Episode 10 (part 2)

653 85 55
                                    

سعدی نازش کی فیملی کو ریسو کرکے انکو جگہ پہ بٹھا کر اسٹیج کی طرف آیا۔۔
چھوٹے سے اسٹیج پہ جدید فیشن کے صوفے رکھے تھے جن پہ ملاہم کو لاکر بٹھایا جا رہا تھا۔
"سعدی شایان کہاں ہے؟"سوال سنتے ہی سعدی کا دماغ گھوما جواب دینے کے لیے وہ مڑا تو سامنے نازش تھی جو آنکھوں میں سوال لیے کھڑی تھی منہ کھلا ہوا تھا تھوڑی کا خم واضح تھا۔
"آرہا ہے۔"نازش کو اسکا پھیکا سا جواب ناگوار گزرا وہ واپس مڑنے لگی تو سعدی نے روک لیا۔
"اب ہمارے خاندان کا حصہ ہو یہیں کھڑی رہو۔۔"اس نے اطمینان سے کہا چہرے پہ شرارت یا مسکراہٹ غائب تھی۔
"اور تمھاری کون ہوں؟"اس نے تیور چڑھائے پوچھا۔
"میری تو بیوی ہو۔"اب بھی وہی اطمینان اور روکھا پن نازش کو تپا چکا تھا وہ شایان کو لے کر پریشان تھا جبھی ہر بات کا جواب مختصر دے رہا تھا۔
"ناراض مت ہو مجھے سمجھو بس اس وقت بہت مشکل حال میں پھنسا ہوا ہوں۔"سعدی نے اسکی آنکھوں میں دیکھا وہ نا سمجھی سے اسکو دیکھنے لگی کیوں آج سعدی کا موڈ خراب تھا وہ یہی سوچ سوچ کے پریشان ہورہی تھی ہھر ملاہم کے پاس ملنے چلی گئی سعدی اسکو جاتا دیکھ کر ہولے سے مسکرایا۔
________________

شایان نے ایڈریس پر گاڑی روکی تھی بڑھتی دھڑکن کے ساتھ بھاگتا ہوا کشمالہ فلیٹ کی بلنڈنگ کی طرف گیا فورتھ فلور پہ کشمالہ کا فلیٹ تھا۔لفٹ کا گیٹ کھلتے ہی وہ فلیٹ کی طرف آیا دروازہ بجانے کی نوبت نا آئی کیونکہ وہ پہلے کھلا تھا یا شاید اس نے کھول کر چھوڑ دیا تھا۔

"کشمالہ۔۔"اس نے ضبط کیے اسے اندر آکے آواز دی ایان باہر بیٹھا رو رہا تھا۔۔
"انکل مما کمرے میں ہیں۔"ایان سسکتا ہوا شایان سے لگا۔
"اچھا آپ رو نہیں سپر مین روتے تھوڑی ہیں۔۔"شایان اسکو تسلی دے کر کمرے کی طرف آیا روم لاک تھا شایان نے دوسرا کمرا چیک کیا وہاں کی کھڑی اسکے روم میں کھل رہی تھی وہ کھڑکی پاس آیا اور منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔
فرش پہ کانچ بکھرے ایک ہاتھ میں کشمالہ کانچ کا ٹکڑا لیے بیٹھی تھی۔۔
"کیا ڈرامہ ہے یار۔"وہ جھنجھلایا اس نے شامیر کی کال اٹینڈ کی۔
"شایان واپس آجا بہت ہوگیا۔"
"ابے یہ مرنے کے لیے تیار بیٹھی ہے.."شایان کی زبان لڑکھڑائی تھی۔
"مرنے دے تو واپس آجا فوراً۔"شامیر نے چڑ کر کہا لوگ اب وہاں باتیں بنانا شروع کر چکے تھے جو ان لوگوں کو برداشت نہیں ہورہی تھیں۔
"ابے او وہ کانچ کا ٹکڑا لے کر نس کاٹنے کے لیے بیٹھی ہے۔۔"
"اسکو شوق ہے مرنے دے اگر تو یہاں نا آیا تو پھپھا نکاح نہیں جنازہ پڑھا دینگے۔"شامیر نے غصے میں ماتھا رگڑتا ہوئے کہا۔
"مجھے آدھا گھنٹہ دے میں آجاؤنگا بس اس سے پہلے سب سنبھال لے۔"شایان نے کہہ کر کال کاٹ دی شامیر ہیلو ہیلو کرتا رہ گیا۔
"کمینہ۔۔"شامیر نے فون پٹخنے کے لیے ہاتھ اٹھایا پھر سر جھٹک کے رک گیا۔
شایان کود کر کمرے میں آیا اور سب سے پہلے دروازہ کھولا۔

