عائشہ احمد
عبداللہ الاسلام
قسط نمبر 1
پارٹ نمبر 3بس سٹاپ پر جھٹکے سے رکی تو وہ جو قدیم شہر کی طرف آنے والے بڑے روڈ کے باہر کے نظاروں میں کھوئی ہوئی تھی حال میں واپس آگئی۔
"کیا ہم پہنچ گئے؟؟"مغربی طرزکا لباس جینز اور سرخ رنگ کی چیکدار شرٹ میں ملبوس اس نے اپنے بالوں کو مضبوطی سے پونی ٹیل کر کے سمیٹا ہوا تھا۔اس کے گلے میں ایک کارڈ لٹک رہا تھا جس پر کسی بینالاقوامی تنظیم کے بارے میں لکھا ہوا تھا۔
"ہاں تمھارے خوابوں کے شہر میں ہی ہیں ہم۔ ۔ لیکن بہت احتیاط کرنا ہوگا ہمیں ۔آخر کو ہر روز یہاں کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔"ساتھ والی خاتون نے اسے کہا۔سارے مسافر قطار بناکر نیچےاترنے لگے۔اس نے سامان والے بیگ کو کو کیبن سے اتار کر اپنے ساتھ والی چالیس سالہ خاتون کو تھمایا۔وہ بھورے کنپٹی تک آتے سلکی بال سرخ وسفید رنگ ہلکے گلابی رنگ کی ٹی شرٹ اور نیچے گھٹنوں تک منی سکرٹ زیب تن کیئے ہوئے تھی۔
سامانی بیگوں کوانہوں نے ہاتھ میں پکڑا اور بس کے دروازے کی طرف ہولیں۔جیسے ہی اس نے مقدس شہر کی پاک سرزمین پر قدم رکھا تو شام کی طرف ڈھلتے دن کی ہوا کا ایک جھونکا اس کے چہرے کو چھوتا ہوا آگے گزر گیا۔اس کے لب کھل اٹھے۔آنکھیں سمٹ گئیں اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کرتے ہوئے کہا۔
"بالاِخر میں یہاں ہوں ۔ ۔ اس سرزمین پر۔ ۔ ۔جس کوحاصل کرنے کے لیے لاکھوں لوگ کئی ہزار سالوں سے خون بہاتے آئے ہیں،اسے مسمار کیا۔مگر پھر سے کئی بار تعمیر کیا۔مگر آج بھی یہ حالت جنگ مں ہے۔"آخری جملہ وہ قریبا افسردگی سےبڑبڑائی تھی۔اس نے اپنے آس پاس نظر دوڑائی تو ہر طرف چہل پہل دکھی۔وہاں اسے تینوں مذاہب کے لوگے اپنے کاموں میں مصروف نظر آئے۔
"میگن صاحبہ آپ میرے ساتھ نہ ہوتی تو میرے لیے یہاں آناممکن نہ تھا"۔سڑک پر چلتے ہوئے اس نے ساتھ والی خاتون سے کہا ۔
"خدا کرے یہاں سب صحیح ریے۔"میگن کے چہرے پر خوف کے آثار تھے۔
"آپ اچھا سوچیں گی تو اچھا ہی ہو گا۔"
لڑکی نے کہا۔"پاسپورٹ چیک کروائیں۔"چیک پوائنٹ پر کھڑے سپاہی نے ان کو نگایوں سے جانچا۔وہ کسی مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والی لگتی تھیں۔
"امیریکہ سے؟"اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا "کس مقصد کے لیے آئی ہیں؟"
"ہم اقوام متحدہ کی تنظیم کی جانب سے ہیں"لڑکی نے کہا اور دونوں نے اپنے کارڈ دکھائے۔
'ٹھیک ہے۔اندر سکیورٹی روم میں چلی جائیں وہاں آپکی چیکنگ ہوگی۔بیگز بھی ساتھ لے جائیں ۔"اس نے انہیں سکیورٹی روم کی راہ دکھائی۔تقریبا ایک گھنٹے کی تفتیش کے بعد انہیں شہر جانے کی اجازت مل گئی۔وہ بھی اس لیے کہ ان کی قومیت پاسپورٹ پر امریکی تھی ورنہ بعید نہیں کہ انہیں مزید دو گھنٹے کی ذلالت برداشت کرنی پڑتی۔
"اف شکر ہے یہ ہو گیا ورنہ مجھے تو لگا تھا یہ ہمیں ہمارے ملک واپس بھجوا دیں گے۔"میگن نے باہر آکر سکھ کا سانس لیتے ہوئے کہا۔
"آپ بھی بس ایسے ہی گھبراجاتی ہیں ۔یہ چیکنگ تو روزمرہ کا معمول ہے ان کا۔"وہ ہینڈبیگ میں پاسپورٹ واپس ڈال رہی تھی۔
"نقشہ آپ کے بیگ میں ہے نا؟"اس نے بیگ میں کچھ ٹٹولتے ہوئے ساتھ والی سے پوچھا۔
"ہاں ہاں میرے پاس ہی ہے۔"وہ مرکزی قدیم شہر کی فصیل کے پاس تھیں اور اس سے ملحقہ چوک میں بڑے ہجوم کو پایا۔
YOU ARE READING
عبداللہ الاسلام
Randomابھی اس نے وارڈروب کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا ۔ جب کسی نے پیچھے سے ہاتھ لا کر اسکے ناک اور منہ پر رکھ دیا۔اس نے ہاتھ ہٹانا چاہا مگر اسکی گرفت مضبوط تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں سے اسے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی تھی۔ مگر شاید حملہ آور اسے مارنے کے خیال سے آیا تھا۔...