Episode 12

620 64 20
                                    

"شٹ یار...اب فاروق صاحب ہمارا کیا کریں گے۔"ارمان کو ابھی تک فرصت کے ساتھ کوئی موقع ملا ہی نہیں تھا جو فاروق کو شامیر اورمنہا کے رشتے کے حوالے سے کچھ بتاتا۔
"بس جتنا برا ہوسکتا ہے اب وہ وہی کریں گے۔"حارث بڑبڑا کہ پر سوچ انداز میں بیٹھ گیا۔
ایک مسئلہ تو یہ تھا کہیں فاروق صاحب سچ نا بول دیں اور پھر شامیر کا رشتہ ہی ختم ہوجائے۔
______________
"بیٹا آپ نے بتایا نہیں والد صاحب کی صحت یابی کا؟"انھوں نے شکوہ کناں نظر ڈالی ارمان دل مسوس کرتا رہ گیا۔
"ہاں بابا کچھ دن پہلے ہی آئیں ہیں۔۔"لب دبائے فاروق کے تاثر دیکھ کر اس نے مسکرا کہ کہا پر اندر تو تہلکا مچا ہوا تھا۔
"میں لندن علاج کے لیے گیا تھا۔۔ہنہہہ۔۔"فاروق نے اسکو بغور دیکھا ارمان نے التجائی نظروں سے ان سے منت کی کہ ابھی کچھ نا بولیں۔
کبیر اور خان صاحب دونوں ہی دوست تھے آج اتفاقاً کبیر صاحب انھیں پارٹی میں لے آئے۔۔فاروق آفندی کے تعارف پہ انھوں نے پہچان لیا کہ وہ شامیر کے ہی والد ہیں۔
خان صاحب نے انکو رشتے والی بات بتائی تب کںیر اور فاروق دونوں کے ہوش اڑے تھے کہ انکی اولاد کیا کرتی پھر رہی ہے۔
موقع کی نزاکت کو سمجھ کر کبیر نے فاروق کو غصے پہ کنٹرول کرنے پہ مجبور کردیا تھا پر اب ارمان کو دیکھ کر انکے اندر کا غصہ لاوا بن کر ابل رہا تھا۔
"انکل آپ خان صاحب کو ٹیبل پہ لے جائیں روزہ بھی بس کھلنے والا ہے۔"اس نے تحمل سے کہہ کر جگہ دکھائی کبیر سر ہلاتے ہوئے انھیں ساتھ لے کر آگے بڑھے اور ارمان کو فاروق سے نمٹنے کے لیے تھمبز اب کرنا نہیں بھولے وہ گھٹن کا شکار ہوا۔
"بابا قسم اٹھوالیں مجبوری نا ہوتی تو کبھی ایسا کچھ نہیں کرتا۔۔اور آپکو تو بس آج بتانے ہی والا تھا۔۔"فاروق کا دائیں ہاتھ پکڑ کے بائیں ہاتھ سے انکے سینا تھپتھاتے ہوئے اس نے سمجھانے کی کوشش کی تھی پر وہ کچھ سمجھنے کے موڈ میں نہیں تھے انکو تو ابھی آدھی حقیقت پتا چلی تھی وہ کافی حد تک کنفیوز تھے۔
"یہاں سے فارغ ہوکر سارے کے سارے مجھے گھر پہ ملو۔"سرد پتھریلے انداز سے کہہ کر وہ واک آؤٹ کرگئے پیچھے وہ منجمد ہوگیا انکو بھی اندازہ تھا پوری پلٹون کی ملی بھگت ہوگی یہ اور وہ بلکل درست ہی تھے۔

پارٹی ختم ہونے کے بعد سب سے مل ملا کہ آخر میں ارمان ان کی طرف آیا۔
"چلو سب گھر بابا نے بلایا ہے۔۔اور کوئی الٹی سیدھی بکواس مت کرنا۔"وہ وہاں رکا نہیں تھا پریشہ کا ہاتھ پکڑ کے سب سے پہلے اسے ہی وہاں سے لے گیا۔
"ارمان۔۔"وہ مسلسل اسے مخاطب کر رہی تھی۔
"کیا مسئلہ ہے؟"اسکے برہمی سے کہنے پہ وہ چڑی۔
"کیا کہا تھا میں نے کہ لندن والا جھوٹ نا بولنا پر کسی نے مانی میری بات؟میں اس سب کی ذمہ دار بلکل نہیں ہونگی۔"اس نے اپنا ہاتھ چھڑایا تھا ارمان نے صبر کا کڑوا گھونٹ پیا۔
"تمھیں ابھی لندن والے جھوٹ کی پڑی ہے۔۔چپ کرکے بیٹھو گاڑی میں۔"دروازہ کھول کر وہ دوسری طرف گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ کی طرف آیا وہ پیر پٹخ کے گاڑی میں بیٹھی تھی اور سارے راستے تیڑھے منہ بنا کر ہی اس نے ارمان کو تپایا تھا۔

جسے رب رکھے"ٹو"Where stories live. Discover now