قسط:٢٦

906 54 132
                                    

اس نے ہوٹل کے چاروں طرف اپنی نظریں گھمائی۔ اس کی نظر ایک کونے میں جاکر ٹھہر گئی۔ وہ مسکراتا ہوا بالوں میں ہاتھ پھیرتا اس کی جانب آیا۔ وہ ہنوز موبائل میں مصروف رہی۔فہد نے پھر اپنا گلا کھنکارا لیکن یہ کیا سامنے والی نے کوئی نوٹس ہی نہیں لیا۔ وہ سر نفی میں ہلاتے ہوۓ بیٹھ گیا۔ اس نے دشمنِ جاں کا چہرہ دیکھا جو کچھ خفا خفا سا تھا۔ وہ سر کھجاتے ہوۓ مسکرایا۔
"ابھی سے بیویوں والے نخرے!!!...." وہ اس کی جانب تھوڑا جھک کر بولا۔ نمرہ نے اسے دیکھ کر منہ بنایا۔
"لیٹ آنا ہی تھا تو مجھے جلدی کیوں بلایا؟" وہ چڑ کر بولی۔
"مجھے بھی وہ خوبصورت خوشی محسوس کرلینے دو کہ میرا بھی کوئی انتظار کر رہا تھا۔" وہ شرارتاً بولا۔
"تمہاری خوشی کی تو..........." وہ دانت پیس کر بولی تو فہد ہنسنے لگا۔نمرہ نے بے اختیار اس کی جانب دیکھا۔ وہ ہنستے ہوۓ اچھا لگتا تھا یا پھر اسے اچھا لگ رہا تھا وہ سمجھ نہیں پائی تھی۔
"نزاکت لے کے آنکھوں میں وہ ان کا دیکھنا توبہ!!!....
الہی ہم انہیں دیکھے یا ان کا دیکھنا دیکھیں....."
وہ دھیمی آواز میں بول کر نمرہ کے دل کے تار چھیڑ گیا۔ نمرہ نے فوراً اپنی نگاہ ہٹائی۔
"زیادہ شاعر بننے کی ضرورت نہیں۔"
"تمہیں دیکھتا ہوں تو میرے اندر شاعر کی آتما جاگ جاتی ہے۔" وہ شرارت سے بولا۔
"اور لوفر کی بھی۔" نمرہ نے لقمہ دیا۔ فہد مصنوعی کھانسی کھانسنے لگا۔
"وہاٹ!!!....لوفر کی؟" وہ حیرت سے بولا۔
"ہاں سچ ہمیشہ کڑوا ہی لگتا ہے۔" وہ سکون سے بولی۔
"تم کبھی میرے جذبوں کو نا سمجھنا۔ ہاۓ اللہ کس روبوٹ کو میں دل دے بیٹھا۔" وہ منہ بنا کر بولا۔ نمرہ اس کی اداکاری پر مسکرا دی۔

"فنا ہم کو کر دے گا یہ مسکرانا
ادا کافرانہ ، چلن ظالما نہ "

