قسط : ۲۴

800 49 95
                                    

سورج کی روشنی ہر سو پھیل چکی تھی۔ صبح کی نرم دھوپ اس کی کانچ کی کھڑکی سےہوتے ہوۓ اس کے کمرے کو روشن کر رہی تھی۔ الارم کا چیخ چیخ کر گلا بیٹھ چکا تھا لیکن وہ اٹھنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ وہ بیڈ پر اوندھے منہ بے خبر سویا ہوا تھا۔کچھ دیر میں اس کی والدہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور نفی میں سر ہلاتے ہوۓ اسے جگانے لگی۔
"ازمیر!!!....اب اٹھ بھی جاؤ۔ تم آفس کے لیۓ لیٹ ہو چکے ہو۔" اس کی والدہ نے نرمی سے اس کے بکھرے بالوں کو سہلاتے ہوۓ جگایا۔ جب لیٹ کی خبر اس کے کانوں میں پڑی تو وہ جلدی سے اٹھ بیٹھا۔ دیوار میں لگی گھڑی میں وقت دیکھا جو دس بجا رہی تھی۔ وہ لیٹ ہوچکا تھا۔ اس کی آنکھیں رات کو دیر تک جاگنے کی چغلی کھا رہی تھی۔
"اففف!!!....میں لیٹ ہو گیا ہوں۔" وہ ہڑبڑا کر بیڈ سے اٹھا۔
"مما آپ نے مجھے جلدی کیوں نہیں جگایا۔" وہ شکوہ کرتے ہوۓ اپنے الماری سے کپڑے نکال کر واش روم میں جلدی سے گھس گیا۔
اس کی والدہ نفی میں سر ہلا کر رہ گئیں۔ وہ جلدی سے فریش ہو کر واش روم سے باہر نکلا۔ جب تک اس کی والدہ بیڈ شیٹ وغیرہ درست کرنے لگیں۔ وہ آئینے کے سامنے اپنے بال سنوارنے لگا۔
"جلدی سے تم نیچے آؤ اور ناشتہ کرو۔" وہ کہہ کر چلی گئیں۔ وہ اپنے اوپر پرفیوم چھڑک رہا تھا جب اس کا فون بجا۔ اس نے ایک نظر اسکرین پر جگمگانے والے نام کو دیکھا اس کا ہاتھ اپنی جگہ پر ٹھہر گیا۔ وہ کچھ لمحے کے لیۓ ساکت ہو گیا۔ اسکرین پر "ذکریٰ یوسف رحمانی" کا نام جگمگ جگمگ کررہا تھا۔ اس کے دل کی دھڑکن منتشر ہوئیں۔ وہ لمبی سانس کھینچ کر جلدی سے فون کو کانوں سے لگایا۔
"السلام علیکم!!!!......" ازمیر نے پہل کی۔
"وعلیکم السلام!!!....." اس کی سنجیدہ سی آواز اس کے کانوں میں پڑیں۔ازمیر خاموش ہی رہا وہ شاید ذکریٰ کے بولنے کا کچھ انتظار کر رہا تھا۔
"جس کام کی میں آپ سے مر کر بھی امید نہیں کر سکتی تھی آپ نے وہ کام کر دکھایا ہے۔" اس کا لہجہ پور پور طنز میں ڈوبا ہوا تھا۔ ازمیر ذکریٰ کے یہ الفاظ سن کر حیران و پریشان ہوا تھا۔
"جی؟ میں آپ کی بات سمجھا نہیں۔" وہ ناسمجھی سے بولا۔
"میں سمجھاتی ہوں نا آپ کو تفصیل سے۔"
ازمیر خاموش ہی رہا۔
"آپ کی والدہ صاحبہ آئیں تھی کل شام کو۔" ذکریٰ کے لہجے کی کاٹ ازمیر نے بخوبی محسوس کی۔ اسے فوراً کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔
"آپ کی والدہ چاہتی ہیں کہ میں ان کے گھر کی بہو بنوں۔" ذکریٰ کا اتنا کہنا تھا کہ ازمیر کے پورے بدن میں کرنٹ دوڑ گیا۔ اس کی سانس ساکت ہو گئی۔ وہ منجمد سا اپنی جگہ پر رہ گیا۔ منہ سے ایک لفظ تک ادا نا ہوا۔ اسے واقعی ذکریٰ کی منہ زبانی یہ سب پتا چل رہا تھا۔
"میں نے آپ کی رضا جاننے کے لیۓ فون کیا ہے۔" ذکریٰ نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
"جو آپ کی رضا ہوگی وہی میری رضا ہوگی۔" اس نے مدھم لہجے میں کہا۔ ذکریٰ نے گہری سانس فضا کے سپرد کی۔
"میری زندگی میں شادی کی کوئی گنجائش نہیں۔" وہ صاف گوئی سے بولی۔
"آپ اگر مجھ سے شادی کرنا نہیں چاہتی ہیں تو کوئی بات نہیں بلاوجہ جھوٹ کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں۔آپ کے ہر فیصلے کی قدر کروں گا۔" وہ جس لہجے میں بولا تھا ذکریٰ نے خوب محسوس کیا۔
"میں نے نا کبھی کسی کو وضاحت دی ہے نا کسی کو دوں گی۔ میں صرف بولنے کی ذمہ دار ہوں آپ نے کیا سمجھا اس کی نہیں۔" وہ گہری سنجیدگی سے بولی۔ ازمیر کو ذکریٰ کے لہجے نے بڑی تکلیف پہنچائی تھی۔
"کال کرنے کا مقصد بیان کریں۔" ازمیر نے ضبط سے پوچھا۔
"بس چاہتی ہوں آپ انگیجمینٹ کی ڈیٹ فکس کرکے ماما کو بتا دیں تو مہربانی ہوگی۔ کم ازکم کچھ دنوں کے لیۓ یہ شادی نام کی بلا سر سے ٹل جاۓ گی۔ آگے کیا کرنا ہے میں سوچتی ہوں۔" وہ پرسوچ دکھائی دے رہی تھی۔ ازمیر دھیمے سے زخمی انداز میں مسکرایا تھا۔
"میرے یار کے ہر فیصلے پر لبیک!!!.." وہ من میں سوچ کر ہلکے سے مسکرایا۔ چہرے پر تکلیف کے آثار تھے لیکن برداشت کرنا ازمیر خوب جانتا تھا۔
"جی بس آپ حکم کریں۔" وہ آہستہ آواز میں بولا۔ آواز سے اس کی درد کا اندازہ لگانا مشکل نا تھا۔ اس کی آنکھیں اداس تھی لیکن لب مسکرا رہے تھے۔شاید اپنی بے بسی پر وہ مسکرا رہا تھا۔
ذکری اللہ حافظ بول کر فون کاٹ چکی تھی۔ ازمیر نے فون کو بیڈ پر زور سے پٹخا۔ پھر سامنے موجود آئینے میں جھک کر خود کو دیکھا۔ آنکھیں جیسے انگارے برسارہی تھی۔ پورا بدن ایک اندیکھی آگ میں جل رہا تھا لیکن برداشت تو کرنا ہی تھا۔
"تو اسے کہتے ہیں محبوب کی خوشی میں خوش ہونا۔" وہ تلخی سے مسکرادیا۔ شدتِ غم سے آنکھوں میں ہلکی سی نمی تیری تھی۔

عشق تماشہ از قلم رابعہ انصاریWhere stories live. Discover now