وہ اسے گھر نہیں لایا تھا، بلکہ ایک ہوٹل میں لے آیا تھا.
اس کا اپنا فارم ہاؤس بھی تھا مگر کافی سالوں سے بند ہونے کی وجہ سے وہ اسے وہاں نہ لے کر گیا.
وہ بیڈ پر لیٹی سو رہی تھی اور کچھ فاصلے پر موجود شاہ زمین پر بیٹھا سر الماری کے ساتھ لگائے اسے دیکھ رہا تھا.
وہ سوتے ہوئے بالکل معصوم بچی لگ رہی تھی.
اسے اب سمجھ آیا تھا کہ ان دونوں کے بیچ کس قدر دوریاں آگئی تھیں.
وہ اس دن کو کوس رہا تھا جب ماہی کو چھوڑ کر گیا تھا. اسے اب پچھتاوا ہو رہا تھا کہ کاش وہ اس کی غلط فہمی دور کیے اس کے پاس ہی رہ جاتا.
یہ عشق بھی بڑی ظالم شے ہے.
اسے ماہی سے عشق چار سال پہلے ہی ہو گیا تھا اس کی معصوم باتوں سے، اس کی معصوم حرکتوں سے، اس کی ہر ادا سے..... وہ شروع سے ہی ماہی کی عاشقی سے واقف تھا.
اس کی ہر حرکت سے اس کی عاشقی جھلکتی تھی وہ جس طرح دیکھتی تھی. اور شاہ کے نظر آ جانے پر اس کی آواز بند ہو جایا کرتی تھی. وہ ہر چیز سے واقف تھا.
شاہ نے اس کی عاشقی میں جانا تھا کہ وہ اس کے لیے کس قدر اہم ہو گئی تھی.
شاہ کی آنکھوں کی تپش تھی کہ وہ نیند میں کسمسائی تھی. اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے.
نہیں..... نہیں.... اس کی بربراہٹ سنے وہ اس کے پاس آ گیا تھا.
شاہ..... وہ زور دار چیخ سے اٹھ بیٹھی تھی.
ماہی.... میری جان میں یہیں ہوں وہ اس کے پاس بیٹھے اسے اپنے سینے سے لگائے بولا تھا.
شاہ.... میں... آپ کے.... لئے... اوپر.... گئی تھی.
شاہ جان گیا تھا کہ وہ اپنی صفائی دینا چاہ رہی ہے کہ وہ اس کے بلانے پر گئی تھی. جبکہ شاہ پہلے سے یہ جان چکا تھا کیونکہ وہ چٹ وہیں موجود تھی اور شاہ نے اسے اپنے ہاتھوں سے اس چیک کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا.میں سب جانتا ہوں میری جان... تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے.
آؤ پہلے کچھ کھا لو.
وہ کھانے کا آرڈر پہلے ہی دے چکا تھا اور کھانا ٹیبل پر رکھا تھا وہ اسے صوفے پر لے آیا تھا.
وہ انہی کپڑوں میں تھی. شولڈر کی طرف سے اس کی بازو کٹی ہوئی تھی.
وہ صوفے پر بیٹھی اس حالت میں بے چین ہو گئی تھی جس پر وہ شال اوڑھے تھی مگر اب..؟
شاہ نے چیئر پر پڑا اپنا کوٹ اٹھایا تھا اور اس پر ڈال دیا تھا. اور اس کے پاس ہی ایک ٹانگ سوفے پر رکھے بیٹھ گیا، اس نے خود آگے بڑھ کر نوالہ بنائے اس کے منہ میں ڈالا تھا.
وہ چپ چاپ کھانا کھانے لگی تھی.
کھانا کھلانے کے بعد وہ اسے پھر سے بیڈ پر لے آیا تھا.
وہ سر بیڈ کی بیک سے لگائے بیٹھی رہی، کافی دیر کی خاموشی کے بعد شاہ اس کے پاس بیٹھ گیا.
اس نے اپنا ہاتھ ماہی کے چہرے کی طرف بڑھایا تھا اور ماہی اپنا منہ دوسری طرف موڑ گیی تھی.
شاہ کو اس کی خاموشی بے چین کر گئی تھی.
شاہ اپنا ہاتھ پیچھے کیے وہاں سے اٹھنے لگا تھا جب ماں اس کا ہاتھ پکڑ چکی تھی.
اس نے ماہی کو دیکھا تھا جو ہاتھ پکڑے اوپر دیکھ رہی تھی.
شاہ آپ مت جائیں.... اس کی آنکھیں رونے سے لال ہو گئی تھی اور اس حالت میں اسے دیکھ شاہ کو اپنے دل میں تکلیف ہوتی محسوس ہوئی تھی.
میں یہیں ہوں تم سو جاؤ وہ اس کا ہاتھ چھوڑے اس پر کمفٹر ڈالے صوفے پر آ گیا تھا.
شاہ کے لئے یہ اطمینان و سکون کافی تھا کہ وہ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بہت قریب موجود ہے.
