگتے نیچے اترے

"نیلم دھیان کرو گر جاؤگی" داخلی دروازے کی جانب جاتی عنایہ نے اسے ٹوکا

"عنایہ۔۔عنایہ ویٹ" وہ اس کے کاندھے پہ ہاتھ رکھ کہ سانس ہموار کرنے لگی عنایہ اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی

 "اس گونگلو نے مجھے بچایا" عنایہ نے اثبات میں سر ہلا دیا "اور گھر بھی وہ چھوڑ کے گیا تھا" آگین پوسیٹو رسپونس نیلم منہ بناتے مڑ گئ

(ناجانے اس گونگلو کے سامنے کیا کیا بک چکی ہو گی تم نیلم اب خیر مناؤ وہ و یسے بھی معاف کرنے والوں میں سے نہیں میرے تو حساب بھی بہت نکلتے ہیں اس کے پاس سے اللہ جی بچا لینا) وہ دل ہی دل میں خود کو کوستی ڈائیننگ پہ آکر بیٹھ گئ جہاں فاروق صاحب اسی کو دیکھ رہے تھے نیلم کو ان کی نگاہوں میں پریشانی سی دکھی

"ابا جان کیا ہوا کوئ مسئلہ ہے" اس کی بات پہ مسز فاروق کے برتن اٹھاتے ہاتھ تھم گئے اور انھوں نے تنبیئ نگاہوں سے فاروق صاحب کو دیکھا جس کو انھوں نے یکسر نظرانداز کردیا

"بیٹے اگلے بدھ کو میرے مرحوم دوست کی بیٹی اور بیٹے ہمارے گھر دعوت پہ آئیں گے تو اگر آپ اس دن یونی سے چھٹی لے لو تو۔۔۔۔" انھوں نے بات ادھوری چھوڑ دی

"شیور ابو جان" وہ کہتی اٹھ کھڑی ہوئ

"چلو زویا اٹھ جاؤ کتنا ٹھونسو گی" وہ اسے گھورتے بولی جو اطمینان سے کھا رہی تھی

انصاف بقلم آسیہ ملک....《completed》Where stories live. Discover now