قسط :۲۵

761 55 110
                                    

وہ کچھ دیر بعد ہی ہوٹل میں داخل ہوگئی۔ اتنی گرم دھوپ میں کھڑے رہنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ وہ منہ بناکر ایک خالی ٹیبل دیکھ کر بیٹھ گئی اور انسٹا اسکرول کرنے لگی۔ سامنے ٹیبل پر ایک خوش شکل نوجوان بیٹھا تھا جو اسے ہی گھور رہا تھا۔نمرہ نے پہلے اسے نظر انداز کیا لیکن وہ شخص اسے دیکھے ہی جارہا تھا۔ نمرہ بھی تو نمرہ تھی ایسے کیسے جانے دیتی؟ وہ اس شخص کی جانب ایک زبردستی کی مسکراہٹ اچھالتے ہوۓ پورا پورا اس کی جانب گھوم گئی اور اپنے ہاتھوں کو ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر اسے دیکھنے لگی بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا اسے گھورنے لگی۔ اس کی اس حرکت پر سامنے بیٹھا نوجوان گڑبڑاگیا اور جلدی سے سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔ نمرہ اب مسکرائی تھی۔
"بھیا جی سمائیل پلیز!!!....." نمرہ اپنا کیمرہ نکال کر اس کی جانب کرتے ہوۓ بولی۔ وہ نوجوان اپنی جگہ پر بوکھلا کر رہ گیا۔
"ا....ا...رے!!!.....بہن جی!!!...یہ کیا کر رہی ہیں آپ؟" وہ شخص اپنا چہرہ چھپاتے ہوۓ فوراً نمرہ کو بہن بنا گیا تھا۔
"ارے بھیا جی!!!......ڈرتے کیوں ہو۔ آپ کی یہ بہن بہت اچھی فوٹو گرافر ہیں۔ بس اپنے بھائیوں کے پکس بناتی رہتی ہیں۔" وہ اس کو سکون سے سمجھاتے ہوۓ بولی لیکن نمرہ کے اس بھائی کے پسینے چھوٹ گئے۔ وہ شرمندہ ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
"بھیا جی!!!....اپنی بہن کا ایک مشورہ ذہن میں رکھ لو۔ بہت یاد کرو گے پھر اپنی اس بہن کو۔ یہ گھورنا بند کرو لڑکیوں کو نہیں تو یہ جو پک نکالی ہے نا آپ کی یہ فوٹوگرافر بہن نے وہ اسٹا اور واٹس اپ پر فاروڈ کر کے اپنے اس بے نام بھائی کو مشہور کر دے گی۔" وہ اس کی کیفیت سے لطف اندوز ہوتے ہوۓ بولی۔ نمرہ کا منہ بولا ڈرپوک بھائی چند لمحوں میں ہی غائب ہوگیا۔نمرہ ہنس دی۔
"ہاۓ نمرہ تو لڑکی بڑی کمال ہے۔" اس نے جیسے خود کو سراہا پھر اپنی ٹیبل پر سکون سے آکر بیٹھ گئی اور فہد کا انتظار کرنے لگی۔
___________________________________

وہ رات میں اپنے آفس کے کام کر کے تھک گئی تھی۔ اس نے ساری فائلز کو کنارے پر کیا اور اٹھ کر اپنے کمرے سے باہر آگئی۔ مما اور بابا کے کمرے میں جھانک کر دیکھا وہ پرسکون سی نیند سورہے تھے۔ وہ چلتے ہوۓ کیچن کی جانب آئی پھر فریج سے ٹھنڈا دودھ نکال کر گیس پر رکھا پھر کچھ دیر میں کافی بنا کر وہ کیچن سے باہر نکلی اور اپنے کمرے کے کھڑکی کے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔ رات کی سرد ہواؤں کو اس نے اپنی آنکھیں بند کر کے محسوس کیا اور اپنے مگ کو لبوں سے لگاکر کافی کا ایک گھونٹ بھرا۔ کافی پیتے پیتے وہ بہت کچھ سوچ رہی تھی یا پھر ذہن الجھا ہوا تھا۔ آج ہی شام میں تو حنا آنٹی ایک ہفتے بعد کی منگنی کی تقریب رکھنے کی خبر سناکر گئی تھی۔ وہ سکون میں نہیں تھی۔ وہ بے سکون تھی۔ اس نے کھڑکی میں سے اوپر کی جانب آسمان کی طرف دیکھا جہاں اندھیرا تھا لیکن چاند تنہا اپنی مدھم روشنی کے ساتھ چمک رہا تھا۔ وہ چاند کو دیکھ کر دھیمے سے مسکرائی۔