ماہی لیٹ تو گئی تھی مگر اپنی سوچوں میں بہت دور نکل گئی تھی.
شاہ کے بغیر رہنا یا اس کی نفی کرنا ناممکن سی بات تھی. وہ کب پھر سے نیند کی وادی میں گئی وہ جان ہی نہ سکی، کیونکہ شاہ نے کھانے میں نیند کی گولی ملائی تھی وہ چاہتا تھا کہ وہ ایک لمبی اور پرسکون نیند لے کیونکہ یہ اس کے لئے فائدہ مند تھی.ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے
ساحل پہ سمندر کے خزانے نہیں آتےپلکیں بھی چمک اٹھی ہیں سوتے میں ہماری
آنکھوں کو ابھی خواب چھپانے نہیں آتے_________________
یہ تو بہت اچھا ہو گیا کہ ماہی شاہ کے ساتھ چلی گئی ہے.
مگر بابا جان وہ اسے گھر سے لے جاتا یوں ہوٹل سے ہی لے جانے کی کیا تک تھی.
ابدال شاہ کو صبح معلوم ہوا تھا کہ ماہی کو شاہ اپنے ساتھ لے گیا ہے. جب کہ دادا جان رات سے ہی واقف تھے.
بھئی اس کی بیوی ہے وہ جب چاہے اسے لے جا سکتا ہے اور تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے. کافی سمجھدار بچہ ہے. دادا جان التمش کی سائیڈ لیتے ہوئے بولا.
ہم سب بخوبی واقف ہیں اس سمجھدار بچے سے، جسے پچھلے چار سال بعد یاد آیا کہ اس کی کوئی بیوی بھی ہے؟ ابدال شاہ اپنا غصہ دکھائے وہاں سے چل دیے.
بہو تم بے فکر رہو میرا پوتا ہے اور میں جانتا ہوں اسے اچھے سے وہ اسے منا لے گا.
جی بابا جان... آپ چائے لیں....
ایک ماں کو کیا چاہیے کہ یہی اس کی بیٹی اپنے گھر خوش رہے.
ہانی! ولید نہیں آیا ابھی نیچے؟ جاؤ اسے بلا لاؤ پھر سب مل کر ناشتہ کرتے ہیں.
جی ممانی جان.... میں جاتی ہوں ہانیہ وہاں سے اٹھے کمرے میں آ گئی تھی.
واش روم سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی. مطلب وہ باتھ لے رہا تھا.
کچھ دیر بعد واش روم کا دروازہ کھلا تھا اور وہ باہر آیا تھا.
باہر آتے ساتھ اس نے گیلا تولیہ ہانیہ کے چہرے پر پھینکا تھا.
ہانیہ نے تولیہ اٹھائے خاموشی سے اس کی جگہ پر رکھ آئی تھی.
وہ کل رات سے ہی ولید سے ناراض تھی اور ولید اسی خاموشی سے جان گیا تھا کہ محترمہ ناراض ہیں.
اسی لئے وہ ہانیہ کے پاس آیا تھا جو بیڈ شیٹ درست کر رہی تھی وہ جیسے ہی مڑی وہ سامنے موجود تھا.
وہ سائیڈ سے نکلنے کو تھی جب وہ پھر سے اس کے سامنے آ گیا تھا.
یہ کیا ہے؟ جگہ دیں گزرنے کی.
پہلے اپنا موڈ ٹھیک کرو، کیونکہ تمہیں ایسے دیکھ کر مجھے ڈپریشن کے دورے پڑنے لگتے ہیں.
آپ کو میری فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.... وہ غصے سے بولی .
ہانی ناراض مت ہوا کرو یار مجھے تمہاری ناراضگی برداشت نہیں ہوتی. میں اور میرا دل کمزور ہونے لگ جاتے ہیں.
وہ اسے اپنے حصار میں لیتا جذبے سے بولا.
اس کی انہی باتوں پر تو ہانیہ عادل اپنا دل ہار جایا کرتی تھی.
پھر آپ بھی یاد رکھا کریں نا کہ آپ کے تیز لہجے سے ہانیہ عادل بکھرنے لگتی ہے اور یقیناً آپ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ہانیہ عادل بکھر جائے.
میری ہانیہ بہت بہادر ھے اور میں اسے کبھی بکھرنے نہیں دوں گا. وہ اس کی پیشانی پر پیار کرتا ہوا بولا.
__________________
YOU ARE READING
تیری عاشقی میں جانا (مکمل ناول)
Romanceیکطرفہ محبت! آہ جس میں ایک شخص اپنی انا، غرور، وقار اور عزت نفس کو مار کر اس شخص کی طرف بڑتا ہے جو اپنے حسن، غرور و انا سے پتھر کا بن چکا ہوتا ہے... آخر کب تک وہ پتھر پتھر رہ سکتا ہے؟ ایک نہ ایک دن تو اسے موم ہونا ہی ہے...