باب 10

31 4 0
                                    

ذونا کچن سے ہاتھ میں پانی کا گلاس اٹھائے نکل رہی تھی۔جب اس نے امانی کو کچن سے آخری سیڑھیوں پر دیکھا تھا۔
اس نے دیکھا کہ وہ رو رہی ہے۔اس نے تیوڑی چڑھائی۔
مگر اس سے پہلے کہ وہ اس تک پہنچتی وہ دروازے سے باہر نکل چکی تھی۔
وہ کبھی دروازے کی طرف تو کبھی سیڑھیوں کی طرف دیکھنے لگی گویا معاملہ کیا ہے وہ سمجھنا چاہ رہی ہو۔
اس نے گلاس ہونٹوں سے لگایا۔گھٹا گھٹ پانی کو اندر کیا۔گلاس کو شیلف پر پٹخ دیا۔

دونوں گھروں کے درمیان ایک لمبے چوڑے لان کا فاصلہ تھا۔جس پر کافی تعداد میں مختلف اقسام کے درخت بھی لگائے گئے تھے۔مگر ہر طرف گھاس تھی۔
مین گیٹ دونوں گھروں کا ایک ہی تھا۔اور باقی ذیلی دروازے کئی تھے۔
وہ جیسے ہی گھر سے باہر نکلی۔وہ کھلی فضا میں سانس لینے لگی۔
ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔
وہ گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ گئی۔
وہ دونوں گھروں کے درمیان برابر فاصلے پر تھی قریبا۔
لان میں کوئی بھی موجود نہیں تھا۔
وہ رو رہی تھی۔
جیسے جیسےوہ ۔ ۔ ۔ کچھ لمحے پہلے ۔ ۔ ۔ گزرنے والے لمحات ۔ ۔   کو محسوس کرتی وہ اسی طرح اور زیادہ رونے لگ جاتی۔
اسکی ہچکی بندھ گئی تھی۔
اس نے دونوں ہاتھوں سے گھاس کو پکڑا ہوا تھااور اپنے رونے کی آواز کو اندر ہی دبالیا۔ اپنی آنکھیں زور سے میچ لیں۔آنسوؤں کا ایک ریلہ اس کے گالوں پر آگیا۔اور گھاس پر اس کے آنسو ٹپ ٹپ کر کے گرنے لگے۔

اس نے موبائل کو اٹھا کر صوفے پر قریبا پٹخا تھا۔
اور خود اپنے دونوں بازووں کو سر کے پیچھے ٹکا کر بیڈ کے ساتھ ٹیک لگالی۔دونوں ٹانگیں اوپر بیڈ پر بچھائی ہوئیں تھیں ۔جوتے اس کے پائوں میں ہی تھے۔

"مجھے آپ کو اپنا بھائی کہتے ہوئے شرم آرہی ہے۔ ۔ ۔"اس نے ذونا کے آخری الفاظ یاد کیئے۔
"بیوقوف۔ ۔  "وہ سنجیدگی سے بڑبڑایا۔
سر کو ایک خاص انداز سے جنبش دی گویا کہ رہا ہو ڈیوڈا ابھی نا سمجھ ہے۔
وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔صوفے پر پڑے اپنے موبائل کی طرف دیکھا۔

"سارہ"اس کے لبوں نے اسکا نام پکارا۔
اس نے لپک کر صوفے سے فون اٹھایا۔
سارہ کی تین مسڈ کالز اور باقی میسیجز آئے ہوئے تھے۔
اس نے میسیجز اوپن نہیں کیئے۔براہ راست کونٹیکٹ لسٹ میں سے اس کا نمبر نکالا اور کال کے لیے آپشن پر ٹچ کرنے لگا کہ دروازے پر دستک نے اسکے ہاتھ روک دیئے۔
"آہ۔ ۔ میں نے مام سے کہا بھی تھا کہ مجھے کوئی بھی دسٹرب نہ کرے۔ ۔ ۔ مگر بھر بھی یہ لوگ باز نہیں آنے والے ۔ ۔ ۔"وہ بڑبڑاتے ہوئے کمرے کا دروازہ کھولنے کے لیے لپکا۔
ذونا دروازے پر کھڑی تھی۔
"سوری۔ ۔ میں نے آپ کو پریشان کیا۔ ۔ ۔"اس نے تمہید باندھی۔
"آپ کو کوئی کام ہے؟۔ ۔ ۔ "اس نے دروازہ نہیں چھوڑا تھا،وہیں کھڑےکھڑے سنجیدگی سے پوچھا۔
"اہ۔ ۔ "وہ ہلکا سا مسکرائی۔
"دراصل امانی کو مام بلا رہی ہیں ۔ ۔ ۔ وہ آئی تھی یہاں۔ ۔ ۔ انہوں نے بتایا۔"اس نے مصنوعی ہنسنے کی اداکاری کی۔
"آہ ۔ ۔  یعنی میں کسی حد تک درست تھا۔ ۔ "وہ آنکھیں ملتے ہوئے دھیرے سے بولا۔
"جی؟؟"وہ بولی گویا اسے سمجھ نہ آئی ہو۔
"وہ یہاں آئی تھی ۔ ۔ مگر کافی دیر پہلے۔ ۔ اب وہ جا چکی ہے۔ ۔   "اس نے اپنے غصے اور اپنی حقارت کو دھیرے سے بول کر چھپا لیا۔
وہ اچنبی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
وہ دروازہ بند کرنے لگا تو وہ بولی۔
"کس۔ ۔    کام ۔ ۔ ۔ سے آئی تھی۔ ۔ وہ؟"اسکا تجسس بڑھا۔
"مس ذونا ۔ ۔ اس سے پہلے کہ میں اپنے آپے سے باہر آئوں ۔ ۔ ۔ جائو یہاں سے ۔"اس کے لہجے میں سختی آگئی تھی۔
اس نے دھک سے دروازہ بند کیا تو وہ ایک دم سے ادھکی۔
😶😶😶
گھر کا دروازہ چپاٹ کھلا تھا۔سامنے لائونج میں اس کے بابا اور امی جان محو گفتگو تھے۔
اس نے ایک نظر دروازے کی اوڑ سے جھک کر دیکھا۔
پھر سیدھی ہوگئی۔

عبداللہ الاسلام Where stories live. Discover now