"اے چاند میرے!!!....تو اتنا حسین ہے کہ تجھے دیکھ کر میں اپنے سارے غم بھول جاتی ہوں۔ تیری خوبصورتی مجھے سحرزدہ کرتی ہے۔ دیکھ لے آج پھر تیرا جادو چل گیا اور میں اپنے غم کو بھول کر تیری خوبصورتی میں گم ہو رہی ہوں۔" وہ چاند سے مخاطب تھی۔ چاند کو گھنٹوں تک دیکھنا رات کا اسکا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
" میرے چاند!!!.... تجھے تو معلوم ہے نا میں نے زندگی میں اتنی مشکلیں دیکھ لی ہیں کہ اب چھوٹی چھوٹی مشکلیں ہنس کر سہہ جاتی ہوں۔ امی چاہتی ہیں میں شادی کرلوں۔ ارے کیسے کرلوں شادی؟ مرد ذات سے نفرت ہو چکی ہے۔ کوئی بھی مرد اعتبار کے قابل نہیں ہے۔ کم ازکم میں کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتی ہوں۔انہیں کیسے بتاؤں اپنے پرانے زخموں کے داغ؟ کیسے بتاؤں؟ میں نہیں کرنا چاہتی شادی، کبھی بھی نہیں۔" وہ کرب سے بولی تھی۔خاموش چاند ایک اچھا سامع بننے کا فرض ادا کر رہا تھا۔
"آگیا وہ دوبارہ میری زندگی میں۔ سب کو لگتا ہے ذکریٰ بدل گئی ہے۔ہاں وقت اور حالات کے ساتھ انسان کو بدلنا پڑتا ہے اس لیۓ میں بھی بدل گئی۔ اگر تب بھی نہیں بدلتی تو یہ دنیا سر اٹھا کر جینے کہاں دیتی ہے؟" وہ سچ ہی تو کہہ رہی تھی۔
" اسے لگتا ہے میری زندگی مذاق ہے؟ یا پھر ذکریٰ یوسف رحمانی ہی مذاق ہے؟ نہیں، نا ذکریٰ مذاق ہے نا ذکریٰ کی زندگی۔ اس نے مجھے اذیت کے سوا کچھ نہیں دیا ہے اور مزے سے کہتا ہے پرانی باتوں کو بھول جاؤ!!!...ہنہہ بھول جاؤں؟ اتنے گہرے زخم بھلاۓ جاتے ہیں؟ انسان بڑی سی بڑی خوشیاں بھول جاتا ہے لیکن وہ اتنا ناشکرا ہے کہ چھوٹی سی چھوٹی اذیت دماغ کے ورق پر چھپ جاتی ہے۔ میں بھی تو عام بشر ہوں۔ کیسے اتنی بڑی بات کو بھول جاؤں؟ میری روح کو بے دردی سے زخمی کرنے والا کہتا ہے بھول جاؤں؟ اتنا کمزور حافظہ نہیں ہے میرا۔ آج بھی اگر میں اس دن کو یاد کرتی ہوں تو رو پڑتی ہوں۔ ٹھیک ہے تم محبت کے بدلے محبت نا دیتے لیکن محبت کے بدلے یہ اذیت دینے کا کوئی حق نہیں تھا تمہارا۔" وہ رونا نہیں چاہتی تھی لیکن ایک آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر اس کے رخسار پر پھسل گیا جسے اس نے بڑی بے دردی سے صاف کیا۔
"نہیں، اب ایک آنسو نہیں بہانا ہے۔ جتنا رو چکی ہوں بس!!!....لڑکی ضرور ہوں پر کمزور نہیں۔ جانتی ہوں کیسے مضبوط بنا جاتا ہے۔ ایک عام سے انسان کے لیۓ میں اپنے آنسوؤں کو کیوں بے مول کروں؟ وہ بھی عام میں بھی عام۔" اس کی آنکھیں سرخ ضرور تھی لیکن نم نہیں۔ وہ اب کھڑکی کو بند کر کے اپنے لیپ ٹاپ پر مصروف ہوگئی۔
