قسط : ۲۱

872 56 37
                                    

وہ اپنے دائیں ہاتھ میں سفید پرچے کو لیۓ اپنی سوچوں میں مگن تھی۔ ریوالونگ چیئر پر سر کو اس کی پشت سے ٹکا کر مسلسل چھت کے فرش کو گھور رہی تھی۔ پرچے پر لکھے گئے حرف اس کی سمجھ سے باہر تھے۔ وہ اس انجان شخص کی چال میں پھنستی جارہی تھی۔ تجسس کے مارے وہ اس معمے کو جلد ازجلد حل کرنا چاہتی تھی اور اس بلا سے جتنی جلدی ممکن ہوسکے چھٹکارا پانا چاہتی تھی۔ وہ پرچے پر لکھے گئے حرف کو اب غور سے دیکھنے لگی۔

"NFFU NF BU 21 2 11"

"افف یہ عجیب سے بے ترتیب لفظ!!!...." وہ ان کو دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہی تھی۔
"کیسے سلجھاؤں میں ان عجیب سے لفظ کو؟ ان کو سلجھاتے سلجھاتے میں الجھ رہی ہوں۔" وہ زیرِ لب بڑبڑائی تھی۔
"نہیں ذکری!!!....نہیں!!...تم آرام سے حل کرو اسے۔ دماغ کو پہلے پرسکون کرو۔ تم کھیل کھلینا جانتی ہو۔ تمہیں الجھنا نہیں ہے۔ تم کوئی بچی نہیں ہو کہ ہر ایرے غیرے کی چال میں پھنس جاؤ۔یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے کہ تم اس کے پیچھے خوار ہو۔ بی کول!!!...." وہ خود سے مخاطب تھی۔اس نے اس کاغذ کو ٹیبل پر رکھا اور خود آنکھیں موند گئی۔ ابھی اسے آنکھیں بند کیۓ ہوۓ چند لمحے ہی گزرے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
"یس کم ان!!!......"
اس کا مینیجر اندر داخل ہوا۔
"میم مسٹر وقار کی طرف سے شام کی پارٹی کا انویٹیشن کارڈ آیا ہے۔ کیا آپ چلیں گی؟" وہ مودب انداز میں بولا۔
ٖ"نہیں۔" یک حرفی جواب آیا۔ وہ جانے لگا تو پیچھے سے ذکریٰ کی آواز آئی۔
"اوکے ڈن کریں۔" وہ اپنے آپ کو پر سکون کرنا چاہتی تھی جس کی وجہ سے اس نے کچھ سوچ کر ہامی بھر لی تھی۔
"میں ابھی گھر کے لیۓ نکل رہی ہوں۔ شام کو پارٹی میں ملاقات ہوگی آپ سے۔" وہ اپنی چیئر سے اٹھتے ہوۓ بولی۔
وہ سرہلاں کر چلا گیا۔ ذکریٰ نے وہ کاغذ فی الحال کے لیۓ اپنے  آفس کے ایک دراز میں رکھ دیا۔ ٹیبل سے چابی اور اپنا پرس اٹھا کر آفس سے نکل گئی اور لفٹ کے پاس جاکر کھڑی ہوگئی۔ لفٹ ابھی پانچویں منزلیں پر تھی پھر چوتھے پر رکیں تب جاکر اس کے پاس آکر رکی تھی۔ لفٹ کا دروازہ کھلتے ہی سامنے جو چہرہ  نظر آیا تھا وہ اجنبی بالکل نہ تھا لیکن اس نے اپنی نگاہیں بہت ہی کمال بے نیازی سے پھیر لی تھی۔ چند لمحوں کے لیۓ دونوں کے نظروں کا تصادم ہوا تھا۔ شمروز اپنا سفید کورٹ بازو پر رکھے کھڑا تھا۔وہ بھی ذکریٰ کو ایک نظر دیکھ کر فون میں مصروف ہوگیا۔ اس کے علاوہ بھی لفٹ میں ایک دو آفس کے ایمپلائیز موجود تھے۔ شم سر جھٹک کر رہ گیا۔
