باب 13

43 4 0
                                    

کمرے میں قریبااندھیرا تھا۔ لیمپ کی مدھم روشنی  کمرے کو نیم مدھر کیئے ہوئے تھی۔صبح کے تین بج رہے تھے۔فضا میں ہر طرف سکوت تھا اور اس کے کمرے میں بھی۔
وہ اپنے بیڈ پر خاموشی سے بیٹھا ہوا تھا۔نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ ۔ مگر چند گھنٹے پہلے وہ پرسکون سو رہا تھا۔ ۔ مگر درمیان کے ان گھنٹوں میں اس کے ذہن میں کافی کچھ چل رہا تھا۔
اس نے اب تک اپنے خیالات میں کئی فیصلے لئے تھے ۔
"سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کروں۔ ۔ ہر شے عجیب موڑ پر ہے۔ ۔ بھائی ماں اور بہن کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ وہ صحیح راستے پر ہیں ۔ ۔ اور آج بابا کے پاس بیٹھ کر احساس ہوا کہ وہ بھی غلط نہیں ۔ ۔ اپنی جگہ پر وہ بھی ٹھیک کہتے ہیں ۔ ۔ ۔آخر یہ تمام آسائیشیں۔ ۔ یروشلم میں  عالی شان گھر۔ ۔ اور یہ شاہانہ زندگی۔ ۔ وہ یہ سب ہمارے ہیلیے تو کر رہے ہیں ۔ ۔ ہمارے لیے انہوں نے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالا۔ ۔ مگر ہم بدلے میں انہیں کیا دے رہے ہیں دھوکہ؟"وہ سوچ رہا تھا۔اس کے دماغ میں خیالات امڈتے چلے آرہے تھے۔
خیالات نے مزید تانتا باندھا۔
"وہ صحیح تو کہرہے تھے آج ان کی کوششوں کی وجہ ہی سے ہم یہاں ہیں ۔ ۔ ورنہ تو شاید ہمارے پاس اپنا گھر بھی نہ ہوتا۔ ۔ کسی پناہگزین کیمپ میں غربت کی زندگی گزار رہے ہوتے۔ ۔ جہاں نہ پینے کیلئے پانی ہے اور نہ کھانے کیلئے روٹی۔ ۔ دوسری آسائشیں تو بہت دور کی بات ہیں ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ "اس نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا وہ کئی لمحے ایسے ہی بیٹھا رہااور پھر دھیرے سے منہ اوپر اٹھایا۔وہ اپنی جگہ سے اٹھا کھڑکی کے پاس جا کر پردے ہٹائے۔وہ کھڑکی بھی گھر کے وسیع و عریض لان میں ہی کھلتی تھی ۔اس نے کھڑکی کھول دی ۔ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے اس کے چہرے کو دھیرے  سے چھولیا۔گویا اس کے لیے سلامتی لائی ہو۔اسکے لب بڑبڑانے لگا۔
"یا اللہ ۔ ۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ میں کیا کروں۔ ۔ یہاں تو کوئی ایسا شخص بھی نہیں جس سے میں اپنے دل کی بات کہسکوں۔ ۔ کوئی درمیانی بات سوچنا نہیں چاہتا۔ ۔ امی جان۔  بھائی سے بات کروں گا تو وہ مجھے دشمن کا ساتھی خیال کرنے لگیں گے۔ ۔ اور پھر میں ان کے لیے ان کا دشمن بن جائوں گا۔ ۔ بابا کو ِحقیقت بتائوں گا تو وہ تو شاید ہم سب کو گولی مار کر وہیں ختم کردیں۔ ۔ دوانتہائیں ہیں ۔ ۔ سیاہ ہے یا سفید۔ ۔بیچ کا کوئی راستہ ہی نہیں ۔ ۔  میں کیا کروں۔ ۔ کہاں جائوں۔ ۔ مجھے ایک ہی راستہ چننا ہے مگر سب کو بچانا ہے اس آگ سے جس کے کنارے پر ہم سب کھڑے ہیں ۔"
اس نے وضو کیا ۔ ۔ جائے نماز بچھایا۔اللہ اکبر کہکر نماز کی نیت کی۔
وہ سجدے میں تھا۔جب دروازے پر دستک ہوئی۔
"خلف"اسکی ماں کی آواز تھی۔چونکہ دروازہ کھلا تھا تو وہ دھیرے سے اندر داخل ہوگئیں ۔
اسےنماز پڑھتا دیکھ کر اس کا انتظار کرنے کے لیے وہیں بیڈ پر بیٹھ گئی۔

😶😶😶
خلف نے سلام پھیرا۔ ۔ ۔ اسکی ماں چونکہ پیچھے بیٹھی اسکا اںتظار کر رہی تھی۔اس نے درودشریف پڑھنے پر ہی اکتفا کیا۔مصلے کو تہ کرکے میز پر رکھا۔اور ماں کی طرف دیکھنے لگا جو اسے ہی دیکھ رہی تھیں ۔
"دعا مانگ لیتے بیٹا۔ ۔ ۔"اسکی ماں دھیرے سے بولی۔

عبداللہ الاسلام Where stories live. Discover now