وہ اسے ہنستے دیکھ ایک بار پھر شاعر کی آتما کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ نمرہ نے اسے گھورا۔
"سچ بول رہی ہوں تمہارے ان اشعار سے میرا پیٹ نہیں بھرنے والا۔" وہ طنز کر گئی۔فہد نے اسے گھورا۔
"میرے دل تو صبر کر ایک دن یہ بے حس لڑکی کو بھی تیری محبت کا احساس ہوگا۔" وہ دانت پیس کر بولا۔ نمرہ بے نیازی سے موبائل چلانے لگی۔
"اب بتاؤ کیا کھاؤ گی؟" وہ کچھ دیر بعد بولا۔
"تم ہی آرڈر کر دو۔ میں کروں گی تو تمہیں مہنگا پڑ سکتا ہے۔" وہ لاپرواہی سے بولی۔
"کتنا کھاؤ گی تم؟ تمہاری خوراک تو مرغی سے بھی کم ہوگی۔ کرو آرڈر یار۔" وہ زندہ دلی سے بولا لیکن فہد کو اس کی زندہ دلی مہنگی پڑنے والی تھی۔
"اچھا!!!....چلو ٹھیک ہے۔" نمرہ نے کندھے اچکاۓ۔ ویٹر کچھ دیر میں آچکا تھا۔
"یس سر آرڈر پلیز!!!...." ویٹر نے فہد سے پوچھا۔ نمرہ نے آرڈر کیا۔
"بٹر چکن، بٹر نان، بٹر پنیر، چکن ریشمی برہ، ملائی کوفتے، ملائی چکن، شاہی چکن، ریشمی کباب، چکن بریانی، چکن ٹکا.........." وہ جلدی جلدی بولتے گئی۔ ویٹر نے حیرت سے اسے دیکھا اور کنفیوز ہوگیا۔ فہد نے بوکھلا کر نمرہ کو روکا۔
"نمرہ نمرہ!!!!......ہمیں اپنی شادی کا کھانا تھوڑی نا آرڈر کرنا ہے۔" وہ دانت پیس کر بظاہر مسکرا کر بولا کیوں کہ سامنے موجود ویٹر ان دونوں کو ہی دیکھ رہا تھا۔
"میں کونسا اپنی شادی کا کھانا آرڈر کر رہی ہوں۔ یہ سب تو میرے پسندیدہ کھانے کی لیسٹ میں سے ہے۔ ابھی تو میں نے کچھ بتایا ہی نہیں۔" وہ بلا کی معصومیت سے بولی۔
"ویٹر بھائی ذرا تڑکا لگا کر ہاں۔" وہ ویٹر کو مزے سے بولی۔ویٹر وہی کنفیوز سا کھڑا فہد کو دیکھ رہا تھا۔
"سر کیا سب لے آؤں؟" ویٹر نے پوچھا۔
"ارے میری بارات آئی ہے کیا جو سب لے کر آؤ گے۔" وہ دھیمے سے بڑبڑایا۔
"نہیں یار!!...." پھر فہد نے چند ڈشز کے نام بتائیں ویٹر سر ہلا کر جانے لگا۔
"ویٹر بھائی" نمرہ نے پیچھے سے آواز لگائی۔
"اسپرائٹ لانا بھولنا نہیں۔" وہ یاد دلاتے ہوۓ بولی۔ فہد بس گھور کر رہ گیا۔ پھر کچھ یاد آنے پر اسے پکارنے لگی۔
"ارے ویٹر بھائی!!..." وہ پھر پیچھے مڑ کر واپس آیا۔
"اور کھانے کے بعد آئس کریم لانا تو بالکل نہیں بھولنا۔" ویٹر سر ہلا کر چلا گیا۔ فہد نے نمرہ کو گھورا تو وہ ہنس دی۔
"فہد بیٹا جیب خالی کروانے کے لیۓ ریڈی رہ۔" وہ بڑبڑایا۔
"اچھا سنو!!....." وہ دھیمی آواز میں فہد کو بولی فہد اس کے لہجے کو محسوس کرکے فوراً اس کی طرف متوجہ ہوا۔
"سناؤ........"وہ بھی اسی کے انداز میں بولا۔
"وہ ڈیڈی ابھی کچھ دن میں کویت سے انڈیا آئیں گے۔" وہ آہستہ آواز میں بولی۔
"اوہ سسر جی آرہے ہیں کیا؟" وہ جلدی جلدی میں "سسر جی" بول گیا پھر اپنا کہا یاد آیا تو سامنے گھورتی نمرہ کو دیکھ کر سر کھجانے لگا۔
"اچھا تو؟" وہ بات کا اثر زائل کرنے کے لیۓ فوراً اس کی بات پر توجہ دیتے ہوۓ بولا۔
"تو............." وہ بولتے بولتے رک گئی۔
"اوہ!!!.....اچھا!!......ارے آنے تو دو سسر میرا مطلب ہے سعید صاحب کو بات کرلیں گے ہمارے رشتے کی۔" وہ مسکرا کر بولانمرہ ہنسی تھی۔
___________________________________
رات اندھیری تھی۔ چاروں طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ پردے ہواؤں کی وجہ سے تیزی سے ہل رہے تھے۔وہ کھڑکی کے پاس کھڑی بے حد سنجیدہ تھی۔ چہرے پر ایک تکلیف کے آثار واضع نظر آرہےتھے۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھے کھڑکی کی دیوار سے ٹیک لگاۓ کھڑی تھی۔ اس کی زلفیں ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ وہ سوچوں کے بھونڈر میں پھنسی ہوئی تھی جس سے رہائی ممکن نہیں لگ رہی تھی۔
"تو آپ میرے سے محبت کے دعوے دار ہیں۔" وہ تلخی سے سوچی تھی۔
"اتنا آسان کہاں اب ذکریٰ سے محبت کرنا مسٹر شمروز احمد صدیقی!!!......اتنا آسان کہاں!!!...." وہ تلخی سے بولی۔
"اگر ذکریٰ یوسف رحمانی کسی کی محبت میں تڑپ سکتی ہے تو باخدا اپنی محبت میں کسی کو تڑپا بھی سکتی ہے۔" وہ تلخی سے بولی تھی۔ ابھی وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔ ماضی کی یادوں کی لپیٹ میں بری طرح پھنسی ہوئی تھی اس لیۓ ایسی باتیں وہ سوچنے پر مجبور تھی۔ عزتِ نفس پر لگی چوٹ اسے بری طرح تکلیف دے رہی تھی۔
_________________________________

عشق تماشہ از قلم رابعہ انصاریWhere stories live. Discover now