وہاں رات کا سماں تھا۔وائر لیس پر آوازیں چاروں اطراف سے آرہی تھیں ۔ہر طرف بھاگم بھاگ تھی۔
دھماکے کی جگہ پر لاشیں ہر طرف بکھری ہوئی تھیں۔
خون بہ رہا تھا۔
مائن ڈیٹیکٹر سے مزید مائن زدہ جگہوں کی نشاندہی ہوئی اور انہیں فورا ڈسپوز کیا گیا۔وہ ہر لاش کو غور سے دیکھتا اور پھر آگے بڑھ جاتا۔
مرنے والوں کے جسم صحیح حالت میں نہیں تھے۔
نیتن کی نعش اسے نظر آئی۔
وہ اسکی طرف لپکا۔
سارہ بھی اس کے پیچھے ہولی۔"نیتن ۔ ۔ ۔ نیتن۔ ۔ ۔ نیتن"وہ اس کا نام پکار رہا تھا۔
اس نے نیتن کا بازو تھامنا چاہا تو وہ الگ ہو گیا۔
وہ اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔"نہیں ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ نہ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ یہ تم نہیں ہو۔ ۔ ۔تمھیں کچھ نہیں ہو سکتا۔"وہ خون سے بھرے ہاتھوں کو پیالے کی شکل میں اس کے منہ کے ارد گرد رکھے ہوئے اسے پکار رہا تھا۔
"دیکھو ۔ ۔ ۔ نیتن ۔ ۔ ۔ میں یہاں ہوں۔ ۔ ۔ دیکھو مجھے ۔ ۔ ۔ میں ہوں تمھارا دوست ۔ ۔ ۔ "اسکی ہچکی بندھ گئی۔
"نیتن "اس نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور جتنا اونچی چلا سکتا تھا وہ چلایا۔"آرون۔ ۔ ۔ آرون ۔ ۔ ۔ پلیز پرسکون ہو جائو۔"وہ اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھی۔اسکی آنکھیں نم تھیں ۔
مسٹر ابراہم جو کہ دور کھڑا ایک آفیسر سے بات کر رہا تھا ۔بیٹے کی آواز سنی تو اس طرف لپکا۔
"تم نہیں مر سکتے ۔ ۔ ۔ اٹھو اور کہو کہ یہ جھوٹ ہے۔"وہ پھر سے اسے پکار رہا تھا۔میڈیکل ایڈ وہاں پہنچ چکی تھی۔
"ایکسکیوز می سر ہمیں ۔ ۔ نعش اٹھانے دیں۔"
اس نے اپنی سرخ متورم آنکھیں اوپر اٹھائیں۔
"تم۔ ۔ ۔تم اسے کیوں لیجانا چاہتے ہو۔ ۔ یہ زندہ ہے۔ ۔ ۔ زندہ ہے یہ""آرون" اس کے بابا نے اس کا بازو پکڑا۔
"چھوڑ دیں آپ مجھے ۔ ۔آپ کی وجہ سے ہوا ہے یہ سب۔ ۔ ۔ آپ کی وجہ سے میں نے اپنا دوست کھو دیا ۔ ۔ ۔"مسٹر ابراہم نے سر کو اسطرح جنبش دی گو یا اسکی بات کو سمجھ نہ پا رہا ہو۔"یہ ۔ ۔ ۔ یہ جو آپ دیکھ رہیں نا نیتن کی حالت۔ ۔ ۔ یہ آپ کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ۔ ۔ "اس کا سفید چہرہ سرخ ہو گیا۔اس کی سانس پھول گئی۔
"آرون پر سکون ہو جائو۔"سارہ نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔
اس نے اپنا بازو جھٹک دیا۔
وہ جنگل کی طرف بھاگا۔
"کتو ۔ ۔ ۔ کہاں ہو تم لوگ۔ ۔ بزدلو ۔ ۔ ۔اگر میں نے تمھارے جسم کو چیتھڑوں میں نہ بدل دیا تو میرا نام آرون نہیں ۔۔ ۔ اپنے بلوں سے باہر آئو۔ ۔ ۔ تمھاری موت تمھارا انتظار کر رہی ہے۔ ۔ ۔ سارے عرب مریں گے۔ ۔ ۔ نیتن کا انتقام لوں گا میں ۔ ۔ ۔ نیتن کا۔ ۔ ۔ "وہ چلا رہا تھا۔اسے اپنی آنکھوں کے سامنے اندھیرا محسوس ہو نے لگا۔
رفتہ رفتہ اس نے آنکھیں موند لیں ۔
اسکی سفید رنگ کی شرٹ اب سرخ ہو چکی تھی۔اس کے گلے کی چین گردن کا خون بہنے سے خون آلود ہو گئی تھی۔
😶😶😶
"وہ وقت دور نہیں جب ہمارے بہادر۔ ۔ ۔ان زمینوں پر تمھارا جینا محال کردیں گے۔ ۔ ۔ اور تم درختوں کے پیچھے پناہ لیتے پھرو گے۔ ۔ ۔ اے غاصب فوج۔ ۔ ۔ اگر عافیت چاہتے ہو تو قبضہ چھوڑنے میں ہی تمھاری بھلائی ہے۔"وہ دور بین سے حادثے کی جگی کے مناظر دیکھ رہا تھا۔
"قاسم ۔ ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تم نے دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے بیٹا۔ ۔ ۔ مگر ہمارا نقصان بھی کم نہیں ہے ۔"
اس نے دوربین ساتھ کھڑے نوجوان کو تھمائی۔اور ٹیلے سے نیچے اترنے لگے۔
"کمانڈر۔ ۔ ۔ہم نے اپنی پوری کوشش کی تھی۔مگر نہیں کر پائے۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ "
وہ نیچے زمین پر ہی بیٹھ گئے۔
"دیکھو بیٹا۔ ۔ ۔احمد کے گھر میں احمد واحد سہارہ تھا اپنے گھر والوں کے لیے ۔ ۔ ۔ اس کے بعد اس کے گھرمیں کوئی کمانے والا نہیں ۔اور دوسرا حمید اپنی ماں کا اکیلا بیٹا تھا۔۔ ۔ اسکی ماں اب اس دنیا میں اکیلی رہ گئی۔ ۔ "
"کمانڈر آپ مجھے بتائیں میں ان کے لیے کیا کرسکتا ہوں ۔"
اس نے دھیمے لہجے سے پوچھا۔
"اپنی کوتاہیوں کو اچھائی اور لوگوں کی مدد کر کے چھپائو بیٹا۔اسطرح سے تمہاری کوتاہی کے نتائج نیکیوں کے سمندر میں ڈوب جائیں گے ۔
اب تم ۔۔ مجھے یہ بتائو کہ تم میری بات سے کیا سمجھے؟"وہ ان کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔وہ اسکے جواب کے منتظر تھے۔
" کمانڈر میں حمید کی ماں کے لیے حمید۔ ۔ اور احمد کے گھر والوں کے لیے احمد بن جائوں۔ ۔ کہ انہیں کبھی لگے ہی نہ کہ ان کا سہارا چھوٹ گیا ہے۔"وہ دھیرے دھیرے بول رہا تھا۔
BINABASA MO ANG
عبداللہ الاسلام
Randomابھی اس نے وارڈروب کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا ۔ جب کسی نے پیچھے سے ہاتھ لا کر اسکے ناک اور منہ پر رکھ دیا۔اس نے ہاتھ ہٹانا چاہا مگر اسکی گرفت مضبوط تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں سے اسے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی تھی۔ مگر شاید حملہ آور اسے مارنے کے خیال سے آیا تھا۔...