قسط : ۱۹

669 59 32
                                    

وہ آفس میں بیٹھے کچھ فائلس چیک کر رہا تھا تب اسکا فون بجا۔ اس نے فون اٹھایا۔
"یس شمروز احمد صدیقی اسپیکنگ!!!"
"گڈ مارننگ سر!!!.....ذکریٰ میم آپ کے ساتھ پارٹنر شپ کے لئے تیار ہیں۔ پلیز آپ اپنے سارے ڈاکیومینٹس میل کر دیں مجھے۔" وہ نہایت شائستگی سے بولا۔
"اوہ!!!....ڈیٹس ا گڈ نیوز!!!....میں آپ کو جلد میل کردوں گا۔" وہ خوش ہوا تھا۔
"اوکے سر میں انتظار کروں گا۔"وہ کہہ کر فون رکھ چکا تھا۔ اس نے اپنا فون ابھی ٹیبل پر رکھا ہی تھا کہ کسی انجان نمبر سے پھر فون آیا۔
"یس شمروز احمد صدیقی اسپیکنگ!!!...."
"ذکریٰ یوسف رحمانی ہیئر!!!...." اس نے پر اعتماد لہجے میں کہا۔ کچھ لمحوں کے لئے دونوں خاموش ہوۓ تھے۔
"مسٹر صدیقی!!!....کل سےآپ جوائن کر سکتے ہیں ہمیں۔" وہ رسمی انداز میں گفتگو کر رہی تھی۔
"اوکے!!!..."
"کچھ اصول ہیں میرے جنھیں آپ کو پابندی سے فولو کرنے ہوں گے۔" اسکا لہجا سنجیدہ ہوچکا تھا۔
شم خاموشی سے اس کی بات کو سن رہا تھا۔
"آپ مینیجر صاحب سے بات کر لیں وہ آپ کو سب سمجھا دیں گے۔" وہ اپنی بات کہہ کر فون کاٹ چکی تھی۔ شم نے لمبی سانس فضا میں خارج کی۔

