قسط : ۱۲

667 50 44
                                    

نمرہ اور فہد کا ہنس ہنس کر برا حال ہو رہا تھا۔ فہد تو باقاعدہ پیٹ پکڑ کر ہنس رہا تھا۔ نمرہ بھی ہنستے ہی جارہی تھی۔
"تم نے کمال کی ایکٹینگ کی یار!!" نمرہ اسے سراہنے والے انداز میں بولی۔
"دیکھا شم کا چہرہ تم نے؟ کیسے غصے سے لال پیلا ہو رہا تھا وہ"۔ وہ کہہ کر پھر ہنسنے لگا۔
"مزہ آگیا یار!!!....میں نے تو بہت انجوۓ کیا۔ تمہیں پتا ہے میں نے کیسے اپنی ہنسی پر قابو کیا ہے۔ شم توبیچارہ سوچتا ہی رہ جاۓ گا کہ آخر کس نے یہ حرکت کی ہے۔ اب پوری رات وہ تمھارے بارے میں سوچ سوچ کر گزار دے گا اور جب اسے پتا چلے گا یہ کوئی لڑکی نہیں بلکہ کسی لڑکے کی شرارت ہے تو وہ یقیناً اپنے ہوش کھو دے گا۔"
"بالکل۔اب جلدی چلو۔ ہم کافی لیٹ ہوگئے ہیں۔ شم ہمارا انتظار کر رہا ہے۔" وہ اپنے آپ کو کمپوز کرتے ہوۓ بولا۔
"ہاں ہاں چلو, اب شم کو جاکر سنبھالنا بھی ہے تو ہمیں۔" وہ دونوں چاۓ لے کر ٹیبل کی جانب چل دئے۔
"یہ لو یار چاۓ!!!....پتا نہیں وہ ورکر کہاں چلا گیا تھا۔ اس لئے ہمیں کافی لیٹ ہوگیا۔" فہد خود ہی اپنی وضاحت دیتے ہوۓ نارمل سے انداز میں بولا۔
نمرہ بھی ذکریٰ کے پاس والی چیئر لے کر بیٹھ گئی۔
"آئیے آئیے!!! بس آپ لوگوں کا ہی انتظار ہو رہا تھا۔" وہ دانت پیستے ہوۓ بولا۔
"کیا ہوا ہے بھئی؟!!....سب خیریت تو ہے نا؟؟" وہ سوالیہ انداز میں کچھ ناسمجھی سے بولا بولا۔
"خاک خیریت ہے؟!! پتا نہیں کسی کا فون آیا تھا اس کی بکواس سن کر میرا دماغ خراب ہورہا ہے!" وہ اپنے غصے پر کنٹرول کرتے ہوۓ بولا۔
"اچھا؟ کس کا فون آیا تھا؟؟" وہ انجان بنتے ہوۓ بولا۔
"ارے مجھے کیا پتا!!! خود کو میری معشوقہ بتا رہی تھی۔"
"آۓ ہاۓ!!!!! کیا قسمت پائی ہے یار تونے۔ ایک تو ہے جو آۓ دن لڑکیوں کے فون آتے رہتے ہیں ایک ہم ہیں جو ترس سے گئے ہیں کسی کی محبت کے لئے۔" وہ سرد آہ خارج کرتے ہوۓ اپنا غم بتانے لگا۔
"تو سدا کا ترسا ہوا ہے۔ میں تو تنگ آچکا تھا سچ میں اس لڑکی سے۔"وہ نفی میں سر ہلاتے ہوۓ بولا۔
"یہ لے جب تک چاۓ پی کر اپنا موڈ ٹھیک کر۔" وہ اسکی جانب چاۓ بڑھاتے ہوۓ بولا۔
فہد نے نمرہ کو دیکھ کر اپنی ایک آنکھ دبائی تھی جس کی وجہ سے وہ تھوڑا خجل ہوئی اور پھر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ فہد نے بڑی گہری نظروں سے اس کے چہرے کو دیکھا اور پھرمسکرا اٹھا۔
فہد نے شم کی نظروں سے بچا کر اسکا فون لیا اور جس نمبر سے فون آیا تھا اس کو ڈیلیٹ کر دیا۔
"یہ لیں میں نے نمبر ڈیلیٹ کردیا ہے۔"وہ پر سکون لہجےمیں بولا۔
"کیا؟؟ تو نے نمبر ڈیلیٹ کر دیا؟" شم نے غصے سے گھور کر کہا۔
"ہاں!!! "وہ کندھے اچکا کر بولا۔
"اففف.....مجھے گھر جاکر نمبر چیک کرنا تھا کہ کس کی یہ شرارت تھی۔ " وہ جھنجھلاتے ہوۓ بولا جبکہ ساتھ بیٹھی نمرہ کو کھانسی کے دورے پڑ چکے تھے۔
