Last Episode (14)

954 87 49
                                    

صبح سعدی کی آنکھ کھلی جمائی روکتے ہوئے اٹھا ڈریسنگ کے سامنے نازش کلیوں والی گولڈن فراک میں کھڑی کانوں میں آویزے ڈال رہی تھی۔وہ اٹھا بالوں میں ہاتھ چلاتا ہوا مسکرا کہ اسکے پیچھے آن کھڑا ہوا وہ اپنے کام میں اتنی مگن تھی کہ سعدی کے بیدار ہونے کا اندازہ ہی نا ہوا اور سعدی کے ڈرانے پہ چیخ مار کے اچھلی۔
"ایسے ڈر رہی ہو جیسے کوئی جن دیکھ لیا ہو؟"ٹراؤزر کی جیب میں اس نے ہاتھ پھنسائے نازش دل کے مقام پہ ہاتھ رکھے گہری سانسیں لے رہی تھی۔
"صبح اتنا خطرناک جن ہی دیکھا ہے۔"منہ بناتے ہوئے اس نے جواباً کہا بدلہ لینے سے باز نا آئی تھی سعدی عین اسکے سامنے کھڑا ہوا۔
"ویسے تم اتنی جلدی جاگ جاتی ہو؟"ماتھے پہ شکنیں ڈالے اس نے پوچھا نازش نے کمر پہ ہاتھ رکھے اور جتاتے ہوئے گھڑی کی طرف اشارہ کیا جو دس بجا دہی تھی سعدی نے گھگھیا کر نظریں چرائیں۔
"تم نے بتایا نہیں کہ تم گدھے گھوڑے بیچ کے سوتے ہو؟"ڈریسنگ کی طرف مڑ کے اس نے برش بالوں میں پھیرا سعدی کی نظریں اسکے ریشمی بالوں پہ پڑی جو ہمیشہ ہی اس نے کمر پہ کھلے ہی دیکھے تھے۔
"اوہہ۔۔خیر ایک بات ہے سوچ رہا ہوں کہہ دوں"رات منہ دکھائی میں پہنائی نازش کی دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو تھاما۔
"بولو۔"وہ منتظر تھی۔
"سعدی آفندی کا آج پھر اپنی کشمیری بیوی پہ دل آگیا ہے۔"استحقاق سے سعدی نے اسکا ہاتھ چھوڑا اور بیڈ پہ رکھا دوپٹہ اٹھا کر اسکے سر پہ پھیلایا جو ریشم کا ہونے کی وجہ سے فوراً سرک کے کاندھوں پہ گرا۔نازش مسکراتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی تب ہی ڈور ناک ہوا۔
وہ بدمزہ ہوا پر دروازہ تو کھولنا ہی تھا۔
بےزاری سے اس نے جیسے ہی دروازہ کھولا حارث نے اسکے منہ میں گلاب جامن ٹھونسی،،زبردستی!
"ابے کیا کر رہا ہے۔۔"سعدی کھانستے ہوئے اس سے دور ہوا پر حارث نے اسے خود میں بھینچے رکھا نازش لاعلمی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"جلدی باہر آ"نازش کے ہاتھ میں گلاب جامن پکڑا کہ وہ سعدی کو بولتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
"زری کی خراب طبیعت کی وجہ سے کہیں یہ پاگل تو نہیں ہوگیا۔"سعدی نے لاشعوری سے سر کھجایا۔
"کچھ کہہ نہیں سکتے...اچھا تم جلدی سے فریش ہوکے آؤ ابھی ملاہم بھی بلانے آئی تھی۔"گلاب جامن ٹشو پہ رکھی اور سعدی کو شانے سے پکڑ کے نازش نے گھمایا تھا پر وہ واپس دل نشینی سے مڑا اور اسکے چہرے پہ جھکا۔
"اتنی جلدی کیا ہے پہلے تمھیں دیکھ تو لوں پورے ڈیڑھ سال اس دن کا انتظار کیا ہے آخر آج میرے سامنے میری ہوکر میرے کمرے میں ہو۔"وہ محویت سے اسے بازو سے تھامے دیکھ کر کہہ رہا تھا نازش کے لیے نظریں اٹھانا دوبھر ہوگئیں۔
"بعد میں دیکھ لینا جب میں بکلاوا کرکے آجاؤں گی تب۔"وہ اطمینان سے بولی سعدی کی پرسوچ نظروں نے اسکا انداز بھانپا۔
"کیا مطلب؟اور یہ بکلاوا کیا ہے؟"
"بکلاوا رسم ہے شادی کے بعد دلہن اپنے میکے جاتی ہے۔اور میں بھی جاؤنگی۔"اس نے سکون سے جتایا۔
"ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔منع کردو اپنے بھائی کو مت آئے بعد میں میں خود ملوانے لے جاؤنگا پر آج تم کہیں نہیں جاؤگی۔۔"آنکھیں چھوٹی کیے حکم جھاڑ کے وہ واش روم میں گھس گیا پیچھے نازش منہ لٹکائے ساکت نظروں سے بند دروازہ دیکھتی رہ گئی۔
_______________

جسے رب رکھے"ٹو"Where stories live. Discover now