وہ کے۔ڈی کا فون غصے سے کاٹ کر اب کھانے کے اسٹال کے پاس آگئی تھی۔ ویسے تو اسکا کھانے کا کوئی موڈ نہیں تھا لیکن کے۔ڈی سے گفتگو کرکے اس کا منہ کڑوا سا ہوگیا تھا جس کی وجہ سے اس نے گلاب جامن کے دو پیس اٹھا لیۓ تھے۔ ابھی وہ گلاب جامن اپنے منہ میں ڈالتی ہی کہ حیدر کاظمی اس کے پاس مسکراتا ہوا چلا آیا۔وہ بہت خوبرو لگ رہا تھا۔
"میٹھا کھایا کریں تاکہ میٹھا میٹھا بول سکیں آپ!!!....."وہ لطیف سا طنز کرتے ہوۓ بولا۔
"ہممم!!!....اور آپ ضرورت سے زیادہ میٹھا کھا چکے ہیں۔" وہ بھی طنز کرنا نہیں بھولی تھی۔
اس کے انداز پر وہ کھل کر ہنسا تھا۔
"ناٹ بیڈ!!!......" اس نے ہنستے ہوۓ اسٹال سے گلاب جامن اٹھا لیۓ تھے۔
"ویسے آپ ہمیشہ سے ہی ایسی خشک مزاج ہے یا پھر وقت نے کیا کوئی حسین ستم؟" اس کے سوال پر ناجانیں کیسے کچھ فاصلے پر بنے سامنے کاؤنٹر پر ذکریٰ کی نظر گئی۔ شم ہاتھ میں کوئی کالے رنگ کا سافٹ ڈرنک پیتے ہوۓ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ ذکریٰ کو ایسا لگا جیسے کسی نے اس کے پرانے زخم کو بےدردی سے کھرچ دیۓ ہو۔
"آپ میٹھا کم کھایا کریں۔ دماغ درست رہے گا۔"وہ سپاٹ لہجے میں بولی۔ حیدر کچھ پل کے لیۓ اسے دیکھتے رہ گیا۔اس نے کچھ غلط تو نہیں کہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ذکریٰ سے آج تک کوئی بے تکلف نہیں ہوپایا تھا۔وہ سب کو اپنی حد میں رکھنا جانتی تھی۔
"آپ شاید برا مان گئی ہے۔ جب کہ میں نے تو کوئی۔۔۔۔۔۔۔۔"
"میں شاید اپنا ٹائم ویسٹ کررہی ہوں یہاں۔ ایکسکیوز می!!!......." وہ بول کر رکی نہیں تھی۔ حیدر کاظمی کا سرخ چہرہ دیکھ کر کچھ فاصلے پر کھڑے شم کو ہنسی پر بندھ باندھنا مشکل ہوگیا تھا۔ اس نے اپنی ہنسی کو روکنے کے لیۓ گلاس کو لبوں سے لگالیا۔
ذکریٰ سائیڈ میں آکر کھڑی ہوگئی تھی۔ اس کا موڈ کچھ آف ہو گیا تھا۔ وہ اب جلد سے جلد یہاں سے نکلنا چاہتی تھی۔ تبھی اس کا مینیجر اس کے پاس چلا آیا۔
"میم!!!....آپ ٹھیک ہیں؟" وہ اس کے حسین چہرے سے اندازہ لگاتے ہوۓ بولا۔
"ہممم!!!......ٹھیک ہوں۔ بس اب کچھ دیر میں نکلوں گی یہاں سے۔"
"اچھا!!!.... پھر میں وقار صاحب کو اطلاع کردیتا ہوں۔"
"نہیں آپ رہنے دیں۔ میں خود چلی جاتی ہوں۔" مینیجر نے اثبات میں سر ہلایا۔
وہ وقار صاحب کے پاس چلی آئی لیکن یہاں پر وہ پہلے سے ہی شم سے محو گفتگو تھے۔ وہ مڑنے لگی تھی لیکن اس سے پہلےہی وقار صاحب نے اسے دیکھ لیا تھا۔