__________________________________
صبح کا موسم کچھ ٹھنڈا تھا۔ رات میں ہلکی ہلکی بارش کی وجہ سے صبح ہلکی سرد تھی۔ آسمان پوری طرح سے صاف ہوچکا تھا۔ وہ اپنی آفس کے کانچ کی بڑی بڑی کھڑکیوں سے باہر کا نظارہ صاف دیکھ سکتی تھی۔ آج وہ اناؤنس کرنے والی تھی۔ وہ پرسکون سی بیٹھی تھی۔ سب کو پانچویں منزلے پر موجود ہال میں آنے کا کہہ دیا تھا لیکن وہ ابھی تک اپنے کمرے میں لیپ ٹاپ پر مصروف تھی۔ کچھ دیر بعد اس کی پی۔اے شفا اس سے اجازت طلب کر کے اندر داخل ہوئی۔
"میم سب انتظار کر رہے ہیں آپ کا۔" وہ دھیمے آواز میں بولی۔ ذکریٰ نے سر کے اشارے سے اسے جواب دیا تو وہ سمجھ کر واپس چلی گئی۔ ذکریٰ نے ایک لمبی سانس فضا میں خارج کی۔ ایک یہ ڈراما بھی تو کرنا تھا۔ ذکریٰ کی والدہ نے آفس میں سب کو دعوت دینے کے لیۓ کہا تھا تو ان کا مان رکھتے ہوۓ وہ اب یہ سب کرنے پر مجبور تھی۔ وہ اپنی منگنی کو پوشیدہ ہی رکھنا چاہتی تھی لیکن پھر مہمان کہاں سے تشریف لاتے؟ اس نے اپنی سوچوں کو جھٹک کر اپنا دماغ پرسکون کیا۔
"ہاں صرف منگنی ہی تو کرنا ہے بعد میں کچھ پلان بناکر اس رشتے سے انکار کر دوں گی۔" وہ خود کو دلاسہ دیتے ہوۓ بولی۔
"افف!!!....کاش!!!....یہ منگنی کی تقریب میں سب کو مدعو نا کرنا پڑتا۔ سادی سی تقریب ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا لیکن امی سے پھر کیا کہوں گی؟؟؟ نہیں نہیں میں جلدی ہی کچھ سوچ کر یہ معاملہ رفع دفع کردوں گی بس یہ منگنی ہوجاۓ تو امی پرسکون ہوجائیں گی۔" وہ گہری سانس فضا کے سپرد کرتے ہوۓ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ازمیر کو اس نے پہلے ہی جلدی آنے کے لیۓ کہہ دیا تھا۔ وہ اپنے کمرے سے نکل کر پانچویں منزلیں کےپر آگئی۔ سب شاید اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ پر اعتمادی سے چلتے ہوۓ ہال کے گیٹ سے اندر داخل ہوئی۔ سب اسے دیکھ کر کھڑے ہوچکے تھے۔ وہ ہاتھ میں اپنا قیمتی فون سنبھالتے ہوۓ آگے بڑھی۔ سب خاموشی سے اس کے کچھ بولنے کا انتظار کر رہے تھے۔ انہیں پتا تھا جب سب لوگوں کو بلایا ہے تو کچھ خاص بات ہی ہوگی۔
"السلام علیکم ایوری ون!!!..." خاموشی میں اس کی آواز گونجی۔ سب نے دھیمی آواز میں سلام کا جواب دیا۔ وہ بولنے کے لیۓ تمہید باندھ رہی تھی۔
" آپ کو معلوم ہوگا کہ کسی خاص مقصد کے تحت آپ لوگوں کو یہاں بلایا گیا ہے۔" اس نے آہستہ آہستہ بولنا شروع کیا۔ سب نے ہاں میں گردن ہلایا۔
"ایک ہفتے بعد میری انگیجمینٹ ہے جس میں آپ سب میری طرف سے انوائیٹڈ ہیں ۔" اس کے اتنے کہنے کی دیر تھی کہ پورے ہال میں شور سا مچ گیا۔ سب نے زوروں سے تالیاں بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا تھا۔ وہ مسکرارہی تھی اور ازمیر جانتا تھا کہ یہ مسکراہٹ اس کی کتنی کھوکھلی ہے۔ وہ ہال کے ایک کونے میں کھڑا تھا۔ اس کا دل زوروں سے دھک دھک کر رہا تھا۔ وہ خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