__________________________________

آج آفس سے وہ جان بوجھ کر لیٹ آئی تھی۔ اس کا دل پتا نہیں کیوں بوجھل ہو رہا تھا۔ وہ چاہے باہر سے کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو اندر سے بکھری ہوئی ہی تھی۔ اس کا من کر رہا تھا وہ اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر خوب روئیں۔ وہ فریش ہو کر امی کے کمرے میں آئی تو دیکھا نازیہ بیگم چت لیٹے چھت کو گھورنے میں مصروف تھیں۔ وہ کھانے کی ٹرے لے کر ان کے قریب آئیں۔
"امی!!!..." اس نے دھیمے انداز میں پکارا لیکن وہ شاید سن نہیں پائیں تھیں۔
"امی!!!...." اب اس نے اپنے ہاتھ کا دباؤ ان کے پیر پر ڈالا تو وہ چونک کر اس کی جانب متوجہ ہوئیں۔پھر آہستہ سے مسکرا کر وہ اٹھ بیٹھی تھی۔ کیا ذکریٰ نہیں جانتی تھی کہ ان کی یہ ہنسی کتنی کھوکھلی ہیں!!...
"آگئی میری بچی!!!...." وہ ماتھے پر پیار کرتے ہوۓ بولیں۔
"ہاں اور آپ جلدی سے میرے ساتھ کھانا کھائیں مجھے بہت تیز بھوک لگی ہے۔" اس نے روز کا کہا جانے والا جملہ دہرایا۔ وہ جانتی تھی جب تک وہ کھانا نہیں کھاتی ہیں نازیہ بیگم بھی کچھ نہیں کھاتیں اس لئے وہ روز ہی کھانے کی ٹرے لے کر حاضر ہوجاتی تھی۔
"تمہیں کب بھوک تیز نہیں لگتی؟" وہ مسکراتے ہوۓ بولیں۔
"جب آپ کو نہیں دیکھتی ہوں تو بھوک ہی نہیں لگتی ہیں۔ آپ کو جیسے ہی دیکھتی ہوں تو بھوک کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔" وہ ہنستے ہوۓ بولی تو امی بھی ہنس دیں۔
"میں کیا بریانی ہوں کوئی؟" وہ مصنوعی خفگی سے بولیں۔
"میری نظر سے دیکھو تو شاید!!!...." وہ شرارت سے کہتی ایک لقمہ ان کے منہ میں ڈال گئی۔
"آپ نے دوپہر کی دوا لیں وقت پر؟" ذکریٰ نے کھاتے ہوۓ سوال کیا۔
"ہاں لے لیا تھا۔ تم کیوں اتنی ٹینشن لیتی ہو میری!!!...اب تمھاری امی کی عمر ہوگئی ہے بیٹا!!!....." ان کے ایسا کہنے پر وہ تڑپ ہی تو گئی تھی۔ اسکاکھانا کھاتا ہوا ہاتھ یکدم سے تھما تھا۔
"امی پلیز!!!...." وہ اپنا لقمہ واپس پلیٹ میں ڈال گئی۔ یہ ناراضگی کا اظہار تھا۔اب اپنے ان قیمتی رشتے کو کھونے کا سوچنا بھی سوہان روح تھا۔
"چلو اب تم ناراض مت ہو!!!....کوئی بری بات تو نہیں کہی میں نے۔ جانے والے تو چلے جاتے ہیں نا!!...وہ کہاں دیکھتے ہیں کہ کوئی ان سے کتنی محبت کرتا ہے یا کوئی کتنا تڑپ رہا ہے ان کی یاد میں۔" ان کا لہجہ بھرا گیا تھا۔
ذکریٰ نے اپنے امڈنے والے آنسوؤں کو بمشکل کنٹرول کیا۔ وہ ان کے سامنے بالکل بھی کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی۔
"امی چلیں جلدی جلدی کھانا کھائیں۔" وہ ان کا دھیان ہٹانا چاہتی تھی۔
"میرا لختِ جگر, میرا فرحان چھوڑ کر چلا گیا نا مجھے!!...اسے بھی یہ بریانی بہت پسند تھی۔" وہ اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہی تھیں۔
"امی یہ جلدی سے کھانا ختم کریں پھر آپ کو دوا بھی لینی ہیں۔" وہ ان کی طرف لقمہ بڑھاتے ہوۓ نرمی سے بولی۔
"فرحان بھی رات رات بھر جاگ کر ایسے ہی خدمت کرتا تھا۔ میں کہتی تھی جاؤ فرحان بیٹا سوجاؤ!!...تو پتا ہے کیا کہتا تھا؟" انہوں نے آخر میں ذکریٰ سے سوال کیا۔ ذکریٰ نے نفی میں سر ہلایاں۔
"امی سونے کے لئے تو پوری رات ہے پر آپ کی خدمت کرنے کا موقع کبھی کبھی ملے گا۔ اس لئے یہ حسین موقعے کو میں گنوانا نہیں چاہتا ہوں۔" وہ کہنے کے ساتھ ہی رو دی تھیں۔
"کبھی نہیں سوچا تھا میں نے کہ میرے جنازے سے پہلے میرے بچے کا جنازہ اٹھا لیا جاۓ گا۔" وہ اب زور زور سے رونے لگیں۔ ذکریٰ نے سائیڈ کے دراز میں سے دوا نکالی اور انہیں زبردستی منہ میں کھلا دیا۔ کچھ ہی دیر میں وہ دنیا جہاں سے بے خبر سورہی تھیں۔ ذکریٰ نے ان کے ماتھے پر پیار کیا۔ فرحان کے جانے کے بعد سے نازیہ بیگم ایک ذہنی مریضہ بن چکی تھی۔ کبھی کبھی وہ بے حد نارمل رہتی تھیں لیکن کبھی کبھی وہ فرحان کی یاد میں چلا اٹھتی تھیں۔ اس وجہ سے ذکریٰ نے ان کی خدمت کے لئے نوری(میڈ) کو رکھ لیا تھا لیکن آفس میں ہوتے ہوۓ بھی وہ بار بار نوری سے نازیہ بیگم کی طبیعت کے متعلق پوچھتی رہتی تھی۔ ذکریٰ سائیڈ لمیپ آف کر کے ان کے کمرے سے نکل گئی۔ پھر ایک نظر اپنے بابا کے کمرے میں دوڑایا جو جلدی سوجایا کرتے تھے۔ وہ پرسکون نیند لے رہے تھے۔ ذکریٰ انہیں سویا دیکھ کر وہاں سے نکل گئی۔
___________________________________

عشق تماشہ از قلم رابعہ انصاریTempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang