سب سپاہیوں کے ساتھ نیتن کو بھی گارڈ آف آنر پیش کر کے اعزاز کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔
آرون نیتن اور دوسرے سپاہیوں کے خاندان سے ملا انہیں حوصلہ دیا۔سارہ بھی اسکے ہمراہ تھی۔
اسکی طبیعت بہت بوجھل تھی۔وہ لوگوں کے درمیان زیادہ ٹک نہیں پایا۔
وہ ہجوم سے نکل کر اپنے کوارٹر کی طرف آگیا۔اس نے اپنی جیکٹ اتار کر بیڈ پر رکھی۔اسکی سفید ٹی شرٹ پر جگہ جگہ خون کے دھبے تھے۔
زخم رس رہے تھے۔
اس نے شرٹ اتار کر پٹیاں اتارنا شروع کیں۔
وہ درد سے کراہ رہا تھا۔
"تم ہٹ جائو۔ ۔ نہیں ہوگا تم سے۔ ۔ میں کردیتی ہوں "سارہ کی آواز اس کے کانوں میں گونجی۔
اس نے اپنا ہاتھ ہٹا لیا۔
"باقی زخم ۔ ۔ زیادہ ۔ ۔ ۔ گہرے نہیں ۔ ۔ مگر ۔ ۔ گردن والا ۔ ۔ "
سارہ اسکی بینڈیج تبدیل کررہی تھی اور اسے ساتھ ساتھ اسے بول کر بتا رہی تھی۔
"دل کے زخم۔ ۔ زیادہ ۔ ۔ گہرے ہوتے ہیں ۔ ۔ سارہ۔ ۔ ۔جب چوٹ بھی دل کے خاص حصے پر لگی ہو۔ ۔ ۔یہ زخم۔ ۔ ۔ان کا کیا۔ ۔ ۔یہ تو مندمل ہو ہی جائیں گے ۔"وہ درد سے ہلکا ہلکا کراہ رہا تھا۔جب اس نے سارہ کی بات کاٹ کر اس سے کہا۔
وہ زخموں کو دوبارہ سے دوائی لگارہی تھی۔
"آرون۔ ۔ ۔اس نے وطن کی خاطر جان دی۔ ۔ ۔اس کے نام کو ہماری نسلیں ہمیشہ یاد رکھیں گی ۔ ۔ "وہ دھیرےسے بولی۔
وہ اسکی بات پر خاموش رہا۔
وہ اب پٹیاں کر رہی تھی۔
"تمھارا۔ ۔ بہت شکریہ۔ ۔ سارہ۔ ۔ ہرچیز کے لیے"وہ دھیرے سے بولا۔
"اب کیسا محسوس کر رہے ہو۔ ۔ ۔"اس نے سرگوشی کی۔
اسکی آواز میں اس کے لیے محبت تھی۔ ۔ پیار تھا۔ ۔ احساس تھا۔
"تم ساتھ ہو تو۔ ۔ ۔کیسے برا محسوس کر سکتا ہوں ۔ ۔ "وہ اس کے قریب ہوا اور پیشانی پر بھوسہ لیا۔
اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔"میں تمھیں ۔ ۔ تمھارے کپڑے نکال دیتی ہوں ۔ ۔ ۔تم تبدیل کر لینا۔"وہ کہنے لگی۔
اسنے اسے الماری سے کپڑے نکال کر دئیے۔
اور پھر اس کے لیے سوپ بنا کر لے آئی۔
"یہ پی لو۔ ۔ تمھاری کمزوری دور کردے گا۔ ۔ ۔ تم اچھا محسوس کرو گے۔ ۔ "اس نے اسکی طرف سوپ بڑھایا۔
وہ کپڑے تبدیل کرکے گلے میں اپنا لاکٹ پہن رہا تھا۔
سارہ نے اسے اتنے پیار سے کہا تھا کہ وہ انکار نہیں کر پایا۔
دروازے پر دستک ہوئی۔
سارہ نے دروازہ کھولا۔
"بابا آپ؟۔ ۔ آئیے اندر۔"یوول رابی دروازے پر کھڑا تھا۔
"کیسی ہو بیٹا؟"وہ پوچھنے لگا۔
"میں ٹھیک ہوں ۔ ۔ آپ نے بتایا نہیں آنے کا۔"وہ کہنے لگی۔
"بس میں آرون سے ملنا چاہتا تھا۔ ۔ ۔کافی دیر سے اس ملاقات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔"وہ آرون سے گلے ملنےلگا۔
"آپ ایک فون کردیتے تو۔ ۔ میں اور سارہ آپ کے پاس خود چلے آتے۔ ۔ آپ نے کیوں زحمت کی۔"وہ باعث ادب اس سے مخاطب تھا۔
اس نے ادب سے اس کے ہاتھ چومے۔
"نہیں ۔ ۔ سچ پوچھو تو مجھے کوئی زحمت نہیں ہوئی۔ ۔ تمھارے دوست کا سن کر افسوس ہوا۔ ۔ ۔جب سے میں نے اس خبر کے بارے میں جانا۔ ۔ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی ہے۔ ۔ اور ان بوڑھی ہڈیوں پھر سے جوشوولولہ آگیا ہے۔ ۔ ۔"وہ بول رہا تھا۔
سارہ بھی کرسی لا کر ان کے سامنے بیٹھ گئی۔
وہ خاموشی سے اسکی باتیں سن رہا تھا۔
"کب واپس جا رہے ہو؟"اس نے پوچھا۔
اس نے گھڑی کی طرف دیکھا۔
"تین بج چکے ہیں اور پانچ بجے ۔ ۔۔ہم لوگ نکلیں گے یہاں سے۔"وہ دھیمے لہجے سے بولا۔
"ہممم۔ ۔ ۔ یعنی بات کرنے کے لیے ۔ ۔ ہمارے پاس دو گھنٹے ہیں ابھی ۔ ۔ اچھی بات ہے۔"وہ بڑبڑانے لگا۔
YOU ARE READING
عبداللہ الاسلام
Randomابھی اس نے وارڈروب کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا ۔ جب کسی نے پیچھے سے ہاتھ لا کر اسکے ناک اور منہ پر رکھ دیا۔اس نے ہاتھ ہٹانا چاہا مگر اسکی گرفت مضبوط تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں سے اسے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی تھی۔ مگر شاید حملہ آور اسے مارنے کے خیال سے آیا تھا۔...