Part 28

1.3K 48 1
                                    

وہ صبح دس بجے اٹھ گئی تھی اور ناشتہ کرنے کے بعد ایک ہی رٹ لگائے بیٹھی تھی.
آپ سن رہے ہیں؟ مجھے گھر جانا ہے ابھی اور اسی وقت... مگر شاہ اپنے کاموں میں مصروف تھا.
اس نے صبح آٹھتے ساتھ ہی اپنے فارم ہاؤس کو صاف کرنے کا آرڈر دیا تھا اور پھر اپنے ڈیڈ اور موم کو انفارم کیا کہ میں اور ماہی کچھ دن فام ہاؤس رہنا چاہتے ہیں.
وہ خود صبح اٹھ کر اس کے لیے شاپنگ کر کے آیا تھا اور آتے ساتھ ہی اس نے کھانے کا آرڈر دے دیا تھا.
ماہی کھانا کھائے اب بیڈ پر بیٹھی بولے جا رہی تھی.
اور شاہ نے بنا کچھ کہے شاپنگ بیگ سے اس کے لیے ڈریس نکالے اس کی طرف بڑھایا تھا.
چینج کر لو.... پھر کچھ سوچتے ہیں کہ آگے کیا کرنا ہے.
مجھے کچھ نہیں کرنا... بس اپنے گھر جانا ہے. وہ پھر سے تیز لہجے میں بولی.
میں کب سے تمہاری یہ ٹون برداشت کر رہا ہوں بہتر ہے جیسا کہہ رہا ہوں ویسا کرو اور رہی بات گھر جانے کی تو عورت کا گھر وہی ہوتا ہے جہاں اس کا شوہر رہے.
جب میں تمہارے ساتھ ہوں تو پھر کیوں گھر جانے کی رٹ لگا رکھی ہے؟ وہ اس سے زیادہ تیز لہجے میں بولا تھا.
ماہی کے لیے یقین کرنا ناممکن سی بات تھی جو ابھی کچھ دیر پہلے بول رہا تھا وہ وہ شاہ تو نہ تھا جس نے اتنا سب غلط ہو جانے کے باوجود کچھ نہ کہا تھا اور اب جب وہ گھر جانے کی بات کر رہی تھی تو وہ اپنا لہجہ بدل چکا تھا.

کیا میں آپ کی نظروں میں بڑی ہو چکی ہوں؟ کیا میں آپ کی نظروں میں اس قابل ہو گئی ہوں کہ آپ اپنا حق وصول کرنا چاہتے ہیں؟ اسی لیے... اسی لیے.. آپ... آپ مجھے رات اس ہوٹل میں لائے؟ بولیں کیا یہ سچ ہے؟ وہ اس کے مقابل آ کھڑی ہوئی تھی اور اس کا گریبان پکڑ کر چلا رہی تھی.
جبکہ اس کے الفاظوں کی چاپ شاہ اپنے دل پر محسوس کر رہا تھا.
میں سچ کہہ رہی ہوں نا؟ مطلب آپ... آپ بھی اپنا حق چاہتے ہیں؟ آپ سے یہ برداشت نہ ہوا جس پر آپ کا حق ہے وہ کوئی اور....... وہ ہسی تھی اور اس کا گریبان چھوڑے منہ اوپر کیے ہستی چلی گئی.
شاہ کو اس کی یہ کھوکھلی ہنسی بھی تکلیف دے رہی تھی.
وہ مزید بولی تھی. سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں. آپ بھی انہیں مردوں میں شمار ہوتے ہیں.
آپ مجھے ہوٹل لے آئے تو پھر کیا فرق بچا آپ میں اور بلال...... وہ مزید ہوتی کہ شاہ اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھے اسے دیوار کے ساتھ لگا گیا تھا.
اگر ماہی نم آنکھیں لئے بول رہی تھی تو مقابل کی آنکھوں میں خون کی لہریں جم سی گئی تھیں.
اپنے الفاظ پر غور کرو ماہ جبین شاہ کہ تم کیا کہہ چکی ہو اور کس کے بارے میں کہہ رہی ہو.
میں وہی شاہ ہوں جس کے پاس تم اپنی زندگی کے دو ماہ گزار چکی ہو اور اب تک چار سالوں سے اسی کے نام پر بیٹھی ہو.
میں تمہاری ہر بات برداشت کرتا گیا ہوں اس ایک ہفتے میں... اس لیے نہیں کہ میں تمہیں منانا چاہتا ہوں بلکہ اس لیے کہ میں نے یہ تمہاری عاشقی میں ہی جانا ہے کہ محبوب کی ہر بات پر سر خم کردینا چاہیے.
اگر وہ جان بھی مانگے تو دریگ نہیں کرنا چاہیے لیکن ابھی تم نے جان نہیں مانگی بلکہ اپنے الفاظوں سے سیدھی جان نکال لی ہے.
مجھے میری ہی نظروں میں گرا دیا ہے. تم دو ماہ میرے ساتھ رہی تمہیں کبھی ان سیکیورٹی فیل ہوئی؟  یا کبھی تمہیں لگا کہ میں ان مردوں میں سے ہوں جو صرف اپنا حق لینا جانتے ہیں؟ بولو....
اور تم نے یہ کیسے کہہ دیا کہ میں انہی مردوں میں سے ہوں؟
میں نے تمہیں، خود کو اور اس رشتے کو چار سال دیئے اس رشتے کو آزمانے کے لیے، خود کو اس قابل جانے کے لیے کہ میں واقع ہی ماہ جبین شاہ کی عاشقی پر پورا اترتا ہوں؟
لیکن تم نے چند منٹ پہلے یہ ثابت کر دیا کہ میری سوچ جس کا مرکز تم ہو وہ غلط ہے. وہ بہت گہرے اور سخت لہجے میں بول رہا تھا.

 تیری عاشقی میں جانا (مکمل ناول) Where stories live. Discover now