"کانگریچولیشنس میم!!!!....." ایسی کئی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ آج کئی لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے پہلی بار اپنی باس کو مسکراتے ہوۓ دیکھا تھا۔ پورے ہال میں ایک شور سا مچا ہوا تھا۔ اس نے اپنا گلا کھنکارا پھر سب کو متوجہ ہونے کے لیۓ کہا تو سب ایک بار پھر خاموش ہوگئے۔
"میم پلیز ہمارے ہونے والے سر سے تو ملوائیے۔" خاموشی میں کسی لڑکی کی شوخ سی آواز گونجی تھی۔ ایک بار پھر ہال میں ہنگامہ ہوگیا۔ادھر ذکریٰ نے بولنا شروع کیا ادھر ازمیر کا دل جیسے ابھی سینے سے نکل کر آنے کو تھا۔
"ہمم!!!....تو آپ کے ہونے والے سر سے آپ لوگ پہلے سے ہی واقف ہیں۔" وہ سنجیدگی سے بولی تو سب آہستہ آہستہ آواز میں سرگوشی کرنے لگے۔ ذکریٰ نے ایک لمبی سانس فضا کے سپرد کی۔ یہ لمحہ ایک بہت ہی کٹھن لمحا تھا جسے ذکریٰ کو پار کرنا تھا۔
"ازمیر بختاور شیرازی میرے ہونے والے فیونسی ہیں!!!!......" اس نے جیسے ہی نام لیا جہاں ہال میں اندر داخل ہوتے ہوۓ شم ساکت ہوا تھا وہی ہال میں ایک خاموشی سی چھا گئی تھی۔ سب کی گردن ازمیر کی جانب ایک ساتھ اٹھی تھیں۔ وہ بے یقینی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
"جی آپ لوگوں نے بالکل صحیح سنا ہے۔ آپ کے مینیجر ہی میرے ہونے والے فیونسی ہے۔پلیز ازمیر ادھر آئیں۔" وہ پرسکون تھی۔ اسے دنیا کی فکر کر کے بھلا کیا کرنا تھا۔ اس کے خود کی مشکلیں کم تھی کیا جو وہ دنیا کی پرواہ کرتی؟ سب نے ایک بار پھر زور و شور سے تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا۔ جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے قاضی والا مسئلہ تھا۔ خیر انہیں کیا پڑی کسی کے معاملات میں دخل اندازی کرنے کی۔ وہ سب پڑھے لکھیں لوگ تھے۔ جانتے تھے محبت اندھی ہوتی ہے۔ اس لیۓ جاہلوں کی طرح باتیں کرنے کی بجاۓ ازمیر کو جا جا کر مبارک بادی پیش کر رہے تھے۔ ازمیر مسکرا رہا تھا کوئی نہیں جانتا تھا ان کی مسکراہٹ اندر سے کتنی کھوکھلی ہے۔ دروازے پر کھڑا شم اپنی جگہ پر منجمد رہ گیا تھا۔ اس کا سانس لینا مشکل ہوگیا تھا۔وہ بے یقینی سے کبھی ازمیر کو تو کبھی اپنی دشمنِ جاں کو دیکھ رہا تھا۔ دماغ کی رگیں پھٹ جانے کو تھی۔ وہ ہال کے اندر داخل نہیں ہوا بلکہ باہر ہی سے کھڑا رہ گیا۔ذکریٰ سب سے مبارکبادی وصول کر رہی تھی۔ سب ایمپلائز مبارکبادی دے کر دھیرے دھیرے نکل رہے تھے۔ ذکریٰ اکتا کر باہر نکلنے لگی۔ ازمیر کو کسی نے وہی پر روک لیا تھا۔ بھیڑ کی وجہ سے وہ شم کو دیکھ نہیں پائی تھی اور اپنے کمرے میں آگئی۔ ابھی اسے آۓ ہوۓ چند منٹ ہی گزرے تھے کہ وہ دھڑام سے اس کے کمرے میں داخل ہوا۔ ذکریٰ نے بہت حیرت و غصے سے اس کی جانب دیکھا تھا لیکن کسی کا اثر اس پر ابھی نہیں ہونا تھا۔ وہ چلتا ہوا ذکریٰ کے پاس آیا اور اپنی سرخ آنکھوں سمیت اس کی جانب ایک نگاہ اٹھائی۔ ذکریٰ اس کی آنکھوں میں موجود سرخی دیکھ کر الجھ کر رہ گئی۔
