"اس واقع کے بارے میں جاننے کے بعد۔ ۔ میرے بیٹے کے اس رویے سے آپ لوگوں کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ۔ کیونکہ کل ان پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں اس نے اپنا دوست کھودیا ہے۔ ۔ ۔ اور اس کے علاوہ ہمارے نو بہادر سپاہی اس میں جاں بحق ہو گئے۔ ۔ ۔ میرا بیٹا مرتے مرتے بچا ہے۔ ۔اسے لگتا ہے کہ تم سب اس گھنائونی سازش میں شامل ہوسکتے ہو ۔ "وہ اپنے تمام عرب ہمنوائوں کو بریفنگ دے رہا تھا۔"ہمیں تو اس بارے میں کوئی خبر نہیں ہے۔ ۔ ۔ محترم ابراہم صاحب ۔"۔ وہ سب آپس میں چہ مگوئیاں کرنے لگے تو ان میں سے ایک نے اونچی بول کر کہا۔
"مسٹر خالد ۔ ۔ ۔ اور اسکے خاندان کو ۔ ۔ میں نے مسٹرخالد کی خدمات کے بدلے میں بہت مراعات دیں ۔ ۔ ان میں سے ایک اسکی یروشلم منتقلی تھی۔ ۔ ۔ مگر جس دن یہ اور اسکے خاندان کی یروشلم منتقلی ہوئی۔ ۔ اسی دن میرے بیٹے پر حملے کے گھنائونی سازش ہوئی۔ "وہ ہر ایک کے چہرے پر نظریں جمائے دھیرے دھیرے بول رہا تھا۔
سب خالد شرف کی طرف دیکھنے لگے۔
وہ بوکھلا ساگیا۔"اب مسٹر خالد ۔ ۔ ۔تم ہی بتائو۔ ۔ میں اس بات سے کیا سمجھوں؟۔ ۔آپ سب لوگ بھی میری راہنمائی کریں پلیز ۔"وہ بیچارگی والا چہرہ بنا کر پوچھنے لگا۔
"غلط ہوا ۔ ۔ بے شک غلط ہوا۔ ۔ ۔ہم مسٹر ابراہم کے ساتھ ہیں۔ ۔ ۔ اور جس نے بھی یہ کیا ہے اسے اس کے کیئے کی سزا ملنی چاہیے۔ ۔ ۔ ضرور ملنی چاہیے "ہر طرف سے آوازیں آنے لگی۔
خالد صاحب کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔مگر آخر کار وہ بول پڑا۔
۔
"مسٹر ابراہم۔ ۔ مجھے آپکی بات سن کر بہت دکھ ہوا ۔ ۔ مگر میرا اس واقع سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ ۔ اگر مجھے یہ کرنا ہوتا تو میں بہت پہلے کر چکا ہوتا۔ ۔ ۔ جب میں یہ جانتا ہوں کہ یہ سب کر کے بدلے میں میرے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ ۔۔ تو میں کیوں کروں گا یہ سب؟؟؟"
وہ سب کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
"دیکھیں۔ ۔ آپ کے احسانات ہیں مجھ پر۔ ۔ میں کبھی بھی اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا"وہ کبھی مسٹر ابراہم کی طرف دیکھتا تو کبھی باقی لوگوں کی طرف۔"اگر مسٹر ابراہم یہ مان بھی لیتے ہیں کہ وہ تم نہیں تھے۔ ۔ تم نے اپنا تو ہمیں یقین دلادیا کیا تم اپنے خاندان کا بھی یقین دلاتے ہو۔ ۔ ۔کہ ان کا اس میں کوئی کردار نہیں ؟"اس گروہ میں سے ایک عرب تاجر اٹھ کر اس سے سوال کرنے لگا۔
مسٹر ابراہم نے اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
کچھ دیر خاموشی رہی۔
"ہاں ۔ ۔ میں یقین دلاتا ہوں۔ ۔ میرے بچوں کا ان سب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ۔ ۔بلکہ وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ یہودی اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں ۔ ۔ ۔ وہ اسرائیل کے پرچم تلے کام کرنا چاہتے ہیں ۔ ۔ "۔ تمھیں بات کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے نجف۔ ۔ ۔"وہ نجف پر غرایا۔
وہ اس سے بھڑنے والا تھا جب مسٹر ابراہم نے اس کی بات کاٹ دی۔
"جلد یا بدیر ہم یہ بات جان لیں گے۔ ۔ ۔ خالد ۔ ۔ کہ اس سب کے پیچھے کون ہے۔ ۔ ۔وہ تب تک اپنی زندگی سکون سے جی لے۔ ۔ ۔ مگر اس کے پاس جینے کے لیے ذیادہ دن نہیں ۔ ۔ "
"اور کیا پتا۔ ۔ ہم اس غدار کے قریب پہنچ چکے ہوں۔ ۔ ۔ اور جب ہم اسے دبوچیں گے تو وہ سانس بھی نہیں لے پائے گا۔ ۔ ۔ایک لمحے کے لیے بھی۔ ۔ "۔
YOU ARE READING
عبداللہ الاسلام
Randomابھی اس نے وارڈروب کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا ۔ جب کسی نے پیچھے سے ہاتھ لا کر اسکے ناک اور منہ پر رکھ دیا۔اس نے ہاتھ ہٹانا چاہا مگر اسکی گرفت مضبوط تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں سے اسے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی تھی۔ مگر شاید حملہ آور اسے مارنے کے خیال سے آیا تھا۔...