Part 11

3.2K 115 19
                                    


"مانا مجھے اس میں انٹرسٹ نہیں ہے. وہ چھوٹی سی لڑکی کہیں سے بھی میرے ٹائپ کی نہیں ہے."
"تمہارے ٹائپ کی ماہین تھی. "
وہ جب سے سے شاپنگ سے واپس آئی تھی ، اس کے دماغ میں یہ باتیں گردش کر رہی تھیں اسے اب تک یقین ہی نہیں آرہا تھا، کہ اس کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے.
یہ سچ اس کے لئے جان لیوا تھا کہ اس کی محبت کو کسی اور سے محبت تھی.

  وہ  میرا  ہے  بھی  نہیں  اور  میں
اسے کھونے کے خدشات میں گم ہوں

           ______________________

آج ولی کا نکاح تھا اور ساتھ ہی ماہی کی مہندی کا فنکشن رکھا گیا تھا.
ماہی مہندی لگوا کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی.
اور زینب نے سب کو یہ کہہ دیا تھا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اسی لیے وہ کچھ دیر آرام کرنے گئی ہے.
کل اس کی زندگی کا بہت بڑا دن تھا.
فنگشن کے لیے ہال بکڈ تھا، سب اپنی تیاریاں پوری  کیے ہال میں جا پہنچے تھے.
ہانیہ بلڈ رڈ جوڑا پہنے بہت دلکش لگ رہی تھی اور اس کی خوشی دیکھنے لائق تھی. وہ ایسی ہی تھی، چھوٹی چھوٹی چیزوں سے خوش ہو جانے والی.
لیکن آج تو اس کی خوشی دیکھنے لائق تھی، ہوتی بھی کیوں نا، آج خوشی بھی تو بڑی تھی.
وہ آج اس شخص کے نصیب میں لکھ دی گئی تھی جس کا نصیب بننے کے لیے اس نے اپنے رب سے دعائیں مانگی تھی.
لیکن جب وہ اپنے ساتھ بیٹھے شخص کو دیکھتی تو وہ خوشی مدہم پڑ جاتی.
کیونکہ وہ شخص جو اس کے ساتھ پورے استحقاق سے بیٹھا تھا کوئی شک نہیں تھا کہ وہ اسی کا تھا اس کے نصیب میں لکھا جا چکا تھا لیکن اس شخص کا دل، دماغ، سوچ ان سب پر شاید اس کی رسائی اتنی جلدی ممکن نہ تھی.
لیکن کہتے ہیں کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا، تو بس پھر.....
ویسے بھی ہانیہ تو وہ لڑکی تھی جس کے لئے کچھ بھی ناممکن نہیں تھا.
بس تھوڑی ہائٹ چھوٹی تھی مگر وہ اس سے بھی بہت پرکشش لگتی تھی.
نکاح کے بعد کھانے کا دور چلا تھا.
اور پھر آخر وہ وقت بھی آگیا جس کے آنے سے ہر مضبوط سے مضبوط لڑکی بھی رو پڑتی ہے اپنے باپ کی دہلیز پار کرنا اس قدر مشکل مرحلہ ہے.
کوئی لڑکیوں سے پوچھے....

جو خوشی تمھارے قریب ہو ، وہ صدا تمھارے نصیب ہو
تجھے وہ خلوص ملے کہ جو، تیری زندگی پہ محیط ہو

جو معیار تجھ کو پسند ہو ، جو تمھارے دل کی امنگ ہو
تیری زندگی جو طلب کرے، تیرے ہمسفر کا وہ رنگ ہو

جو خیال دل میں اسیر ہو ، ہر دعا میں ایسی تاثیر ہو
تیرے ہاتھ اٹھتے ہی یک بیک، تیرے آگے اسکی تعبیر ہو

تجھے وہ جہاں ملے جدھر ، کسی غم کا کوئی گذر نہ ہو
جہاں روشنی ہو خلوص کی ، اور نفرتوں کی خبر نہ ہو ​
                ___________________

