سارہ نے اپنے ہاتھ اوپر نہ کیے۔
"میں نے کہا ۔ ۔ ۔ ہتھیار چھوڑ دو اور ہاتھ اوپر کرلو۔"اب کی بار گرج دار آواز آئی۔
نیتن نے پھرتی سے پلٹ کر اس پر حملہ کرنا چاہا تو اس سے پہلے ہی ایک زور دار تھپڑ نے اسے زمین پر ڈھیر کر دیا اور پستول اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گرا۔
آرون نے اسے بچانے کے لیے جھپٹ کر حملہ کرنا چاہا تو اسے بھی دوسرے شخص نے جھپٹ لیا۔اور پستول کا بٹ اسکی کمر پر دے مارا۔
وہ بے ہوش ہو کر گر گیا۔
"تم سب مرو گے دہشت گردو۔"سارہ اونچی آواز میں چلا رہی تھی۔
"تم چپ ہو جائو خاتون۔"ایک بھاری آواز سے اسے چپ کروایا گیا۔
"چلو جلدی کرو باندھو انہیں ۔ ۔ ۔ہمیں نکلنا ہے یہاں سے۔"دونوں میں سے ایک نے اونچی آواز میں کہا۔آرون کے دونوں ہاتھوں کو پیچھے کی طرف باندھ دیا گیا اور دونوں ٹانگوں کو بھی۔
سارہ اور نیتن کو باندھ کر جنگل میں ایک فاصلے پر کھڑی جیپ میں ڈال دیا گیا۔
"آرون تم۔ٹھیک ہو میری جان"سارہ نے جب انہیں آرون کو دوسری طرف لیجاتے دیکھا تو اونچی آواز میں اسے پکار کر پوچھنے لگی ۔"سارہ زیادہ بات مت کرو۔ ۔ وہ ٹھیک ہوگا ۔۔۔ بالکل"نیتن نے اس کے پاس سرگوشی کی ۔
اس نے ایک نظر نیتن کی طرف دیکھا۔پھر سیدھی ہوگئی۔😶😶😶
ڈیوڈا دروازے کے باہر اس کا انتظار کر رہی تھی۔
"مجھے لگا میں بلانے نہیں آوں گی تو تم نہیں آو گی۔"
اس نے گلا کرتے ہوئے کہا۔"دراصل کام کرنے کے بعد میں اتنا تھک گئی ۔ ۔کہ سوچا کہ رہنے دوں۔ ۔ ۔اسلیے آرام کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔"
سیڑھیاں اترتے ہوئے وہ اسے بتا رہی تھیں ۔"اصل میں بابا نے بتایا تھا کہ تم لوگ یہاں دو دن کے لیے ٹھہرنے والے ہو۔ ۔ ۔ اسلیے میں چاہ رہی تھی کہ ہم میں دوستی ہو جائےاور ہم یہ وقت اکٹھے گزار لیں۔"وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
"امانی جب ڈیوڈا سے ملو تو ضرور پوچھنا کہ اس کے بابا کہاں گئے ہیں ؟۔"ہانی آپا نے اس سے کہا تو اس نے انہیں اجنبی نظروں سے دیکھا ۔
"مگر ہانی آپا ہمیں ان کے پرسنل میٹر کے بارے میں جاننے کی کیا ضرورت ہے ۔وہ۔ ۔ ۔ ذونا نے پوچھا تھا نا۔ ۔ ۔ تو اس نے نہیں بتایا تھا۔"وہ ہانی آپا کو سمجھانے والے انداز میں کہرہی تھی۔
"اصل میں مجھے ان کی فکر ہو رہی ہے وہ اسطرح سے اچانک چلے گئے ہیں تو کوئی خطرے والی بات نہ ہو "ہانی آپا نے اپنی فکر ظاہر کی۔
"اب انہوں نے ہمارے لیے اتنا کچھ کیا ہے تو ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ انکے بارے میں فکر کریں۔ ۔ ۔اب تو ہم ایک ہیں ۔""ڈیوڈا"اس نے اسے پکارا۔
"ہممم"وہ مڑ کر اسے دیکھنے لگی۔
"تمھارے بابا اچانک سے چلے گئے تھے۔سب خیریت تو تھی نا۔ ۔ ۔ یعنی ہمیں فکر ہو رہی تھی ۔ ۔ ۔وہ ٹھیک تو ہیں نا۔"وہ بہت فکرمند لگ رہی تھی۔"ڈرو نہیں سب ٹھیک ہے ۔"وہ کمرے کی طرف جانے لگیں۔
"اصل میں وہ جانے سے پہلے ہمیں بتاتے نہیں ہیں ۔ ۔ ۔مگر مجھے یقین ہے۔ ۔ ۔ کہ وہ بھائی کو ہی لینے گئے ہوں گے۔"وہ مسکرا رہی تھی ۔
"پھر تو فکر والی کوئی بات نہیں ہے ۔ اچھا ہے۔"
وہ مسکرا دی۔
"ہاں بالکل۔"اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
YOU ARE READING
عبداللہ الاسلام
Randomابھی اس نے وارڈروب کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا ۔ جب کسی نے پیچھے سے ہاتھ لا کر اسکے ناک اور منہ پر رکھ دیا۔اس نے ہاتھ ہٹانا چاہا مگر اسکی گرفت مضبوط تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں سے اسے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی تھی۔ مگر شاید حملہ آور اسے مارنے کے خیال سے آیا تھا۔...