"یہ کیا بدتمیزی ہے؟" وہ غرائی تھی۔
"تم نے ایسا کیوں کیا؟" وہ بھی غرایا تھا۔
"مسٹر صدیقی!!!....آپ اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہے ہیں۔یہاں سے دفع ہوجائیں۔" اسے شم کی بات کچھ سمجھ نہیں آئی تھی لیکن اس کی آنکھیں اسے وحشت میں مبتلا کر رہی تھی۔
"تم نے اس دو ٹکے کے مینیجر سے شادی کرنے کا سوچا بھی کیسے؟" وہ چیخا نہیں بلکہ دھاڑا تھا۔
"اس سے تمہارا کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہیۓ۔" وہ سپاٹ لہجے میں بولی۔
" اس کمینے کو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔" اس کے لہجے کی سختی ذکریٰ نے خوب محسوس کی۔
"مسٹر شمروز احمد صدیقی!!!!.......آپ پاگل ہوچکے ہیں۔" وہ غصے سے بولی تھی۔
"ہاں ہوگیا ہوں پاگل!!!.......تمہاری محبت نے مجھے پاگل بنا کر رکھ دیا ہے۔" وہ اتنی زور سے چیخا تھا کہ ذکریٰ کا دل لرز کر رہ گیا اس نے ایک سپاٹ نگاہ اس پر ڈالی۔
"اب اس اداکاری کی کوئی خاص وجہ؟" اس نے سرد لہجے میں پوچھا۔ شم کچھ پل کے لیے اس کے کہے گئے جملے کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔
"ذکریٰ میرا یقین کرو۔ میں سچ میں تم سے محبت کرنے لگا ہوں۔ نہیں برداشت کرسکتا ہوں اپنی محبت میں کسی کی شراکت داری اور اس کمینے کو تو میں!!!......"وہ آدھا جملہ ہی بول کر سخت غصے کے عالم میں اس کے کمرے سے نکلا تھا۔ ذکریٰ وہی کہ وہی جم کے کھڑی رہ گئی۔
ازمیر ابھی ہی اپنے کمرے میں داخل ہوا تھا۔وہ اپنی کرسی پر بیٹھا ہی تھا کہ کوئی دھڑام سے آیا۔ وہ شم کو دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اس نے اس کا کالر پکڑ کر غصے سے کہا۔
"سالے کمینے!!!.....تیری ہمت بھی کیسے ہوئی ذکریٰ سے شادی کرنے کا سوچنے کی بھی۔" وہ جارحانہ انداز میں بولا۔ازمیر تو اس کے لہجہ کو سن کر حیران ہوا تھا۔اس نے سکون سے اپنا کالر چھڑایا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔
"جہاں تک مجھے معلوم ہے ذکریٰ کا کوئی بھائی نہیں ہے۔ اگر آپ ان کے منہ بولے بھائی کی حیثیت سے مجھ سے یہ سوال کرنے آئیں ہیں تو پلیز ہم سکون سے بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔" اس کی بات نے شم کے پورے تن بدن میں آگ لگا دی تھی۔ وہ جھلس کر رہ گیا تھا۔ اس نے شدید اشتعال کے عالم میں اس کے منہ پر مکہ رسید کیا۔ ازمیر نے اچانک ہونے والے اس حملے پر پریشان ہوا تھا۔
" بہن ہوگی تیری!!!.....اگر ایسی ویسی نگاہ سے اس کی جانب دیکھا تو مار ڈالوں گا تجھے۔میری محبت ہے وہ۔" وہ طیش کے عالم میں بولا۔
"میری ہونے والی منگیتر ہے وہ۔" اس نے کچھ باور کروایا۔شم کے اس جملے پر وہ چونک کر رہ گیا۔ اس کے دل کی دھڑکن ساکت ہوگئی تھی۔