وہ اپنی مہندی کا فنکشن بڑی بے دلی سے اٹینڈ کر آیا تھا.
اور اب وہ ٹیرس پر کھڑا اپنی ہی سوچوں میں گم تھا اور اس کا دوست ہاشم بھی اس کے پاس موجود تھا.
مجھے بتا اب تو چاہتا کیا ہے؟ ابراہیم نے ہی بات شروع کی....
میں چاہتا ہوں کے وہ انکار کردے. میرے مطابق اسے انکار کردینا چاہیے کیونکہ وہ شاپنگ مال میں میری اور ولید کی باتیں سن چکی ہے اور ویسے بھی میرے پلین میں یہی تھا کہ میں ولی کو گہری چوٹ پہنچاؤ تو میں اسے پہنچا چکا ہوں. اس کی محبت دور کر چکا ہوں.
بس.....  میں اب چاہتا ہوں کہ میں اپنی روٹین پر واپس آ جاؤں اور یہ تبھی ممکن ہے جب وہ پاگل لڑکی شادی سے انکار کرے گی....
تیرا دماغ خراب ہے؟ وہ شادی سے انکار نہیں کرے گی.
کیوں...... وہ کیوں شادی سے انکار نہیں کرے گی، جب وہ جان چکی ہے کہ مجھے اس میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے تو پھر اس کا انکار بنتا ہے، میری مجبوری ہے میں انکار نہیں کر سکتا. موم کی حالت تو تم جانتے ہی ہو ...؟
کسی بھی لڑکی کے لئے اپنی شادی سے انکار..... وہ بھی ایک دن پہلے انکار کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا.... اس کی عزت کے ساتھ ساتھ، اس کے باپ، بھائی، خاندان سب کی عزت جوڑی ہوتی ہے.
تیری کوئی بہن نہیں ہے، اسی لیے شاید سمجھ نہیں پا رہا. ابراہیم یہ بات کہہ کر روکا اور اس کی طرف دیکھا جو اب تک سمجھنے سے ہی انکاری تھا. اتنا مت سوچ، ٹھیک ہے، پھر کل ملاقات ہوتی ہے بڈی وہ یہ کہہ کر وہاں سے جا چکا تھا...

                 _____________

رخصتی کے بعد جب سب لوگ گھر آئے تو دروازے پر ہی ولی کو اس کے کزنوں نے روک لیا اور ان سب میں وہ دشمن جان بھی تھی، جسے دیکھ کر  دل ایک دم پرسکون ہوا تھا.

لے لے سکون قلب بھی، جو چاہے دے سزا مجھے
لیکن فصیلِ شہر سے اپنی نہ کر جدا مجھے

بجلی کی زد میں آشیاں، نوکِ سناں پہ ہے جگر
اب اور منتظر نہ رکھ، منزل مری دکھا مجھے

دستک تھا دے رہا کوئی، دہلیز پر امنگ کی
میں ہی اسیرِ ذات تھا، خود ہی نہ در کھلا مجھے

میں محوِ دیدِ یار تھا، کچھ کہہ کے وہ گزر گیا
''کیسا عجیب لفظ تھا، جو یاد نہ رہا مجھے''

میری نظر کے تیر سے، کانٹوں کے دل کو پھول کر
دے دے یہ کیمیا گری ، یہ حسن کر عطا مجھے

وہ جانتا تھا کہ وہ تھکی ہوئی ہے اور اس کی تھکان  کا واضح ثبوت اس کی سوجی ہوئی آنکھیں تھیں، لیکن ان اداس آنکھوں سے بھی وہ دل میں اتر جانے کی صلاحیت رکھتی تھی.
وہ اسے دیکھنے میں اتنا محو تھا کہ وہ یہ نا جان پایا کہ وہ کب اس کے سامنے آئی اور پتہ نہیں کب سے اس کے سامنے کھڑی بولی جارہی تھی.
پھوپھو آپ دیکھ رہی ہیں نا کہ جیسے ہی پیسوں کی بات آئی ہے، آپ کے بیٹے کی بولتی بند ہوگئی ہے.
ولید عابد خان تمہیں تمہاری شادی کی بہت بہت مبارکباد ہو. وہ شرارتی انداز سے بولی تھی.
چلّو جلدی سے مجھے بار رکائی دو  ماہی چہکتے ہوئے بولی....
اور اس میں ہانی بھی میرے ساتھ ہے؟
ہاں..... وہ بس ہاں ہی کہہ سکی.
کتنے چاہیے....؟
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا...... ہم پانچ لوگ ہیں تو اس کے مطابق ہمیں 50,000 چاہیئے.
ولی نے بغیر کوئی بحث مباحثہ کیے، اسے پیسے دیے اور سب اندر کی طرف بڑھ گئے..

عجیب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں
لگا کے زخم، نمک سے مساج کرتے ہیں

                 ____________________

 تیری عاشقی میں جانا (مکمل ناول) Where stories live. Discover now