اس کے ہاتھ میں لاکٹ تھاجس میں پانچ توکونوں والا ستارہ نیچےکی جانب لٹک کر جھول رہا تھا۔
وہ اس ستارے کو ہاتھ میں پکڑتا ۔ ۔ ۔ پھر چھوڑ دیتا۔ ۔ پھر پکڑتا۔ ۔ ۔ پھر چھوڑ دیتا۔"
وہ ہسپتال کے کمرے میں بستر پر ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔پیچھے بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائی ہوئی اور ایک ٹانگ کو فولڈ اوردوسری کو بچھایا ہوا تھا۔
لاکٹ والا ہاتھ اس کے گھٹنے پر تھا۔سارہ کچھ فاصلے پہ کرسی پر بیٹھی اسے کافی وقت سےدیکھ رہی تھی۔
اسکی آنکھیں نم تھیں ۔
اور وہ گم صم بیٹھا تھا۔
وہ ایسے بیٹھا تھا کہ گویا اسے سمجھ نہ آرہا ہو کہ وہ کیا کرے۔وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔وہ اٹھی اور دھیرے دھیرے اسکے پاس آنے لگی۔
لاکٹ خون آلودہ تھا۔
اس نے اس کے ہاتھ سے وہ لینا چاہا ۔تو اس نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا۔
"آرون۔ ۔ "اس نے اسے پکارا۔
وہ اسکی پکار پر اسکی طرف دیکھنے لگا۔
سارہ نے دیکھا کہ اسکی آنکھیں ابھی بھی سرخ متورم تھیں۔مگر اب ان میں آنسو جم گئے تھے شاید۔
اس نے اسے ایسی گھمبیر نظر سے دیکھا کہ وہ مزید کچھ بول نہیں پائی۔
سارہ کے آنسو بہہ کر اسکی گال پر آگیے تھے۔
دروازے پر دستک ہوئی۔
سارہ نےاٹھ کر دروازہ کھولا۔
"ڈسٹرب کرنے پر معذرت ۔ ۔ ۔یہ آپ کا سامان آپ کی گاڑی سے ملا ہے۔"اس نے سارہ کی طرف وہ کپڑے بڑھائے جو انہوں نے خریدے تھے۔
"کوئی بات نہیں "سارہ نے وہ پکڑ لیے ۔"یہ کپڑے ہیں۔"اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور کپڑے ٹیبل پر رکھدیے۔اور پھر اسکے پاس آکر بیٹھ گئی۔
اس نے اپنے ہاتھ میں موجود لاکٹ کو سائیڈ پر رکھا اور خود اپنے بستر سے اٹھ کر ان کپڑوں کی طرف بڑھ گیا۔وہ پیچھے مڑ کر اسے دیکھنے لگی۔"یہ کپڑے۔ ۔ ۔ اسکی موت کے زمہ دار بنے ہیں ۔ ۔ ۔ سارہ"وہ دھیرے دھیرے سے انہیں کھولنے لگا۔
سارہ اس کے پاس آگئی"کاش میں ۔ ۔ انہیں نہ لاتا۔
۔ بلکہ جو وہ میرے لیے لایا تھا۔ ۔ ۔ وہی پہن لیتا۔"آنسو اسکی گال پر تھے۔
"اسکا مطلب تو یہ ہوا کہ میں بھی زمہ دار ہوں پھر۔ ۔ ۔ آرون۔"وہ رندھی ہوئی آواز سے بولی۔
"تم ذمہ دار نہیں ہو۔ ۔ ۔ سارہ۔ ۔ ۔ میں ہوں۔ ۔ میں نے مارا ہے اپنے دوست کو۔ ۔ ۔ "وہ اونچی آواز میں چلا رہا تھا۔اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔گردن کی رگیں ابھر گئیں ۔
"آرون۔ ۔ آرون ۔ ۔ پلیز پرسکون ہو جاو۔"وہ رونے لگی۔
اس نے اسے روتا دیکھا تو چپ ہو گیا۔
وہ اس کے گلے لگ گئی۔
اس نے سارہ کو اپنے بازووں میں تھام لیا۔
کچھ لمحے توقف کے بعد اس نے اسے خود سے الگ کیا۔اور کمرے سے باہر چل دیا۔
وہ بھی اس کے پیچھے چل دی۔
وہ سرد خانے کی طرف جا رہا تھا۔
"نیتن "کا نام جس کیبن پر تحریر تھا۔اس نے اسکا دروازہ کھولا۔
😶😶😶
امانی کومطالعہ میں رلچسپی تھی ۔ ۔ اور اسکا یہ شوق اسکے بھائی قاسم کی وجہ سے بڑھا۔
وہ ہمیشہ ہر ماہ اس کے لیے کوئی نا کوئی کتاب لاتے اور وہ بڑے شوق سے اسے مکمل پڑھ کر اپنے بھائی کو سناتی کہ اس نے کیا پڑھا ہے۔
YOU ARE READING
عبداللہ الاسلام
Randomابھی اس نے وارڈروب کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا ۔ جب کسی نے پیچھے سے ہاتھ لا کر اسکے ناک اور منہ پر رکھ دیا۔اس نے ہاتھ ہٹانا چاہا مگر اسکی گرفت مضبوط تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں سے اسے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی تھی۔ مگر شاید حملہ آور اسے مارنے کے خیال سے آیا تھا۔...