"چھوڑ نا یار!!!....کیا کرے گا اتنی تحقیق کر کے۔ مجھے تو وہ کوئی محبت کی ماری ہی لگتی ہے۔ آج کے وقت کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ کسی غیر کو فون کر کے اظہارِ محبت کریں۔"وہ بات کو سنبھالتے ہوۓ بولا۔
"ارے تجھے نہیں پتہ یار!!!....وہ لڑکی تو مجھے کوئی پاگل خانے سے بھاگ کر آئی ہوئی لگ رہی تھی۔ پتا نہیں کیا کیا بولے جارہی تھی۔ میرا تو دماغ خراب کر کے رکھ دیا اس نے اور محبت محبت تو ایسے بولے جارہی تھی جیسے لیلی مجنوں کی بھی استاد ہو۔" وہ سخت جنھجھلاہٹ کا شکار ہورہا تھا۔
"ایک کام کر تو کولڈ کافی پی۔ اسکی محبت تیرے دماغ کو جا لگی ہے۔ سنبھل کر دل سے نا لگا لینا۔" وہ شرارتی انداز میں بولا۔
"فہد پلیز!!! اب اسکا ذکر نا سنو میں یہاں۔"وہ اکتا چکا تھا اب ان سب باتوں سے۔
اوکے کہہ کر وہ سب اپنی باتوں میں مشغول ہوگئے۔ابھی باتیں ہی ہو رہی تھی کہ رشدہ اور محسن وہاں آن پہنچے۔
"ہاۓ گائز!!!!.....ہاؤ آر یو؟"وہ شم اور فہد سے مخاطب ہوئی باقی دونوں کو تو اس نے دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
"ہاۓ!!!......بالکل ٹھیک۔ تم تو عید کا چاند ہوگئی ہو آجکل نظر نہیں آرہی ہو۔" فہد نے رشدہ سے کچھ ناراض لہجے میں پوچھا۔
"عید کا چاند؟؟.....اوہ ریئلی!!!"وہ مسکراتے ہوۓ بولی۔
"آؤ بیٹھو!!!"شم نے اسے بیٹھنے کے لئے کہا۔
"نہیں آپ لوگ انجوۓ کریں۔ اب ہمارے ایسے دن کہاں کہ ہم آپ کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کریں۔" وہ ان دونوں پر ایک تحقیر بھری نگاہ ڈالتے ہوۓ شم اور فہد کو بولی۔
"اوہ کم آن رش!!!.....یہ کیسی باتیں کر رہی ہو۔ تم خود ہی ہم سے ملنے نہیں آتی ہوں۔ ہم آج بھی ویسے ہی دوست ہے جیسے پہلے تھے۔" فہد نے رشدہ غلط فہمی جیسے دور کرنا چاہی تھی۔
"اچھا!!! لیکن مجھے نہیں لگتا ہم آج بھی ویسے ہی دوست ہے جیسے پہلے تھے۔ وہ دن کچھ اور تھے یہ دن کچھ اور ہیں۔"
"تمھاری غلط فہمی ہے یہ۔ زیادہ غلط فہمیاں بھی انسان کو نہیں پالنا چاہیۓ۔" فہد سنجیدگی سے بولا۔
"کیا کریں یہ غلط فہمیاں ہر وقت میرے شک کو یقین میں تبدیل کر دیتی ہے۔"
"اچھا چھوڑو یہ سب باتیں۔بتاؤ تمھاری تیاری کیسی چل رہی ہے۔" فہد بات کو سمیٹتے ہوۓ بولا۔
"ہممم....تیاری تو ایک دم فرسٹ کلاس چل رہی ہے۔ بس کچھ لوگوں کو اپنی اوقات یاد دلانی ہے۔" وہ نمرہ اور ذکریٰ کی جانب دیکھتے ہوۓ بولی۔
وہاں بیٹھے سبھی نفوس نے اسکی بات کا مفہوم اچھی طرح سے سمجھ لیا تھا۔
نمرہ کچھ کہنے جا ہی رہی تھی کہ ذکریٰ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر روک لیا تھا۔
رشدہ نے ایک طنزیہ مسکراہٹ نمرہ کی جانب اچھالی اور باۓ بول کر وہاں سے چلی گئی۔
__________________________________

عشق تماشہ از قلم رابعہ انصاریDonde viven las historias. Descúbrelo ahora