عائشہ احمد
#عبداللہ_الاسلام
قسط نمبر 1
پارٹ نمبر 1وَلَـنَبۡلُوَنَّكُمۡ بِشَىۡءٍ مِّنَ الۡخَـوۡفِ وَالۡجُـوۡعِ وَنَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِؕ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيۡنَۙ ۞
اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میوؤں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے توصبر کرنے والوں کو (خدا کی خوشنودی کی) بشارت سنا دو۔
سورہ البقرہ آیت مبارکہ 155ہلکے سرمئی رنگ کی کنکریٹ کی دیواریں جونارنجی رنگ کی روشنی کے سبب پیلے اور نارنجی رنگوں کا امتیاز بن کر ان دیواروں کے سرمئی رنگ کو چھپا رہی تھیں ۔
لمبی راہداری کے پر سکوت ماحول میں چھن چھن کی آوازیں فضا میں عجیب ارتعاش پیدا کر رہی تھیں ۔
اس کا زخموں سے چور بدن دو آدمیوں کے درمیان ان کے بازووں میں ڈھلک رہا تھا۔دائیں اور بائیں وہ اپنی جانب کے اس شخص کے بازو کو کندھے کے پاس سے تھامے تقریبا کھردرےفرش پرگھسیٹ رہے تھے۔
اس کا سر جس سے ابھی بھی جگہ جگہ سے خون رس رہا تھا نیچے کی سمت غنودگی کے عالم میں لٹک رہا تھا۔
اسکی آنکھوں پر ایک سفید رنگ کی پٹی جس پر سرمئی رنگ کی دھاریاں تھیں بندھی ہوئی تھی۔دونوں ہاتھوں کو سامنے کی جانب ہتھ کڑی سے باندھا ہوا تھا۔اسی طرز کی کڑی اس کے دونوں پیروں کو بھی باندھے ہوئے تھی۔دونوں پیروں کے درمیان زنجیر کا فاصلہ قریبا 7 یا 6 انچ تھا۔چھن چھن کی آواز اسی زنجیر کی تھی جو اس کے اپنے پیروں پر چلنے کی کوشش کی وجہ سے پیدا ہو رہی تھی۔
ابھی تک وہ ان دو لوگوں کے سہارے تین سیڑھیوں کے احاطے اور دو راہداریوں کو عبور کر چکا تھا۔کئی دنوں سے اسکا بھوکا وجود اب اس کا ساتھ دینے سے قاصر تھا۔
"میرے بھائی ہمت مت ہارنا ۔ ۔ مضبوط رہنا۔ ۔ اللہ تمھارے ساتھ ہے۔ ۔ "جب وہ تیسری راہداری میں گھسٹ گھسٹ کر داخل ہوا تو ملی جلی آوازیں اس کے کانوں سے ٹکرائیں۔
اسے اب ان دونوں کے علاوہ جو کہ اس کے دائیں بائیں اسے پکڑے گھسیٹ رہے تھے کسی اور وجود کا بھی احساس ہوا۔
اس کے دل میں ایک سکون سااتر گیا کہ وہ کم از کم یہاں تنہا نہیں ہے ۔
راہداری کے مکمل ہونے پر وہ اسے بائیں طرف نیچے سیڑھیوں کی جانب لے کر مڑے۔
چند لمحوں کے بعد شاید آخری سیڑھیوں سے اترنےکا مرحلہ بھی بالآخر ختم ہو گیا تھا۔وہ رک گئےاس کے کانوں نے تالہ کھولنے کی کھڑ کھڑ سنی۔
وہ درد سے کراہ رہا تھا۔اسکی ہمت جواب دے رہی تھی۔وہ بمشکل ہی کھڑا تھا۔جیسے ہی دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔تو آوازیں بلند ہونے لگیں۔
"فلسطین کو آزاد کرو۔ ۔ ہم اپنا حق لیں گے۔ ۔ ہم آخری سانس تک لڑیں گے۔ ۔ ہم شہید یو گئے تو ہمارے بچے تم سے انتقام لیں گے۔ ۔ اے غاصب فوج۔ ۔ اے اہل یہود۔ ۔ تھیں اپنےجنگی جرائم پر شرم آنی چاہیئے۔ ۔ "
اسطرح کی اور بھی بہت سی ملی جلی آوازیں۔مگر ابھی تک وہ کسی کا چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا۔
پٹی کے نیچے اسکی آنکھیں ویسے بھی بند ہو رہی تھیں۔
VOUS LISEZ
عبداللہ الاسلام
Aléatoireابھی اس نے وارڈروب کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا ۔ جب کسی نے پیچھے سے ہاتھ لا کر اسکے ناک اور منہ پر رکھ دیا۔اس نے ہاتھ ہٹانا چاہا مگر اسکی گرفت مضبوط تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں سے اسے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی تھی۔ مگر شاید حملہ آور اسے مارنے کے خیال سے آیا تھا۔...