"تم لوگ کیا کر رہے ہو مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔کہیں کوئی مذاق تو نہیں یہ سب اگر یہ مذاق ہوا تو کبھی معاف نہیں کرونگی تم تنیوں کو۔"وہ خود کو ڈرنے سے باز رکھتے ہوئے بولی۔
"اور جو تم میرے بھائی کے ساتھ مذاق کر رہی ہو اسکا کیا۔"شامیر نے گاڑی چلاتے ہوئے گردن موڑی۔
"تو چپ کر بس منہ بند کرکے گاڑی چلا اس سے آج میں خود بات کرونگا۔۔"حارث نے اسکی گردن آگے گھمائی۔"پریشہ میں جو کچھ پوچھوں سچ سچ بتانا کچھ بھی چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔"حارث نے واپس اپنی پشت چئیر پہ ٹکائی وہ ان دونوں کے درمیان بیٹھ کے پھنس چکی تھی دونوں کے ہی تیور غصب ڈھا رہے تھے۔
"پھر گھر چھوڑ دو گے؟"
"ہاں تو تمھارے ساتھ جہنم میں جانے کا ارادہ بھی نہیں۔۔اب یہ بتاؤ ارمان سے محبت کرتی ہو؟"حارث نے اسکا بازو پکڑ کے اسے بھی سیٹ سے لگایا وہ اسکے رویے پہ پریشان ہوگئی تھی۔
"ہاں۔"اس نے لب مزید کچھ کہنے کے لیے کھولے حارث نے اسکی بات کاٹ دی۔
"محبت کے لیے قربانی بھی دی جاتی ہے کیا یہ دے سکتی ہو؟"
"اسکو چھوڑنے کے علاوہ ہر قربانی دے سکتی ہوں۔"پریشہ نے بے اختیاری میں ارمان کی آنکھوں میں دیکھا گاڑی میں بیٹھے ان تینوں مردوں کے چہرے ہہ مسکان پھیلی تھی۔"گڈ ویری گڈ اب آخر سوال اس میں جھول مول کیا تو شامیر گاڑی یہیں ٹھوک دے گا۔
بتاؤ رخصتی کے لیے راضی کیوں نہیں ہوتیں؟ایسی کون سی وجہ ہے جو تم سب کو انکار کردیتی ہو۔"اب کی بار وہ سوال پہ پریشان ہوئی تھی جس بات کا خود اسکے پاس کوئی ڈھنکا جواب نا تھا وہ دوسروں کو کیا دیتی۔"بولو کیا منہ میں دہی جما لی ہے۔"حارث نے اس پہ سختی کی اسکی سختی پہ پریشہ کا ایک انسو ٹوٹ کے گالوں میں پھسلا شاید وہ فنکشن سے ہی کافی دیر تک خود پہ ضبط کیے ہوئے تھی۔
"حارث بس۔"ارمان نے اسے روک دیا تھا اور پریشہ کا آنسو انگلی سے چنا۔
"نہیں آج یہ جواب دیگی عجیب اس نے ڈرامے کر رکھے ہیں تیری فیلنگز کی کوئی قدر ہی نہیں اسے۔"حارث برہم ہوا پریشہ کے آنسو بہنے میں تیز رفتاری ہوئی۔
"مجھے قدر ہے جب ہی منع کرتی ہوں۔"آنسو پوچھ کے اس نے تیز آواز میں کہا حارث اور ارمان کے ماتھے پہ بل پڑے۔
"یہ کس قسم کی قدر ہے زرا کھل کے کچھ بتاؤگی۔۔"حارث تو چڑ گیا تھا۔
"تم لوگوں کو پتا ہے میں دوسری لڑکیوں کی طرح ہر گز نہیں ہوں۔ہاں ایگزامز کی آڑ میں رخصتی رکوانا ایک کمزور سا بہانہ ہے۔""آگے یہ تو ہمیں ہتا ہے کیونکہ تمھارا دماغ خراب یے کوئی ڈھنکی وجہ ہے انکار کی؟"حارث نے اسے مزید کریدنا چاہا اور وہ حارث کے جال میں پھنس کر اگلتی رہی۔
"مجھے ڈر لگتا ہے کہیں اسکا مجھ سے دل نا بھر جائے۔شادی کے بعد میں اپنی روٹین کے مطابق ہی جیونگی یہ مجھے منع بھی نہیں کرے گا پر تمھیں پتا ہے نا یہ خود ایک بزنس ٹائکون ہے مصروف رہتا ہے اور میں بھی اپنے چیزوں میں اینجیو یوٹیوب باقی سوشل ورکز اور دوستوں کی گیدرنگ میں بزی ہی ہوتی ہوں۔۔میں نے اپنی یہ زندگی خود چنی ہے رات کو جب میں بستر پہ تھک کے لیٹتی ہوں تو مجھے کچھ پتا نہیں ہوتا۔۔میں شادی کے بعد اس کو سہی طرح وقت نہیں دے پاؤنگی۔پھر یہ ناراض ہوگا اور ہماری زندگی ایسے گزرے گی اور کیا معلوم اسکا مجھ سے دل بھی بھر جائے۔۔"وہ کہہ کر چپ ہوئی ان تینوں پہ سکتا طاری تھا خالی سڑک پہ شامیر نے عجیب سی حالت میں بریک لگائی ارمان اور حارث نے اچانک سر پکڑا وہ ان تینوں کو پریشانی سے دیکھنے لگی جن کو سانپ سونگھ گیا تھا۔
YOU ARE READING
جسے رب رکھے"ٹو"
Humorایک بار پھر آفندیز آئے ہیں۔۔ دوستی کی مثالیں،،محبت کی پرچھائی اپنا ہر خواب پورا کرنا۔۔ دیکھتے ہیں یہ دیوانے اب کیا کرجائیں گے۔۔ کیا ان سب کی شادیاں ہوجائینگی اور رمضان میں انھوں نے کیا تیر مارنے ہیں۔۔ باقی آپ خود پڑھ لیں۔۔۔میں کہانی کے بارے میں کیا...