"یہ کیا بے وقوفی ہے تمھیں میں سمجھدار سمجھتا تھا پر تم بے وقوف ہی نکلیں۔"
"جب محبت نا ملے تو ایسا کرنا پڑتا ہے"اس نے کانچ کا ٹکڑایا کلائی پہ جمایا اور چیخ کر بولی۔
"یہ سب کرکے مجھے کبھی حاصل نہیں کرسکو گی۔"وہ گرج دار آواز میں چیخا تو وہ کانپ گئی۔
وہ تئیس سال کی لڑکی تھی شوبز اس نے چھوٹی عمر میں ہی جوائن کیا تھا جب ہی اس وقت ایک شوبز کا چمکتا ستارا تھی....والدین نے چھوٹی عمر میں ہی شادی کرکے ذمداری سے جان چھڑائی اور وہ شادی بھی زیادہ عرصے تک نا چلی۔۔اس نے بھی خود کو زندگی میں مصروف کرلیا۔۔پھر ایک وقت آیا جب شایان کے ساتھ اسے کام کرنے کا موقع ملا اور وہ شایان کی ایان اور اسکے ساتھ ہمدردی کو کچھ اور سمجھ بیٹھی عمر میں وہ شایان سے چھوٹی ہی تھی۔
"دیکھو کشمالہ سب سے پہلے کانچ پھینک دو اور پھر ایان کا سوچو اسکے دماغ پہ ان باتوں کا کیا اثر ہوگا۔۔"شایان کے سمجھانے پہ وہ چیخی۔
"کب تک سب کو سمجھوں۔مجھے بھی تو کوئی سمجھے۔"
"میں سمجھ رہا ہوں تمھیں۔۔"
"تو مجھے اپنا کیوں نہیں لیتے۔۔"اس نے جواباً اسے لاجواب کردیا تھا۔
"تمھیں سمجھ رہا ہوں۔۔تم وقتی اٹریکشن کو محبت سمجھ رہی ہو۔۔تم کو مجھ سے محبت نہیں ہے تم نے میری ہمدردی اور نرمی کو غلط سمجھا۔۔ایسے تو میں سب سے بات کرتا ہوں تو کیا ہر لڑکی دعوی کرے کہ مجھے اس سے محبت ہے یا وہ مجھ سے محبت کرنے لگی۔محبت مذاق نہیں ہے ایسے ہی ہر کسی سے محبت نہیں ہوتی۔"وہ کہہ کر اسکے ہاتھ سے کانچ چھیننے کے لیے آگے بڑھا تھا۔
"نہیں میری محبت دھوکہ نہیں ہوسکتی۔"
"فار گاڈ سیک پلیز سٹاپ اٹ!!کیا کھیل تماشہ کر رہی ہو۔۔بہت شوق ہے نا مرنے کا ٹھیک ہے مرو یہ کانچ تو چھوٹا ہے میں کچن سے چھری لاکے دیتا ہوں اس سے نس کاٹنا۔"وہ چڑتے ہوئے بولا کشمالہ گہری سانسیں لیتی رہی۔
"تمھارے مرنے سے مجھے فرق نہیں پڑے گا میں تو جاکے ملاہم سے نکاح کرلونگا پر تم کیا کروگی تم تو یہاں ہوگی ہی نہیں۔"
کشمالہ اسکی اجنبیت پہ اسکو دیکھتی رہی کشمالہ کی جان اسکے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی؟جان تو اہمیت رکھتی تھی پر وہ جو چاہتی تھی اس بات کو وہ کبھی اہمیت نہیں دے سکتا کیونکہ وہ بات ہی غلط کر رہی تھی۔

جسے رب رکھے"ٹو"Where stories live. Discover now