__________________________________
شمروز رحمانی انڈسٹری سے سیدھا صدیقی انڈسٹری کی جانب گیا تھا۔ وہ کچھ الجھا ہوا تھا۔ فہد صدیقی انڈسٹری میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا۔ شم اپنی کار کو پارک کر کے سیدھا اپنے آفس میں آیا۔ فہد اس وقت کسی سے فون پر محو گفتگو تھا۔ شم کے آنے پر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور اس سے گلے لگا۔ فہد نے ہاتھ کے اشارے سے اسے دو منٹ انتظار کرنے کو کہا تو شم سر ہلاں کر اپنی چیئر پر بیٹھ گیا۔
"اچھا ٹھیک ہے۔ میں پک کر لوں گا۔ ڈونٹ وری!!!...."فہد نے مقابل سے کہا تھا۔
"اوکے اللہ حافظ!!!...."چند باتوں کے بعد اس نے کال کو منقطع کیا۔
"افف کیا مصیبت ہے یار!!!....." فہد نے برا سا منہ بنایا اور فون کو میز پر پٹخ دیا۔
"اب کیا نئی مصیبت نازل ہوگئی؟" وہ ایبرو اچکا کر بولا۔
"ڈیڈ کی کال تھی۔"
"تو؟"
"شام کو ایئرپورٹ سے کسی کو پک کرنے جانا ہے۔"
"تو؟"
"مجھے نہیں جانا ہے۔" اس نے جھنجھلا کر کہا۔
"تو؟"
"تو اگر تجھےکچھ زیادہ ہی دلچسپی ہورہی ہے تو چلے جا تو۔" وہ دانت پیس کر بولا۔
"میں ابھی نیکی کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں۔ یہ نیک کام تو ہی کر لے۔"وہ اطمینان سے بولا۔
"میں تو سوچا تھا آج ہم ساتھ میں ٹائم سپینڈ کریں گے لیکن یہ دیکھ کیا ہوگیا۔" وہ افسوس کرتے ہوۓ بولا۔
"بھائی یہ سہانے سپنے آج کے لیۓ سائیڈ پہ رکھ۔ شام کو مجھے ایک پارٹی میں جاناہے جس کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے۔" وہ ایک فائیل پر کچھ لکھتے ہوۓ بولا۔
"چل آج نصیب میرے ساتھ نہیں ہے۔" وہ ایک بار پھر افسوس کرتے ہوۓ بولا۔
"شاید کوئی اور ساتھ ہو۔" وہ آنکھ دبا کر بولا۔
"اتنی اچھی قسمت کہاں!!!!....." وہ سرد آہ خارج کرتے ہوۓ بولا۔
"اتنی بری بھی قسمت نہیں۔" وہ اسی کے انداز میں بولا۔
"میری قسمت میں وصالِ یار ہونا ممکن نہیں لگ رہا ہے۔"
"میری قسمت میں بھی۔" شم بے ساختہ بولا تو فہد نے چونک کر اسے دیکھا۔
"تیری قسمت میں کیوں نہیں؟" اس نے اچنبھے سے پوچھا۔
"ایسے کیوں بول رہا ہے؟ میری قسمت کیا میں خود لکھتا ہوں؟" وہ برامان گیا تھا۔
"نہیں, تو دا گریٹ شمروز احمد صدیقی ہے ناں جس لڑکی کو چاہ لے وہ لڑکی تجھے مل جاۓ گی۔" شم کو سمجھ نہیں آیا اس نے طنز کیا تھا یا پھر عام سے لہجے میں بولا۔
"ہاں یہ بات تو سو فیصد سچ ہے۔" اس کی بات میں ایک مان تھا ایک غرور تھا۔
"یہ سب باتیں چھوڑ!!...بتا کیا پیۓ گا کافی یا چاۓ؟" شم نے موضوع بدل دیا تھا۔
"کولڈ کافی!!!...."
شم انٹرکام پر اپنی پی اے کو اطلاع دے کر اب اس سے کچھ باتیں کرنے لگا۔

عشق تماشہ از قلم رابعہ انصاریOnde histórias criam vida. Descubra agora