باب 11

27 4 0
                                    

وہ کمر کے پیچھےہاتھ باندھے غصے میں ادھر ادھر چکر لگا رہا تھا۔
بار بارسر اوپر اٹھا کر سیڑھیوں کی طرف دیکھتا ۔ ۔
خلف سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا۔وہ اونگھتے ہوئے آرہا تھا گویا نیند سے ابھی ابھی اٹھا ہو۔اس کے ہاتھ میں موبائل تھا۔

"اتنی دیر سے کیا کر رہے تھے تم؟"اس کے بابا نے موبائل کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا۔اور پوچھا۔
اس نے بھی ہاتھ آگے بڑھا کر موبائل پکڑا دیا۔

"میں سو رہاتھا۔ ۔ بابا"وہ جمائی لے کردھیرے سے بولا۔
"شاباش بیٹا۔ ۔ شاباش۔ ۔ ۔یہاں باپ کی نیندیں حرام ہوئی پڑی ہیں ۔ ۔ اور تم مزے سے سو رہے ہو ۔ ۔ ۔ ہاں؟؟"وہ ہاتھ میں پکڑے موبائل کو آن کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔جب اس نے خلف سے کہا۔

"یہ لاک تو نہیں ہے نا؟"اس نے نظریں اوپر اٹھا کر بیٹے کی طرف دیکھا تو اسکی آنکھیں غنودگی کی وجہ سےقریبا بندتھیں ۔
"ہمممم؟؟؟کیا پوچھ رہا ہوں میں؟"خلف کی طرف سے جواب جلدی نہ آنے پر وہ سِخت لہجے سے پوچھنے لگا۔
"نہیں بابا۔ ۔ ہوا کیا ہے آخر۔ ۔ ؟؟"وہ ایسے بول رہا تھا گویا ابھی بھی نیند میں ہو۔

"میری عینک اٹھا کر لائو۔ ۔ جلدی سے۔ ۔ پھر بتا تا ہوں۔ ۔ جلدی کرو۔"وہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے اسے کہرہا تھا۔
وہ اٹھا عینک لانے کے لینے بیڈروم کی طرف چلاگیا۔

اس نے دھیرے سے کمرے کا دروازہ کھولا ۔
تو ہانی آپا اور امی جان جو دھیمی آواز میں باتیں کر رہی تھیں۔ ۔ نے دروازہ کھلنے پر اسے سر اٹھا کر دیکھا۔

"امانی "دونوں نے اسکا نام پکارا اور اس کی طرف لپکیں۔

"چھوڑ دیں ۔ ۔ ۔ آپ مجھے"اپنی امی جان کے بازو پکڑنے پر وہ چلائی۔اور اپنا بازو ان کے ہاتھوں سے چھڑوالیا۔

"امانی ۔ ۔ میری جان۔ ۔ مجھے بتائو۔ ۔ کیا ہوا ہے تمھیں ۔ ۔ اور یہ۔ ۔ یہ تمھارے چہرے پر نشان کیسا ہے؟؟۔ ۔ "اسکی امی نے اسکی ناراضی کی پرواہ کئیے بغیر پھر سے اسے بازو سے پکڑلیا اوراس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھنے لگیں ۔
ہانی آپا تزبزب میں مبتلا پاس ہی کھڑی تھیں ۔
اس نے اپنے ہاتھ سے امی جان کو اپنے سامنے سے ہٹایا اور تیز تیز قدم اٹھا کر بیڈ پر آکر بیٹھ گئی۔

"امانی ۔ ۔ ۔ جانم۔ ۔ تم بتا کیوں نہیں رہی ہو ۔ ۔ کیا ہوا ہے۔ ۔ تمھارے چہرے پر۔ ۔ ۔کیسا نشان ہے یہ؟؟"ہانی آپا بھی اس کے پاس آکر بیٹھ گئیں ۔اور پوچھنے لگیں ۔
اسکی امی جان وہیں کھڑی ان دونوں کو دیکھ رہی تھیں ۔
"انہوں نے۔ ۔"اس نے اپنی امی جان کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا " بتایا نہیں۔ ۔ ۔ آپکو آپا۔ ۔ ۔ یہ جب مجھ سے ۔ ۔ ۔ بابا کے سامنے ۔ ۔ ۔ پوچھ رہی تھیں ۔ ۔ میں نے بتایا تو تھا۔"اسکی جھیل جیسی آنکھوں میں پانی تیرنے لگا۔

"امانی۔ ۔ ۔ یہ نشان کسی کھیل کا نہیں ہے۔ ۔ اور تمھاری یہ سوجھی یوئی آنکھیں ۔ ۔ کسی بھی طرح سے یہ کھیل کی وجہ سے نہیں ہوا۔ ۔ ۔ مجھے پاگل مت بنائو۔"ہانی کی بجایے وہ اب اس کے پاس آکر ترش لہجے سے بولیں۔

عبداللہ الاسلام Where stories live. Discover now