"بول کمینے کتنے پیسے چاہیۓ تجھے؟ تو ذکریٰ کی دولت و شہرت کی وجہ سے اس سے شادی کر رہا ہے نا؟" وہ اس کا کالر پکڑے ہی دہاڑا تھا۔ ازمیر اس جملے پر ساکت رہ گیا تھا پھر وہ تلخی سے مسکردیا۔
"میں بکاؤ نہیں ہوں۔ عشق کے بازار میں ایسا بک گیا ہوں کہ کوئی بھی خریدارمجھے خرید نہیں سکتا ہے۔یہ بولی کدھر اور جاکر لگاؤ۔" وہ اطمینان سے بولا لیکن شم اپنے حواسوں میں ہی کہاں تھا؟ اس نے جیسے ہی اسے مارنا چاہا تب ذکریٰ بھاگتے ہوۓ ازمیر کے کمرے میں داخل ہوئی۔ اسے پتا تھا شم غصے کی حالت میں کچھ الٹا سیدھا کر ہی دے گا۔
"چھوڑو انہیں۔" ذکریٰ نے چیخ کر کہا لیکن شم کو سنائی کہاں دے رہا تھا۔ وہ پاگل ہو رہا تھا۔ اس نے ازمیر کا کالر نہیں چھوڑا بلکہ اسے مارنے لگا۔ ذکریٰ کو کچھ سمجھ نہیں آیا اس نے غصے میں آکر اس کے چہرے پر ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا۔ ازمیر کے کالر پر موجود شم کے ہاتھوں کی مضبوط گرفت ڈھیلی پڑی۔ وہ بے یقینی کے عالم میں ذکریٰ کی جانب دیکھ رہا تھا۔ازمیر بھی اپنی جگہ سن ہوگیا۔
"بس آپ حد سے بڑھ رہے ہیں۔" وہ اپنی شہادت کی انگلی اٹھا کر اشتعال میں بولی۔ شم زخمی انداز میں مسکرایا تھا۔ وہ تھوڑا ذکریٰ کے قریب ہوا اور اس کے کان کے پاس سرگوشی نما انداز میں بے حد درد بھری آوازمیں بولا۔
"تجھے میری جان کا واسطہ
میری جان اتنا برا نہ کر"
ذکریٰ کی سانس اٹک کر رہ گئی۔ ازمیر بھی سانس روکے سب دیکھ رہا تھا۔ اسے شم کا ذکریٰ کے قریب آنا بالکل پسند نا آیا تھا۔ وہ کیا بولا ازمیر سن نہیں پایا تھا۔ ذکریٰ ساکت نظروں سے شم کو دیکھ رہی تھی۔
"کوئی میری محبت کو مجھ سے جدا کرے گا تو میں اس انسان کے تن سے اس کی گردن جدا کردوں گا۔" شدید طیش کے عالم میں ازمیر کی جانب دیکھ کر وہ بولا تھا لیکن اب ازمیر کا بھی صبر کا پیمانا لبریز ہو چکا تھا۔
"آپ شمروز احمد صدیقی ہے اس لیۓ میں آپ کی بالکل بھی عزت نہیں کررہا ہوں بلکہ آپ میری ہونے والی منگیتر کے عاشق ہیں اس لیۓ عزت کررہا ہوں۔" ازمیر کے جملے نے جہاں ذکریٰ کو بہت تکلیف پہنچائی تھی وہی شم بھی کافی مشتعل ہوا تھا۔
"میری ہونے والی منگیتر کے عاشق!!!....." یہ الفاظ اس کے ذہن میں ہتھوڑے کی طرح ضرب لگا رہے تھے۔ ذکریٰ نے سر اٹھا کر ازمیر کو نہیں دیکھا تھا۔دیکھتی بھی کیسے ہمت ہی نہیں ہوئی اس کی۔ شم کی آنکھیں انگارے برسا رہی تھی۔ وہ اس آدمی کو اپنی آنکھوں سے نگل جانا چاہ رہا تھا۔
"بلڈی فل!!!....تیری اوقات ہے کہ تجھے ذکریٰ یوسف رحمانی ملے؟" وہ طنزیہ انداز میں ہنسا تھا۔ذکریٰ نے نفی میں سرہلایا تھا۔یہ انسان آج تک نہیں بدلا تھا۔ اوقات ہی اس کی پہلی ترجیح تھی۔
"مسٹر صدیقی!!!.....ازمیر سے اگر آپ نے اب اس لہجے میں بات کی تو میں دوسرا تھپڑ آپ کے گال پر لگانے میں بالکل بھی عار محسوس نہیں کروں گی۔" وہ سرد لہجے میں بولی تھی۔ شم نے سرخ آنکھیں لیے ذکریٰ کو ایک نظر دیکھا تھا۔
