رامس کے گھر سے ان دونوں نے مشک اور پریشہ کو ریسو کیا تھا۔۔
خان ہاؤس پہنچتے ہی وہ سب گاڑی سے اترے پریشہ اترنے لگی تھی ارمان دروازے کے درمیان حائل ہوا۔
حارث نے پلان بہت ہی آسان بنایا تھا پر جو چیزیں کرنے کو کہیں تھیں پریشہ ان پہ راضی بڑی مشکل سے ہوئی تھی۔"تمھیں پتا ہے نا کیا کرنا اگر تم نے میری بات نہیں مانی پریشہ تو اچھا نہیں ہوگا۔۔"رات کو میسج کرکے جو ارمان نے اسے کہا تھا وہ بلکل بھی اس پہ عمل کرنے کو راضی نہیں تھی اوپر سے اتنے ٹوپیاں یہ کروانے کے الگ ارادے بنائے بیٹھے تھے۔ارمان کو پتا تھا وہ بات ماننے سے انکار ہی کرے گی جب ہی اسے ابھی باہر ہی وارن کر رہا تھا۔۔
"میں تم کو آپ نہیں بولونگی۔۔"اس نے ناک چڑا دی تھی ارمان اسکے چہرے پہ جھکا۔۔
"پاگل ہوگئی ہو کیا۔۔ایک اچھے شریف خاندان کی بہو اہنے شوہر کو کیا تم تم کرکے مخاطب کرتی ہیں...ہاں؟؟"
"اوہ اچھا۔۔ہاں ہاں میں بول لونگی شامیر کے لیے سب کچھ اور بھلا اب آپکی بات بھی کیسے ٹال سکتی ہوں۔۔"اسکے کالر ٹھیک کرکے وہ باہر نکلی ارمان گنگ رہ گیا واقعی اس نے اسے آپ بولا تھا۔۔
"میسنی"خوشگوار مسکراہٹ اسکے ہونٹوں پہ رینگ گئی۔۔
شامیر نے بے تابی سے ڈور بیل بجائی رومی نے فوراً دروازہ کھولا جیسے وہ وہیں چپکی کھڑی تھی۔۔
"فسادی..."اسکو دیکھ کر شامیر بڑبڑایا رومی نے نظروں سے ہی التجہ کی کہ اسے معاف کردے۔مشک کے پاس تبھی سعدی اور اور ملاہم کی کال آئی۔۔
"یار ہاں سب ٹھیک یے کوئی محاز پہ تھوڑی آئے جو سب کال کیے جارہے ہو۔"مشک نے فوراً کال کاٹ دی ملاہم فوراً مسلا بچھا کے شامیر کے لیے دعائیں مانگنے بیٹھ گئی تھی جو بھی وہ لڑیں مریں پر ایک دوسرے پہ جان نچھاور کردیتے تھے ایک دوسرے کی خوشی کے کیے ہر حد پار کرنے کی ہمت تھی۔۔
رومی ان چاروں کو ٹی وی لاؤنچ میں لے آئی اور فوراً انکی آمد کا خان صاحب کو کمرے میں جاکے بتایا وہ کرتا جھاڑتے ہوئے کھڑے ہوئے اور پشاوری چپل پیروں میں اڑس کے باہر نکلے۔"اسلام و علیکم.."انھوں نے لاؤنچ میں قدم رکھتے ہی خوشگواری سے سلام کیا پر اس نوجوان نسل کو دیکھ کر کھٹک گئے۔۔
"وعلیکم اسلام انکل.."مان نے انکو اندر آتا دیکھ کر کھڑے ہوکے ادب سے جواب دیا اور مصافحہ کرکے واپس جگہ پہ بیٹھا۔۔
"کیسے ہیں آپ؟"پریشہ سر پہ دوپٹہ لیے بیٹھی خوشگواری سے بولی۔۔شامیر کو ایک آنکھ اسکی اداکاری نا بہائی جب کہ وہ کوئی اداکاری نہیں کر رہی تھی۔۔
"میں ٹھیک بچے آپ کون۔۔"انکو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا شامیر کون تھا ان دونوں لڑکوں میں سے اور پھر اسکے والدین کہاں تھے!"میں شامیر کی بھابھن..بھ بھابی ہوں۔۔"مان نے اسکو کہنی مار کے جملہ درست کروایا بھابھن سن کے شامیر نے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھ کر مسکراہٹ چھپائی تھی۔
"آپ پرہشان نا ہوں میں آپکو سب بتاتا ہوں۔۔"ارمان نے اپنے عادت کے مطابق نرم لہجے میں کہا خان صاحب اس شخص سے ںے حد متاثر ہوئے تھے ناجانے کیوں وہ دیکھا دیکھا لگ رہا تھا۔
"میں ارمان آفندی ہوں شامیر آفندی کا بڑا بھائی۔۔"اس نے دوسرے صوفے پہ بیٹھے شامیر کی جانب اشارہ کیا۔۔خان صاحب نے دوسرے لڑکے پہ نگاہ ڈالی جو وائٹ شرٹ پہ براؤن کوٹ پہنے جینز کی پینٹ کے ساتھ اسکینرز سے پیر قید کیے گٹھنوں پہ کہنیاں جمائے بیٹھا مسکرا رہا تھا اور خان صاحب کے دیکھتے ہی اس نے فوراً سلام کیا تھا۔۔
"یہ میری وائف ہیں اور یہ ڈاکٹر مشک ہیں۔۔"بعد میں ان دونوں کو بھی اس نے تعارف میں شامل کیا۔۔ڈاکٹر سن کے شامیر کو ہنسی آنے لگی مشک نے اسے پیر مارا کے انسان بن جائے۔
"لو آخر کار تم آج ڈاکٹر کے رتبے پہ فائز ہوگئیں۔۔"شامیر نے فون نکال کے میسج ٹائپ کرکے سینڈ کیا واپسی میں مشک نے اسے غصے سے بھرے میسج سینڈ کیے تھے۔۔
YOU ARE READING
جسے رب رکھے"ٹو"
Humorایک بار پھر آفندیز آئے ہیں۔۔ دوستی کی مثالیں،،محبت کی پرچھائی اپنا ہر خواب پورا کرنا۔۔ دیکھتے ہیں یہ دیوانے اب کیا کرجائیں گے۔۔ کیا ان سب کی شادیاں ہوجائینگی اور رمضان میں انھوں نے کیا تیر مارنے ہیں۔۔ باقی آپ خود پڑھ لیں۔۔۔میں کہانی کے بارے میں کیا...