Episode 4

741 76 38
                                    

دوپہر میں شایان کے گھر سے نکلنے کے بعد نرمین صاحبہ نے ثمینہ بھابھی کو کال ملائی تھی اور دونوں کی طویل گفتگو چل رہی تھی جب کہ ملاہم ثمینہ صاحبہ کے گھٹنے سے چپکے بیٹھی سب باتیں سن رہی تھی جس پہ انھوں نے اسکو کئی بار گھوری دکھا کر وہاں سے چلتا بننے کا اشارہ بھی کیا جس کو اس نے کسی کھاتے میں نا رکھا۔۔
"اچھا ثمینہ ملاہم کو شایان کے ساتھ نکاح کا جوڑا خریدنے کے لیے بھیج دینا بچی اپنی پسند سے سب چوائس کر لے گی اور بول دینا کھل کے شاپنگ کرے جو پسند آئے وہ لے لے۔۔"
نرمین محبت سے بولیں انکا تو بس نہیں چل رہا تھا فوراً ہی رخصتی کرکے ملاہم کو ساتھ لے آتیں شایان اکلوتا تھا ہمیشہ ایک بیٹی کی خواہش انکے دل میں جاگتی تھی جو اب بہو کی صورت میں ملاہم آرہی تھی۔۔پر وہ ہمیشہ سے انکی بیٹی ہی تھی۔۔
"چلو جیسے تمھیں مناسب لگے ورنہ تم اپنی پسند کا جوڑا لے آؤ سب کو پسند ہی آئیگا اتنی اچھی چوائس ہے تمھاری۔۔"ثمینہ کے بولنے پہ ملاہم کی آنکھیں باہر آئیں وہ نفی میں سر ہلانے کے ساتھ مسلسل انکا گھٹنیں ہلانے لگی۔۔
پھر مزید نکاح کی تقریب پہ بات چیت کرکے فون رکھ دیا۔۔
"بڑی بے شرم اولاد ہے نا کوئی لحاظ نا شرم و حیا!!کوئی تمیز ہوتی ہے منہ پھٹ کو آگ لگی ہے خود شاپنگ کرنے کی۔۔"کال کٹ کرنے کے بعد ثمینہ جو ملاہم پہ برسیں کہ سعدی جو آفس سے گھر آیا تھا ملاہم کی شامت دیکھنے فوراً انکے کمرے میں گھسا۔۔
"صرف ایک مہینے کی مہمان ہوں زرا خیال کرلیں کس قسم کے لوگ ہیں بیٹی کو بس نکال کے جان چھڑانا چاہ رہے ہیں۔۔بھئی پھوپھو خود جب کہہ رہی ہیں شاپنگ کا تو آپ کیوں منع کرنے لگیں؟"اسکی بات پہ انھوں نے اپنا سر پکڑا تھا۔۔
"تم اکیلی نہیں جاؤ گی میں ساتھ چلوں گا۔"

"یار بھائی رہنے دو ہر جگہ ساتھ ٹپکنا!تم ہوگے تو شایان اور تم دونوں باتوں میں لگ جاؤگے یا توتو میں میں ہی کروگے۔۔میں پریشہ کو ساتھ لے کر جاؤنگی مزید نو بحث.."شروع میں بھڑکتی ہوئی آخر میں معصومیت سے آنکھیں پٹائے بولی۔۔

"بڑا بھائی ہوں زرا آرام سے۔۔"وہ اسکے بال کھینچ کے بیڈ پہ دراز ہوئے لیٹ گیا تھا ثمینہ ان دونوں کو چھوڑ کے کچن میں چلی گئیں۔۔
"او ہو ہو بڑی جلدی خیال آگیا تمھیں میرا بھائی ہونے کا ورنہ ہر جگہ تو تم مجھ سے لڑنے یا بحث کا موقع نہیں چھوڑتے۔"
"تو کیا پاگلوں کی طرح تمھارے نخرے اٹھاؤں؟"وہ اچانک اٹھ بیٹھا ملاہم بیڈ پہ چڑھے کمر پہ ہاتھ رکھے اسی کو گھور رہی تھی۔۔

