قسط : ۱۶

692 51 81
                                    

فہد نے ذکریٰ کے گھر کے باہر اپنی کار روک دی۔نمرہ نے بہت احتیاط سے ذکریٰ کو مضبوطی سے تھاما۔نمرہ کے دباؤ کو اپنے شانے پر محسوس کر کے ذکریٰ نے چونک کر نمرہ کی جانب دیکھا۔
"ہوں!!!"وہ جیسے ہوش کی دنیا میں واپس آئی تھی۔
"ذکی تمھارا گھر آگیا ہے۔" وہ بہت نرمی سے بولی تو ذکریٰ نے محض ہاں میں سر ہلادیا۔نمرہ کا دل بے حد اداس ہوگیا ذکریٰ کی حالت دیکھ کر۔ وہ واقعی قابلِ رحم لگ رہی تھی۔ وہ ان لوگوں کو کچھ بھی کہے بغیر آگے چلنے لگی تو نمرہ نے فہد کو دیکھا اور فہد کا تسلی بھرا اشارہ پاکر وہ ذکریٰ کے ساتھ جانے لگی۔

نازیہ بیگم کیچن میں اپنے کام میں مصروف تھی۔ دروازے کی بیل بجنے پر وہ ہاتھ دھوکر کیچن سے نکلی اور دروازہ کھولیں تو سامنے ذکریٰ کو ایسی حالت میں دیکھ کر ششدر رہ گئیں۔نمرہ اسے تھامے ہوئی تھی۔ انہوں نے
ذکریٰ کو دیکھا جس کی انکھیں رونے کے باعث ابھی تک بے حد سرخ تھی۔نازیہ بیگم نے لپک کر ذکریٰ کو تھاما۔ نمرہ نے جلدی سے بہانا بنایا۔
"آنٹی وہ ذکریٰ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔اس کے سر میں بے حد درد ہورہا تھا۔اس لئے میں لے کر آئی ہوں۔"
"میری بچی۔" نازیہ بیگم نے متفکر انداز میں کہتے ہوۓ اسے اپنے آپ سے لگا لیاپھر نمرہ اور ذکریٰ کو صوفے پر بیٹھا کر وہ جلدی سے ٹھنڈا پانی لے آئیں اور ذکریٰ اور نمرہ کے ہاتھ میں تھمادیا۔
" میری بچی پانی پیو۔" وہ اسے گم سم پاکر بولیں تو اپنی ماں کی یہ ممتا دیکھ کر اس کی آنکھوں کے گوشے نم ہوئیں۔اپنے آپ پہ قابو کرتے ہوۓ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
"امی مجھے کچھ دیر آرام کرنا ہے پلیز!!" وہ گھٹی گھٹی آواز میں بولی تو امی نے بھی بنا کچھ کہے اسے اجازت دے دیا۔ نمرہ سلام و کلام کر کے فوراً یہاں سے نکل گئی۔ نیچے فہد نمرہ کا انتظار کر رہا تھا۔نمرہ کو آتے دیکھ وہ سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔ نمرہ کا چہرہ سنجیدہ تھا۔ دونوں جانب گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔نمرہ چپ چاپ آکر پیچھے بیٹھ گئی اور اپنا رخ کھڑکی کی جانب کر لیا۔ فہد نے اپنی گاڑی اسٹارٹ کردی۔ اس نے کچھ بات کرنے کے لئے تمہید باندھی۔
"نمرہ!!!" اس نے سنجیدگی سے پکارا تو نمرہ نے ایسے دیکھا جیسے "اب کیا بولنے کو رہ گیا ہے۔"
"شم نے آج بہت بڑی غلطی کر دی ہے۔ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیۓ تھا۔" فہد سنجیدگی سے بولا۔
"تصحیح کریں جناب!!!....غلطی نہیں گناہ کیا ہے۔" وہ طنزیہ لہجے میں بولی تو فہد اپنے لب بھینچ کر رہ گیا۔اسے شم پر بے حد غصہ آرہا تھا۔فہد کو کافی برا لگا تھا کہ ایک اتنی بھولی بھالی لڑکی کا دل توڑا ہے اس نے۔ بات تو ایسے بھی ہوسکتی تھی اس میں اتنا تماشا لگانے کی کیا ضرورت تھی؟
کسی کا تماشا بنانا تو ہم انسانوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ وقت سب کا ایک سا نہیں رہتا۔ کبھی عروج ہے تو کبھی زوال ہے۔جیسے ہر عروج کے بعد زوال ہے۔ ویسے ہی ہر زوال کے بعد عروج ہے۔
"کسی معصوم کا دل اس نے کرچی کرچی کیا ہے فہد۔ میں کبھی معاف نہیں کروں گی اسے کبھی نہیں!!!" نمرہ کو اپنے دوست کی تکلیف تڑپا رہی تھی۔
ایک دوستی کا ہی تو ایسا رشتہ ہوتا ہے جو اجنبی ہو کر بھی اجنبی نہیں ہوتا۔ جدا ہو کر بھی جدا نہیں ہوتا۔
فہد نے بے بسی سے بیک مرر سے نمرہ کے چہرے کی جانب دیکھا۔وہ اس کے آگے ایک لفظ تک ادا نہ کر سکا۔ پورے راستے دونوں میں خاموشی برقرار رہیں۔

عشق تماشہ از قلم رابعہ انصاریDove le storie prendono vita. Scoprilo ora