"کوئی اگر ذکریٰ کو مجھ سے چھینے گا تو میں پوری دنیا کو آگ لگا دوں گا۔ جس مرد میں ہمت ہو وہ آئیں اور کریں میرا مقابلہ!!......." اس کا انداز چیلینجینگ تھا۔ وہ پاگلوں جیسی باتیں کررہا تھا۔ ذکریٰ ازمیر کے سامنے یہ سب باتیں ہونے پر خوب شرمندہ ہورہی تھی۔
"ابھی کہ ابھی میری نظروں کے سامنے سے دفع ہوجاؤ ورنہ۔" وہ غصے سے چیخی تھی اور تماشا دیکھنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ شم مسکرایا تھا۔
"محبوب کی بات اور عاشق نا مانیں ایسا کبھی ہوا ہے کیا؟" وہ مسکرا کر کہتا ہوا ازمیر کا دل راکھ کر گیا تھا۔ایک نگاہ ذکریٰ کو دیکھ کر وہ کمرے سے نکل گیا۔ کمرے میں ازمیر اور ذکریٰ خاموش کھڑے تھے۔وہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہوں پر تکلیف میں تھے۔ ذکریٰ اس سے اپنی نگاہیں چرا گئی۔
"یہی وجہ تھی نا شادی سے انکار کی؟" وہ زخمی انداز میں بولا۔
"آ پ کا اور میرا تعلق فی الحال ایسا نہیں ہے کہ میں آپ کو وضاحتیں دیتی پھروں۔" وہ ماضی کی باتوں کو اپنے سینے میں دفن کر چکی تھی اور ابھی اس عنوان پر اس کا بات کرنے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔ ازمیر نے بہت تکلیف سے ذکریٰ کی جانب دیکھا تھا لیکن ذکریٰ اس کو نہیں دیکھ رہی تھی۔
"میرے نام کی انگھوٹھی پہننے میں کیا آپ کو تکلیف نہیں ہوگی۔" وہ پتا نہیں یہ سوال کیوں کر بیٹھا تھا ذکریٰ کو لگا وہ اس کے زخموں پر نمک چھڑک رہا ہے۔
" آپ فکر نا کریں میں بڑی بڑی تکلیفوں سے گزری ہوں اب چھوٹی چھوٹی تکلیفیں اثر نہیں کرتی ہیں۔" وہ سپاٹ لہجے میں بولی تو ذکریٰ کی اس بات پر وہ مچل کر رہ گیا۔
"بس چند دن کی اداکاری ہوگی پھر آپ کا راستہ الگ اور میرا راستہ الگ۔"ْ وہ بول کر رکی نہیں تھی اور ازمیر نے اپنی آنکھوں کو مسلہ تھا۔ وہ برداشت نہیں کر پارہا تھا کہ کوئی ذکریْٰ سے محبت کریں۔شم کا یہ جنونی روپ دیکھ کر ازمیر ایک الگ آگ میں جل رہا تھا جو اس کے پورے بدن کو جھلسا رہی تھی۔اسے سمجھ آگیا تھا کہ شم اور ذکری کا کوئی ماضی ضرور ہے جس سے وہ ابھی پوری طرح واقف نہیں تھا۔ اسے لگا ذکریٰ اس کا استعمال کر رہی ہے لیکن اگر محبوب یہی چاہتا ہے تو یہ ہی سہی۔
___________________________________

Salam!!!...kaise h aap sab??
Ye rhi aaj ki epi!!!...apne votes and comments zaroor krein.....mei aapki feedback ki muntazir hu♥
Mujhe to itni hairat hoti h k sab mujhse insta per baar baar next epi k baare mei poochte rehte h aur jab epi de deti hu to review koi nhii deta😯😯jo dete h unki baat nhii kr rhi hu!!!....unki ek khaas jagah mere dil mei h😌♥Must share your reviews😒🙂Ab meine epi bohot late dena h🙂q ki kisi ko koi interest nhii h Ishq tamasha mei☹☹😯!!!......ya shayad aapko mera likha pasand nhii aarha ye hi baat hogi na!!!.......

عشق تماشہ از قلم رابعہ انصاریWhere stories live. Discover now