پارٹ نمبر 2

89 6 2
                                    

عائشہ احمد
عبداللہ الاسلام
قسط نمبر 1
پارٹ 2

جون کی جھلستی دوپہر ٹھنڈی شام میں بدل رہی تھی۔سورج مغرب کی سمت بادلوں کی اوٹ میں چھپ رہا تھا۔ہلکی ہلکی ہوا نے شام کو اور مسحورکن بنادیا تھا۔سایے مشرق کی جانب تیزی سے بھاگ رہے تھے۔قبرستان جسے ویران اور اجڑا ہوا خیال کیا جاتا ہے آج کے دن تو وہاں بھی رونق تھی۔چہل پہل تھی۔

بچوں کے اچھل کود اور چہکنے کی آوازیں تھیں ۔
"فادی تم وہاں جائو اور اس پتھر پر کھڑے ہو کر پتنگ کو ہوا میں اچھالنا"  آٹھ نو سال کے بچے نے جس کے ہاتھ میں پتنگ کی ڈور تھی دوسرے بچے کو پتنگ تھماتے ہوئے کہا۔ دوسرےکی عمر اس سے ایک دو سال چھوٹی تھی۔

قدرے فاصلے پر دو پینتالیس سالہ شخص ایک سلیب کے ٹکڑے پر بیٹھے محو گفتگو تھے۔وہ کبھی کبھار بچوں کی جانب بھی نگاہ دوڑا لیتے۔ان کے چہروں پر چھائی سنجیدگی اور افسردگی اس بات کا پتا دے رہی تھی کہ وہ حالات زندگی سے نالا  ہیں ۔کوئی جدید دنیا کا متوالہ ہوتا تو ان سے پوچھتا کہ بھائی یہ قبرستان ہے یہاں مردے دفنائے جاتے ہیں۔ ۔کیا یہی جگہ ہے تم لوگوں کے پاس تفریح کے لیے،باتیں کرنے کے لیے ،وقت گزاری کے لیے ۔؟؟

دوسرے بچے نے ایک سلیب پر کھڑے ہو کر پتنگ کو ہوا میں اچھالا تو ساتھ ہی پہلا بچہ جس کا نام خلف تھا اس نے اسکی ڈور کھینچ کر اسے ہوا میں لہرانا چاہا مگر اگلے ہی لمحے وہ پھر سے زمین بوس ہوگئی۔

فادی جو ابھی تک وہیں کھڑا تھا۔بھاگا بھاگا اس کے قریب آیا۔
"اسے کیا ہوا؟؟"اسکی نظریں سامنے کی جانب جمی تھیں۔جہاں خلف کا ہی ہم عمر ایک پتھر پر بیٹھا کنکریوں سے کھیل رہا تھا۔وہ کنکری اٹھاتا اور پھر دھیرے سے اسے دور اچھال دیتا۔وہ کسی گہری سوچ میں گم تھا۔

"ہمیں اسے لے کر بھاگنا ہوگا پھر شاید یہ کام کر جائے"خلف جس کی اس طرف سے پیٹھ تھی اور اسکی نظریں ہاتھ میں پکڑی پتنگ پر جمی تھیں نے جواب دیا۔
"نہیں نہیں میں یزان کی بات کر رہا ہوں ۔پیچھے دیکھو وہ کب سے ایسے ہی بیٹھا ہے۔خاموش۔"فادی نے اسکی توجہ اسکی طرف مبذول کروائی۔

خلف نے مڑ کر دیکھا تو اسے پکارا "یزان "۔اپنے نام پکارے جانے پر اس نے گردن اوپر اٹھا کر ایک نظر ان کی طرف دیکھا تھا۔وہ افسردہ دکھ رہا تھا۔اس نے بغیر کچھ کہے پھر سے نظریں جھکالیں۔

خلف نے سیدھا منہ کر لیا۔"ہم بھاگ کر دیکھتے ہیں پھر شاید اڑ جائے یہ۔"وہ فادی سے بولا۔
"ویسے یزان کو ہوا کیا ہے؟"فادی نے پوچھا۔
"پچھلے ہفتے سپاہی زدان کو لے گئے تھے۔جب ریڈ کے دوران اس نے سپاہیوں سے بحث کی۔یہ اپنے بھائی کے لیے اداس ہے۔"خلف نے اسے بتایا یعنی اسے اسکی افسردگی کی وجہ معلوم تھی۔
"ابھی تک نہیں چھوڑا اسے؟؟"
"نہیں "خلف نے جواب دیا۔

وہ دونوں بھاگنے لگے یہاں تک کہ قبرستان کا داخلی دروازہ آگیا۔پتنگ ہوا میں پھڑپھڑانے لگا اس کے ہاتھ میں موجود ڈور اب پتنگ کے ساتھ ساتھ اوپر کی اور جانے لگی یہاں تک کہ وہ قبرستان سے باہر تھے اور ان کی پتنگ اونچے کھمبے میں الجھ کر رہ گئی تھی۔
"اللہ ۔ ۔نہیں "چھوٹے فادی نے اپنی نظریں پتنگ پر جمائے اس کے اٹک جانے پر افسوس کا اظہار کیا ۔گویا اسکی کل دنیا اوپر اٹک کر رہ گئی ہو۔ّکافی دنوں کے بعد آج ہی تو اسے کھیلنے کا موقع ملا تھا۔

عبداللہ الاسلام Donde viven las historias. Descúbrelo ahora