ذکی سے ذکریٰ یوسف رحمانی بننے تک کا سفر بے حد کھٹن گزرا تھا۔ اس شخص کو اتنے برسوں بعد اپنے سامنے دیکھ کر ماضی کی کتاب کی تلخ یادیں اس کے سامنے کھلنے لگیں۔ وہ اپنے دل کے کسی کونے میں ساری یادیں دفنا چکی تھی لیکن اس شخص کے سامنے آتے ہی ساری اذیتیں یاد آئی تھی۔ وہ اپنے ماضی سے حال میں تب واپس لوٹی جب کسی نے اسکے سامنے چٹکی بجائی تھی پھر اپنے سامنے اس شخص کو دیکھ کر اسکی آنکھوں میں سرد مہری اتر آئی تھی۔
شمروز احمد صدیقی تو صحیح معنوں میں حیران و پریشان ہوا تھا لیکن اب اس نے اپنے چہرے کے تاثرات کو نارمل بنا لیا تھا۔
"ہمم!!!....مسٹر صدیقی!!!.....کیا ہماری انڈسٹری آپ کے معیار پہ پورا اترتی ہیں؟" وہ فائل میں سر جھکائیں مصروف انداز میں بولی تھی۔ اس کے سوال پر شم کچھ گڑبڑایا تھا لیکن اس نے صرف ہاں میں سرہلانے پر اکتفا کیا تھا۔
"اچھا ٹھیک ہے۔ اب آپ جاسکتے ہیں۔" وہ سپاٹ لہجے میں بول کر اپنے لیپ ٹاپ پرمصروف ہوگئی تھی لیکن شم کو عجیب محسوس ہوا تھا۔ نہ کوئی تفصیلی بات نہ کوئی رسمی گفتگو۔ وہ کچھ دیر وہی بیٹھا سوچتا رہ گیا۔
"اگر کان میں آپ کے کچھ مسلہ ہے تو پہلے ہی بتادیں۔ اگلی بار زور سے بولنے کی کوشش رہے گی میری۔" وہی سرد لہجہ۔ شم سر جھٹک کر اٹھ کھڑا ہوا۔
"مسٹر صدیقی!!!......" پیچھے سے ذکریٰ کی سرد آواز نے اسکے بڑھتے قدموں کو روکا۔
وہ پیچھے مڑا تھا۔
"شاید کان کے ساتھ ساتھ آپ کے دماغ کے ساتھ بھی کچھ مسلہ ہے۔" وہی مصروف اور سرد انداز۔
اسکی بات سے وہ ناسمجھی سے اسکی جانب دیکھنے لگا۔
"آپ کی یہ فائل میں اپنے الماری کی زینت بنا کر کیا کروں گی؟ لے کر جائیں اسے۔"
شم ضبط کرتے ہوۓ آگے بڑھا اور فائل لے کر نکل پڑا۔
__________________________________روز رات کو اسکی نیند آنکھوں سے کوسوں دور رہتی تھی۔ وہ بے چینی کے عالم میں اپنی پوری پوری رات گزاردیتا تھا۔ جب جب اپنے محبوب کے عشق میں تڑپتا تھا اس رات میں وہ سگریٹ کا کش بھرپور لگاتے رہتا تھا۔ رات کے کسی پہر اسکی آنکھ لگ گئی تھیں۔ اب اسکا الارم چیخ چیخ کر اسے جگا رہا تھا۔ اس نے لیٹے لیٹے ہی الارم بند کیا۔ ٹائم دیکھا تو صبح کے سات بج رہے تھے۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر میں ہی دروازے پر دستک ہوئی پھر اسکی مما کمرے میں داخل ہوئی۔ ان کی نظر سب سے پہلے ٹیبل پر پڑیں ڈھیر سارے بجھے سگریٹس کی جانب گئی۔ وہ ناراضگی سے اسکی جانب دیکھنے لگیں۔
"پھر تم نے کل اتنی ساری سگریٹ پی لی۔" وہ سگریٹ کا ٹرے اٹھاتے ہوۓ بولیں۔
وہ سر کھجاتے ہوۓ انہیں دیکھنے لگا۔
"افف مما!!!...تھوڑی سی تو پی ہے۔" وہ مسکراتے ہوۓ بولا۔
وہ بول ہی رہا تھا کہ ان کی نظر اپنے لاڈلے بیٹے کی کلائی پر گئی جہاں جلنے کے نشان واضع نظر آرہے تھے۔ وہ تڑپ کر اسکے پاس آئیں۔
"ازمیر یہ کیا حرکت کی ہے تم نے۔" وہ ناراضگی سے اسکی جانب دیکھتے ہوۓ بولی۔ تو وہ اپنی نظریں چرا گیا۔
"مما میں آفس کے لئے لیٹ ہوجاؤں گا پلیز۔" وہ بیڈ سے اٹھتے ہوۓ بولا۔
"آخر کب تک تم ایسا کرتے رہو گے؟ اگر وہ نہیں ملی تو کیا اپنی جان لے لو گے۔"
"مما!!!...." ان کی بات سن کر وہ تڑپ ہی تو گیا تھا۔
اس کے نا ملنے کاخیال ہی اتنا جان لیوا تھا۔ وہ اس کے آگے کچھ نہ سوچ سکا۔
"آپ ایسی باتیں کیوں کرتی ہیں؟" وہ انہیں اپنے آپ سے لگاتے ہوۓ بولا۔
"تو کیسی باتیں کروں؟" وہ ہنوز ناراض تھیں۔
"اچھی اچھی باتیں کریں۔"
"جیسے کہ......." اسکی مما نے ابرو اچکا کر پوچھا۔
"جیسے کہ اپنی بہو کو لاؤں گی۔ پھر اسے ڈھیر سارا پیار کروں گی۔" وہ شرارتی لہجے میں بولا۔
"ہنہہ!!!.....جاؤ جاؤ آفس میں جاؤ تم!!....اور جلدی سے نیچے آؤ ناشتہ تیار ہے۔" وہ اسے آہستہ سے ڈپٹ کر چلی گئیں تو ازمیر مسکراتے ہوۓ واش روم میں گھس گیا۔
YOU ARE READING
عشق تماشہ از قلم رابعہ انصاری
Romanceکہانی ہے کسی کے لاحاصل عشق کی...کسی کی یکطرفہ عشق کی داستاں....کہانی ہے عشق میں تماشہ بننے والی لڑکی کی....کہانی ہے زندگی کے مشکل امتحان سے لڑنے والی لڑکی کی....کسی کی اذیتوں کی داستاں...کسی کی نفرت کی داستاں....کسی کی محبت کی داستاں....کون پاۓ گا ا...