باب 12

28 4 0
                                    

وہ ابھی تک اپنی امی جان کے ساتھ لپٹی ہوئی تھی۔اس کی امی جان اس کے نرم وملائم بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیر رہی تھیں ۔انہیں رہ رہ کر اس پر پیار آرہا تھا۔وہ کبھی اس کے ہاتھ چومتی تو کبھی اسکے بالوں کی خوشبو سونگھتی۔ ۔ جب جب اسکے بابا اسے ڈانٹتے تھے تو ان کا دل خون کے آنسو روتا تھا۔اور اتفاق سے چاروں بہنوں میں سے اسی نے بابا کی زیادہ ڈانٹ کھائی تھی۔ہانی آپا بڑی اور سمجھدار تھیں یہی چیز انہیں بابا کے غصے سے بچا کر رکھتی تھی۔ ۔ ذونا کو تو ویسے ہی کچھ نہیں کہتے تھتے۔ ۔کیونکہ وہ بن ماں کی بچی تھی۔ ۔عینا چھوٹی تھی اور آجا کر اسی کا نمبر آتا تھا۔
"میری سب سے پیاری بیٹی۔۔ ۔ "انہوں نے اس کے بالوں کا بھوسہ لیا اور دھیرے سے بولیں۔
وہ خاموشی سے گم صم ان کے سینے سے لگ کرلیٹی ہوئی تھی۔
"امانی۔ ۔ "انہوں نے دھیرے سےاس کا نام پکارا۔
"ہممممم۔"وہ وہیں لیٹے ہوئے بولی۔
"اٹھو۔ ۔ سیدھی ہو کر بیٹھو۔ ۔ "امی جان نے اسے بازووں سے پکڑ کر اٹھنے میں مدد دی۔وہ نا چاہتے ہوئے بھی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ۔ ۔دن بھر کی تھکاوٹ اسکی آنکھوں سے عیاں ہو رہی تھی۔
وہ اسے اسطرح سے بے آرام نہیں کرنا چاہتی تھیں۔مگر بیٹی کو سمجھانا ضروری تھا تو بولنے لگیں ۔برض اوقات جو سبق چوٹ لگتے ہی سیکھائے جاتے ہیں وہ انسان کو ہمیشہ ہی یاد رہتے ہیں ۔زخم مندمل ہو جائیں تو سوچنے اور سیکھنے کے اور بھی بہت سے پہلو نکل آتے ہیں پھر وہ والی بات نہیں رہتی۔
"امانی۔ ۔ یہ والا واقع کسی بھی اور کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ۔ نہ بابا کو۔ ۔ اور نہ ہی خلف کو۔ ۔کیونکہ اسطرح سے خواہ مخواہ بات بڑھ جائے گی۔ ۔ ضروری تو یہ تھا کہ کوئی جاکر اس سے پوچھتا کہ اس کی یہ سب کرنے کی ہمت بھی کیسے ہوئی؟۔ ۔ مگر تم تو جانتی ہو اپنے بابا کو۔ ۔ وہ الٹا ہم پر ہی ساری بات ڈال دیں گے۔ ۔ ایک مرتبہ پھر سے یہ اذیت نئے سرے سے شروع ہوجائے گی۔
"وہ اسے پیار سے سب باتیں سمجھانے والے انداز میں کہرہی تھیں ۔
دروازہ کھلا۔ ۔ ہانی آپا اندر داخل ہوئیں ۔تو وہ مڑ کر اسکی جانب دیکھنے لگیں۔
"خلف ابھی تک۔ ۔ وہیں ہے۔ ۔ انہی کے پاس بیٹھا ہے۔ ۔ "ہانی نیچے اپنے بھائی کو دیکھنے گئی تھی۔جو ابھی تک واپس نہیں لوٹا تھا۔کیوں کہوہ اپنے بابا کے ساتھ محو گفتگو تھا۔
"بہت لمبی بات کردی شاید انہوں نے۔ ۔ یا اللہ۔ ۔ میرے بچوں کو حفظ وامان میں رکھنا ۔ ۔ آمین۔ ۔ "وہ ہانی کی بات سن کر بولیں۔ ۔ پریشانی ان کے چہرے سے ڈھلک رہی تھی۔مگر اپنی بیٹیوں کے سامنے کوئی بھی پریشانی والی بات کرکے وہ انہیں کمزور نہیں کرنا چاہتی ٹھیں۔بس دعا کے چند الفاظ ہی منہ سے نکالے۔
امانی خاموشی سے بیٹھی تھی ۔اس کے چہرے وہ فکر اور پریشانی نہیں تھی جو اسکی ماں اور بہن کو تھی۔ ۔ خلف کو بابا کا یوں بلانا امانی کے لیے عام بات تھی تب تک جبتک وہ نارمل ہو کر بات کریں۔مگر ہانی آپا اور حاجرہ صاحبہ وہ جانتی تھیں جو اسے معلوم نہیں تھا۔