"وہ تو میرا شوہر نخرے اٹھالے گا تم میری بھابھی کے نخرے اٹھاؤ۔۔کہیں افطاری پہ ہی لے جاؤ ورنہ نازش کیا سوچے گی کہ کیا اسکا شوہر سعدی آفندی بڑا بزنس مین اپنی بیوی کو افطاری تک نہیں کرسکتا۔۔چھ چھ چھی"
جلتی پہ تیل ڈالنا ملاہم کو آتا تھا اور اس نے وہی کیا سعدی تو کب سے ایسے موقع کی تلاش میں تھا جب کہ ملاہم نے اسکا اپنی جانب سے دھیان ہٹانا چاہا تھا۔۔
"تھینک یو ایک مہینے والی مہمان بہن۔۔کچھ سوچتا ہوں لیکن سب سے پہلے اپنے سالے کا جگاڑ کرنا پڑے گا۔۔کاش یہ ڈیش بھی ایک عدد بیوی رکھتا۔۔"
"تو گدھے انتظار کس بات کا ہے کروادو اسکی شادی اس بلوچن سے۔۔"اسکی آنکھوں میں شیطانیت صاف جھلک رہی تھی سعدی نے گہری شیطانی مسکراہٹ اس پہ ڈالی اور اسکو گلے لگا لیا۔۔
"ہو تو تم بڑی میسنی سی پر آئیڈیے اچھے دیتی ہو۔۔شکر دماغ میں بھوسا کم بھرا ہے۔۔"آخر میں اسکے بال جو پونی میں مقید تھے انھیں کھولتا ہوا کمرے سے نکل گیا جس پہ ملاہم زوروں سے چیخی تھی۔۔
"سعدی اللہ کرے تمھاری شادی نا ہو.."وہ جل کے بولی اور دوسرے ہاتھ سے بال سمیٹ کر پونی کا جوڑا بنادیا۔۔
____________
شایان رمضان میں فری تھا تو حارث کے شوروم چلا گیا تھا۔۔حارث اسلام آباد سے باہر اب اپنی مزید ایک اور برانچ کھول رہا تھا اسی وجہ سے دن رات اسی میں مصروف ہوتا تھا۔۔
"حارث مجھے ایک ریڈ اینڈ بلیک مرسیڈیز بنوا کر دے یار۔۔"کالی نئے ماڈل کی پراڈو پہ ہاتھ جماتے ہوئے شایان نے کہا تھا۔۔
"کیوں بھئی؟"
"یار ایک فوٹو شوٹ کرواؤنگا۔۔ایک تو لوگ آجکل مجھے کاپی بہت کرتے ہیں تو اب ان سب کا زیادہ خرچہ کراؤں۔۔"شوخی سے آنکھ دبا کر شایان نے کہا حارث نے ایک سنجیدہ نظر اس پہ ڈالی تھی کہ صرف چند تصویروں کے لیے اسکو مرسڈیز چاہیے۔۔
"اچھا تو مسٹر شایان ضرور۔۔بس آپ پیمنٹ فوراً ہاتھ کے ہاتھ کردیے گا۔۔"حارث کے چہرے پہ سنجیدگی برقرار تھی شایان گڑبڑایا۔۔
"اب بھائی سے بھی پیسے لوگے؟"ماتھے پہ شکنیں نمودار ہوئیں۔۔
"دا گریٹ شایان علی کو کیا فاقے کرنے پڑ رہے ہیں جو وہ پیسے نہیں دے سکتے؟"حارث اب بھی سنجیدہ تھا۔
"ابے چل نکل۔۔"
"اور وہ تیری بلو والی نائین_ٹیز کی گاڑی کا کیا ہوگا؟؟"حارث نے اسکی محبوب کار کا زکر چھیڑا جو اب کئی بار خراب ہوتی تھی پر شایان کو کار سے بہت ہی لگاؤ تھا۔۔
شایان نے برا سا منہ بنایا تبھی اسکا موبائل بج پڑا۔۔حارث نے بھنویں اچکائے پوچھا کہ کون ہے جس پہ وہ مزید برا منہ بناکے اسکرین اسکی جانب کرنے کے بعد کال اٹیند کرگیا۔۔
"جی مس کشمالہ کیسے یاد کیا؟"مصنوعی خوشگواری سے اس نے کہا اور حارث اسکی روندی شکل دیکھ کر مسکراہٹ آگئی۔۔

جسے رب رکھے"ٹو"Where stories live. Discover now