Part 22

1.3K 47 0
                                    

تین سال بعد

وقت کبھی کسی کے لئے رکا نہیں ہے. نہ کبھی ایک سا رہتا ہے. اس کا کام ہے گزرنا اور وقت گزرتا جاتا ہے.
زندگی کی ہر خواہشات پوری نہیں ہوتیں، اگر پوری ہو بھی جائیں تو اس وقت جس وقت وہ پوری ہو رہی ہوتی ہیں، تب تک اس کی طلب باقی نہیں رہتی... اور جب طلب نہیں رہتی تو وہ خواہش بے معنی ہوجاتی ہے.
شاہ انڈسٹری گزرے چار سالوں میں اپنا مقام پر سے بنا چکی تھی. بخت شاہ نے اپنے شیئرز شاہ انڈسٹری پر لگا دیے تھے.
اور اس کو عروج پر پہنچانے میں ماہ جبین شاہ اور ولید خان کا ہاتھ تھا.
اس وقت کمپنی کا مین سٹاف میٹنگ روم میں موجود تھا. ولید اپنے نئے پروجیکٹ پر پریزنٹیشن دے رہا تھا.
جیسے ہی میٹنگ ختم ہوئی سب پھر سے اپنے کاموں میں لگ گئے .

ماہی اس وقت اپنے کیبن میں موجود تھی.
ان چار سالوں میں وہ کافی بدل گئی تھی بچپناہ، شوخی ان سب کی جگہ سنجیدگی نے لے لی تھی.
سفید شارٹ فراک پہنے، سفید ہی حجاب لئے اور گلابی دوپٹہ ایک طرف ڈالے، اپنے سامنے رکھے لیپ ٹاپ پر مصروف تھی.
جب دروازہ نوک ہوا تھا اور ولید اندر داخل ہوا تھا.
ماہی آفس ٹائم ختم ہوگیا ہے.
ہاں.... بس کام بھی ختم ہوگیا میرا، وہ اپنا لیپ ٹاپ بند کیے اپنا بیگ لئے اٹھ کھڑی ہوئی.
وہ دونوں ایک ساتھ ہی آفس سے نکلے تھے وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھنے کو تھی. جہاں ڈرائیور کھڑا اسی کا انتظار کر رہا تھا.
ولید کی آواز پر وہ رکی تھی.
ماہی... شاہ پیلس چلو، کتنے دن ہو گئے تم نے چکر نہیں لگایا اور ویسے بھی فیضی تمہیں کافی یاد کرتا ہے.
آج نہیں ولی.... آج مجھے آنی کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہے. سیچرڈے، سنڈے آف ہے تو ان دنوں میں ہی چکر لگاؤں گی اور فیضی کو میری طرف سے بہت پیار کرنا... وہ یہ کہے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئی.

وہ گھر آ گئی تھی اور آتے ہی اس نے زرمینہ شاہ کا پوچھا تھا.
سیما آنی کہاں ہے؟
بیگم صاحبہ لیونگ روم میں ہیں، بڑے صاحب بھی وہیں پر ہیں وہ سیما کو پیچھے کرتی لیونگ روم کی طرف بڑھ گئی.
اسلام علیکم! وہ ان دونوں کو سلام کرتی ان کی طرف بڑھ گئی تھی.
وعلیکم سلام میرا بچہ...
آنی جان آپ دو منٹ میں ریڈی ہو جائیں آج ڈاکٹر کے پاس جانا تھا. خالو آپ آنی کو یاد نہیں کروا سکتے تھے؟ وہ ناراض ہوتے ہوئے بولی.
ارے بیٹا میں تو کب سے کہہ رہا ہوں لیکن ان کا دل ہی نہیں کر رہا ہمارے پاس سے اٹھنے کو بخت شاہ بولے تھے.
آپ بھی نا... ایک بار بھی نہیں کہا کہ ہمیں تیار ہونے کو اور کیسے جھوٹ بولے چلے جا رہے ہیں اپنی بیٹی کے سامنے...
ماہی بس میں آتی ہوں، تب تک تم کچھ کھا پی لو میرے بچے...
آنی ہمیں بھوک نہیں ہے. آکر سب مل کر ڈنر کریں گئے.... آپ جلدی کریں.
اوکے.. اوکے بس دو منٹ...

اب اس گھر میں جو رونق تھی وہ بس ماہی سے ہی تھی. ان گزرے چار سالوں میں وہ زرمینہ بیگم اور بخت شاہ کا خیال ایک بیٹی سے بڑھ کر رکھ رہی تھی اور انہوں نے بھی ماہی کو اپنی بیٹی کی طرح ہی رکھا تھا.
وہ سب کے سامنے کتنی ہی مضبوط دل کیوں نہ بن جاتی تھی مگر اکیلے میں وہ اپنا ضبط کھو دیتی تھی.
اسے اب رات کی تنہائیوں سے ڈر نہیں لگتا تھا بلکہ وہ اس تنہائی کی عادی ہوگئی تھی.

 تیری عاشقی میں جانا (مکمل ناول) Where stories live. Discover now