"ارے ذکریٰ صاحبہ آئیے آئیے!!!...." وہ مسکراتے ہوۓ بولے۔ شم بھی اس کی طرف متوجہ ہوچکا تھا۔
"نو نو اٹس اوکے۔ یو بوتھ پلیز کیری آن!!!....."وہ زبردستی کی مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجا کر بولی۔
"آبھی جائیے اب!!!.....کبھی ہمیں بھی موقع دیں آپ سے روبرو ہوکر گفتگو کرنے کا۔" وہ مسکرارہے تھے۔ شم کو ان کی مسکراہٹ اچھی نہیں لگی تھی۔ذکریٰ نا چاہتے ہوۓ بھی کچھ دیر کے لیۓ ٹھہر گئی۔
"شمروز صاحب!!!....ذکریٰ صاحبہ جیسی خوبصورت، پراعتماد لڑکی کے ساتھ دن کیسے گزر رہے ہیں؟ میرا مطلب ہے ان کے ساتھ پارٹنرشپ کرکے کیسا محسوس کررہے ہیں آپ؟" وقار صاحب کے سوال کرنے پر شم نے ذکریٰ کو دیکھا تھا لیکن ذکریٰ اسے نہیں دیکھ رہی تھی۔
"اگر یہی سوال میں آپ سے کروں تو؟ آپ کیسا محسوس کرتے؟" اس نے الٹا سوال داغ دیا۔
"اففف!!!....اس غریب کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا آپ نے۔ایسے نصیب کہاں!!!...." وہ آہ بھرتے ہوۓ بولے۔ ذکریٰ کو ان کی گفتگو سے کوفت ہونے لگی تھی۔
"آپ کے مزاج سے لگتا نہیں ہے بھئی کہ آپ دو جوان بچوں کے باپ ہیں۔" وہ جتا کر بولا۔شم کی بات سن کر وقار صاحب ہنس پڑیں۔
"جوان بچوں کے باپ جوان نہیں ہوسکتے کیا؟ بتائیں ذکریٰ صاحبہ!!!....." وہ اپنے سوال کا رخ ذکریٰ کی طرف کرتے ہوۓ بولے۔
"آپ کی مثال ہمارے سامنے ہیں۔" وہ دھیمے سے مسکرائی۔
"شمروز صاحب!!!...میری جوانی سے آپ کو کوئی مسئلہ ہے کیا؟" وہ شرارتی لہجے میں بولے۔
"آپ کی جوانی سے نہیں آپ کی جوان مزاجی سے۔" وہ بڑبڑایا تھا۔
"مجھے کیا مسئلہ ہوسکتا ہے بھلا۔" وہ پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
"معذرت کے ساتھ لیکن ابھی مجھے نکلنا ہوگا گھر کے لیۓ۔" وہ گھڑی میں وقت دیکھتے ہوۓ بولی۔
"چلیں پھر کبھی محفل جمائیں گے۔آپ کے آنے کا بے حد شکریہ!!...." وہ خوش دلی سے بولے۔ ذکریٰ ان سے الوداعی جملے بول کر نکل گئی اور شم ذکریٰ کی پشت کو دیکھتے رہ گیا۔
___________________________________
YOU ARE READING
عشق تماشہ از قلم رابعہ انصاری
Romanceکہانی ہے کسی کے لاحاصل عشق کی...کسی کی یکطرفہ عشق کی داستاں....کہانی ہے عشق میں تماشہ بننے والی لڑکی کی....کہانی ہے زندگی کے مشکل امتحان سے لڑنے والی لڑکی کی....کسی کی اذیتوں کی داستاں...کسی کی نفرت کی داستاں....کسی کی محبت کی داستاں....کون پاۓ گا ا...