"تم نے کہا تھا کہ تم بہت ڈر گئیں تھیں ۔امانی"انہوں نے امانی سے پوچھا ۔
"جی امی جان "وہ نظریں نیچے جھکا کر ناِخن سے دوسری انگلی کے ناخن کو کھرچنے لگی۔
"لیکن اب سے تم کبھی نہیں ڈرو گی۔ ۔ "انہوں نے تھوڑی سے اس کا چہرہ اوپر اٹھایا۔"ادھر دیکھو میری طرف۔ ۔ جب بھی وہ تمھارے سامنے آئے۔ ۔ تو تم اس سے کترائو گی نہیں ۔ ۔ اسے دیکھ کر گھبرائو گی نہیں"کیونکہ ڈر اور گھبراہٹ کسی بھی انسان کے گناہگار ثابت ہونے کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔ ۔ صاف اور سچا انسان بے باک ہوتا۔اور سر اٹھا کر چلتا ہے۔" ۔ ۔ دیکھو وہ تمھیں کچھ نہیں کر سکتا۔ ۔ اسے بس یونہی غلط فہمی ہو گئی تھی۔ ۔ ۔اسلیے یہ سب ہو گیا۔اور ہاں تم جب بھی اسے ملو گی تو ایسے ہی جیسے پہلی بار مل رہی ہو۔ ۔ تاکہ وہ جان لے کہ تم غلط نہیں ہو۔ ۔ میری بات سمجھ میں آرہی ہے نا؟"وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھنے لگیں۔
"جی۔ ۔ اسے ایسا لگا ہوگا کہ۔ ۔ شاید میں کوئی چور ہوں یا پھر کچھ اور۔ ۔ ؟؟"وہ دھیرے سے بولی۔گویا امی جان سے کہنا چاہ رہی ہو کہ آپ بتائیں مجھے اگر آپکو معلوم ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا میرے ساتھ۔
ہانی آپا نے جو کچھ فاصلے پر بیٹھی ہوئی تھیں ۔اسکی بات سنی تو اپنے ہاتھ کو اپنی آنکھوں ہر رکھ لیا اور آنکھیں میچ لیں گویا کہرہی ہوں آہ میری جان تم کچھ نہیں جانتی۔
"اس نے جو بھی سمجھا۔ ۔ اس سے ہمیں فرق نہیں پڑتا۔ ۔ جانم۔ ۔ میری بیٹی نے کچھ بھی غلط نہیں کیا۔ ۔ میں بس یہ جانتی ہوں۔ ۔"وہ رکی۔ ۔"اب میں نے جتنی بھی باتیں تمھیں سمجھائی ہیں وہ تمھیں سمجھ آجانی چاہیئں۔اور ان پر عمل بھی کرنا ہے۔"وہ اس سے اقرار لینے والے انداز میں کہرہی تھیں۔
"جی امی جان"اس نے اثپات میں سر ہلایا اور بولی۔
"چہرے کا نشان اب زیادہ گہرا نہیں رہا۔ٹھیک ہو رہا ہئے آہستہ آہستہ ۔ ۔ چاہو تو میں اس پر کچھ لگادوں؟؟ویسے ضرورت تو نہیں ہے "وہ بیڈسے اٹھیں اور پوچھا۔
"نہیں امی جان۔ ۔ رہنے دیں۔ ۔مجھے نیند آرہی ہے بہت۔ ۔میں سونا چاہتی ہوں۔"اسکی آنکھیں زبردستی بند ہو رہی تھیں ۔
"ٹھیک ہے بیٹا۔ ۔ لیٹ جائو۔ ۔ بہت بے آرام کیا لوگوں نے آج ہمیں ۔ ۔ اللہ ظالموں کے شر سے تمھیں دور رکھے۔ ۔آمین "ہر ماں کی طرح وہ بھی بیٹی کے لیے تڑپ رہی تھیں اور اسے تکلیف دینے والوں کو کوس رہی تھیں ۔
اس کے اوپر لحاف کو اچھی طرح سے اوڑھا دیا تھا۔اور پیار سے اسکے ماتھے کو چوما۔

عبداللہ الاسلام Where stories live. Discover now